تعلیم نے ہمیں سکھایا بھی تو کیا؟
تحریر۔ رمشا غلام شبیر سیالکوٹ
”علم حاصل کرنا ہر مسلمان مرد اور عورت پر فرض ہے”یہ حدیث زد عام کی صورت ہر مسلمان فرد کی ذہن پر نقش ہو چکی ہے ایک وہ وقت تھا جب صرف مرد کے لیے تعلیم کو ضروری سمجھا جاتا تھا اور عورتوں کو صرف چولہا چوکی سنبھالنے کی غرض سے تعلیم سے محروم رکھا جاتا تھا۔ مگر آج کی اس ٹیکنالوجی کے تیز ترین دور میں لوگ چونکہ تعلیم کی اہمیت و افادیت سے واقف ہو چکے ہیں اس لئے مرد اور عورت دونوں کی تعلیم پر زور دیا جاتا ہے مگر یہاں میرا سوال یہ ہے کہ تعلیم نے ہمیں سکھایا بھی تو کیا؟
کیا تعلیم صرف حاصل کرنا فرض ہے یا سیکھے ہوئے علم پر عمل کرنا بھی لازم ہے؟ ایک آیت کا مفہوم میرے ذہن میں گردش کر رہا ہے کہ:”اے نبی کہہ دیجیے کیا علم رکھنے والے اور علم نہ رکھنے والے برابر ہو سکتے ہیں نصیحت تو وہی حاصل کرتے ہیں جو عقل والے ہیں”تو کیا آج علم رکھنے والے نصیحت بھی حاصل کرتے ہیں یا نہیں؟ کیا آج کا علم صرف کتابوں تک محدود ہو کر رہ چکا ہے؟
آخر عمل کرنے والے لوگ اب اس دنیا میں باقی بھی ہیں یا نہیں؟ایک وہ وقت تھا جب لوگ استاد کو علم کا خزینہ مانتے تھے استاد کی کہی بات پتھر پر لکیر کی صورت ہوا کرتی تھی اور شاید وہی لوگ کامیاب تھے جو استاد کی عزت کرنا جانتے تھے اور ایک آج کا دور ہے کہ اگر استاد کتابوں سے ہٹ کر کوئی نصیحت کرے تو طلباء کی طبیعت پر گراں گزرتا ہے آج کی تعلیم صرف کتابوں اور نمبرز حاصل کرنے تک محدود ہے دیکھا جائے تو ہمارے نصاب اخلاقیات کے مضامین سے بھرے پڑے ہیں مگر کیا
یہ اخلاقیات کردار میں بھی نمایاں ہو پائی ہیں؟
ایک اقبال نے بھی کیا خوب کہا ہے:
سبب کچھ اور ہے تو جس کو خود سمجھتا ہے
زوال بندہ مومن کا بے زری سے نہیں
آج یہ امر غورطلب ہے کہ ہم نے صرف علم کو حاصل کیا یا علم کو سیکھا بھی ہے اور اگر سیکھا ہے تو اس پر عمل بھی کیا ہے یا نہیں؟