نقوش نقاش نائطی، ایک طائرانہ نظر
تحریر: نقاش نائطی
۔ +966572677707
شاعر و نقاد اردوعبداللہ رفیق، خالق کائینات کی دعوت پر لبیک کہتے اس فانی دنیا سے آس اخروی دنیا کی طرف کوچ کر چلے گئےچار ساڑھے چار دیے قبل، زمانہ طلاب کلیہ،جب ہم کالج سالانہ اختتامی تقاریب میں پیش ہونے والے ڈراموں کی تیاریوں میں مصروف تھے۔ ہمارے ہم عصر طالب علم، نعیم شبر ایکری ہمارے پاس آئے اور کہنے لگے،انکے ذہن میں بھٹکل معاشرے کی شادیوں میں خصوصی طور پکنے والے، لال مرچ ترکاری سے بنے ایک خاص سالن، جسے مقامی طور “رائیطہ” کہا جاتا پے
اسی پر ایک خاکہ یا پلاٹ ہے، کیوں نہ ہم اس پر نائطی ڈرامہ لکھ کر اسٹیج کریں اور یوں انکے تخیلاتی نقوش پر ہم دونوں نے نہ صرف وہ “رائیطہ چو پسولو” یا “رائیطہ سالن کا پاگل” ڈرامہ لکھا بلکہ اس ڈرامے کا مرکزی کردار اس رائیطہ سالن کے پاگل پن کی حد تک شوقین بوڑھے کا مرکزی کردار ادا کرتے ہوئے، ہم نے کامیاب انداز اسٹیج بھی کیا تھا۔ اور غالبا اہل نائیطہ تاریخ کا وہ پہلا کامیاب اسٹیج کیا
ہوا ڈرامہ تھا۔ اس وقت وہ رائیطہ چو پسولو ڈرامہ اتنا مقبول و پسند کیا گیا تھا کہ ان ایام ڈاؤن ٹاؤن پرانے بھٹکل کی چند گلیوں پر مشتمل ،گاؤں کے کسی بھی گھر میں وہ نائطی ڈش رائیطہ پکتا تو “رائیطہ چو پسولو” کے گھر از راہ مذاق لوگ ضرور رائیطہ بھیجا کرتے تھے
اس کے کچھ مہینوں بعد ایک باریش جوان سے ہماری سے ملاقات ہوئی۔اس نے اپنا تعارف کراتے ہوئے کہا کہ ممبئی سے شائع ہونے والے اس وقت کے مشہور نائطی پندرہ روزہ النوائط میں اور النوائط کے بند ہونے کے بعد، نقش نوائط پندرہ روزہ میں، وہ مستقل اصلاحی کالم لکھتے ہیں، انہوں نے کہا کہ گو انہوں نے رائیطہ چوپسولو ڈرامہ بنفس نفیس نہیں دیکھا ہے، لیکن ایک نقاد قوم قلم کار کی طرح، اس ڈرامے کی تعریف سن رکھی ہے،
اس نے ہماری ہمت افزائی کی اور ایک دوسرے ڈرامے کا تخیل ہمارے سامنے پیش کیا۔ اس پر ان کے تحریرا” پیش کئے تخیل پر ہم دونوں نے مل کر، بھٹکل میں پیش کیا جانے والا دوسرا نائطی ڈرامہ “دوبئی چو وھریت”، “دوبئی کا دولہا” انکی ہدایت کے ساتھ دوسرے سال پیش کیا۔جو کافی مقبول و پسند بھی کیا گیا تھا
ہم سے اس وقت ملاقات کرنے والا وہ صاحب رئش جوان ہمارے گاؤں کا ایک نقاد قلم کار،شاعر عبداللہ رفیق ہی تھا، جس کے انتقال کی آج آئی خبر نے ہمیں ان پر کچھ کلمات لکھنے کی توفیق بخشی ہے۔اللہ مرحوم عبداللہ رفیق کو اپنی جوار رحمت میں جگہ عطا فرمائے اور قبر و برزخ کے مختلف مدارج کو ان کے لئے آسان فرماتے ہوئے، جنت کے اعلی مقام کو ان کے لئے محجوز رکھے
ہمارے ہم عصر تمیم شبر ایکری اور مرحوم عبداللہ رفیق علیہ الرحمہ کے ساتھ مشترکہ دو ڈرامے لکھنے کی وجہ سے، ہم نے ایک نقاد قوم کی طرح مختلف مضامین لکھنا شروع کئے تھے اور اللہ غریق رحمت کرے بانیان نقش نوائط کو، انہوں نے ہماری کاوشات کو نقش نوائط کے صفحات پر طبع کرواتے ہوئے،
ہماری ہمت افزائی کی تھی۔ ان ایام نقش نوائط اخبار میں ایک اصلاحی مستقل کالم بنام “گڑگڑی میراں “، “حقہ باز میراں” ہوا کرتا تھا اس تخیلاتی کردار کے ذریعہ سے کھل کر معاشرے میں پنپنے والی برائیوں پر طنز کسے جاتے تھے۔ اس مستقل کالم کو مرحوم عبداللہ رفیق کے ساتھ انیک قلم کار لکھا کرتے تھے۔
ان دو ڈراموں کے بعد تیسرے سال جب ہم میں بھی قلم کار بننے کا بھوت سوار ہوا تو، ہم نے نقش نوائط مشہور کالم “گڑگڑی میراں” کےنام سے ڈرامہ تحریر کر، اسے پیش کرنے سے پہلے بانیان نقش نوائط سے اجازت چاہی تو اس وقت انہوں نے نہ صرف اجازت مزحمت فرمائی، بلکہ خود ڈرامہ دیکھنے کی خواہش کا اظہار بھی کردیا۔
اور غالبا وہ پہلی کالج سالانہ تقریب تھی، جس میں شب کے ڈرامے دیکھنے نساء قوم کے امڈتے طوفان پر، روک لگانے مقامی علماء کرام جہاں سرگرم عمل تھے، ان ایام کچھ ذمہ داران نقش نوائط، نے شب کی تاریکیوں میں، مجمع کے پیچھے کھڑے ہوکر، ہماری ہدایت میں پیش کردہ قوم کےپہلے، گڑگڑی میراں نائطی ڈرامہ دیکھتے ہوئے ہماری ہمت افزائی کی تھی۔ ان ایام ہمارےتحریر و ہدایت کر، پیش کئے جانے والے، کچھ معرکہ الاراء ڈرامے”گڑگڑی میراں پسولو زالو”(پاگل ہوا) “ونتی کان”، (دیوار کے کان)، “ونتی پائیں”،(غیرقانونی تجارت)، “ساٹو گلا کاٹو”،(بھائی بہن کی بدلے کی شادی گلے کا کانٹا)۔
غالبا” پچاس سال قبل بلاد شہر بمبئی یا ممبئی میں مصروف معاش، ہمارے اہل نائطہ برادری کے چند افراد نے المحترم مرحوم حسن باپا ایم ٹی علیہ الرحمہ، مرحوم عبداللہ دامودی علیہ الرحمہ سمیت کچھ جماعت اسلامی سے متاثر احباب نے، اہل نائطہ کا ایک مشہور پندرہ روزہ النوائط کا اجراء کیا تھا جس میں مرحوم عبداللہ رفیق علیہ الرحمہ بھی اصلاحی کالم لکھا کرتے تھے۔ پھر کچھ عرصہ بعد بلاد شہر بمبئی ہی سے المحترم
مرحوم عبد الرحیم ارشادعلیہ الرحمہ، المحترم مرحوم محمدعلی قمر علیہ الرحمہ اور المحترم موٹیا مولوی عبدالعلیم قاسمی مدظلہ اپنے کچھ دوستوں کے ساتھ قوم نائط کا دوسرا پندرہ روزہ نقش نوائط کا اجراء کیا تھا جو الحمد للہ آج بھی اس لاسلکی مکر جال(انٹرنیٹ) دور عصر حاضر میں بھی، ایسے تیسے اپنی اشاعت کے نصف صدسال عمر تکمیل کی کوشش میں ہے، اللہ کرے کہ قوم کا یہ دوسرا پندرہ روزہ اخبار نقش نوائط نصف صد سال ہی کیوں؟ صدیوں تک پوری آن بان شان سے قوم نائطہ کی اصلاحی خدمات میں و مصروف و مگن رہے۔
وقت حصول تعلیم کالج ان سنہرے ایام بعد، ریگزار خلیج کی سنگلاخ وادیوں میں،مصروف معاش رہتے ہوئے بھی، ہم نے طنز و مزاح کے اس مشہور کردار گڑگڑی میراں کا سہارا لئے،سماج سدھار کے متعدد مضامین قلم بند کئے تھے، جن میں “گڑگڑی میراں چی دھوئے چے توڑگوڑ”(بیٹی کی نسبت) “گڑگڑی میراں گویا زالو”(عامل گری) جیسےمضامین لکھے تھے، جو کافی مقبول ہوئے تھے۔ نقش نوائط ادارے سے ہم مودبانہ درخواست کرتے ہیں کہ وہ پہلے سے طبع شدہ گڑگڑی میراں مضامین کو، قوم و ملت کی عام افادیت کے لئے، از سر نؤدوبارہ طبع کریں تو مفید و مناسب رہے کا۔ اور ان کے پاس پرانے ریکارڈ موجود وہ مضامین کی نقل گر ہمیں بھیج دیں تب عام افادیت کے لئے ہم اسے طبع کرواسکتے ہیں
چونکہ احقر کی لکھاوٹ برساتی دنوں مٹی پر گنڈویا (آئینش) کیڑوں کی نقل و حرکت سے بنی ایڑھی ٹیڑھی لکیروں جیسی ہوا کرتی تھی اور ایک مضمون طباعت، لکھ بھیجنے کے لئے،صاف صاف لکھنے کی سعی میں، متعدد بار لکھنا پڑتا تھا، اسلئے معشیتی مصروفیت نے، قلم کی کاوشات کو التوا میں رکھنے، ہمیں مجبور کیا ہوا تھا۔ اللہ کا بڑا فصل و کرم ہوا، ایکسویں صدی کی ابتداء سے حاسب آلعالی (کمپیوٹر) عام ہونے نے،
اور پاکستان کے کچھ اردو دوستوں کے اردو طرز تحریر کو حاسب عالی پر تحریر کرنے، اردو ایپ اجراء کے بعد،از سر نو دوبارہ تبصراتی مضامیں لکھتے ہوئے، علیگڑھ و حیدرآباد سے تعلق رکھنے والے ہزاروں اراکین پر مشتمل،ائ میل بزموں میں ترسیل کرنا شروع کیا تھا۔ سعودی عرب سے طبع و نشر ہونے والے مشہور انگریزی اخبار عرب نیوز کے ایک مستقل قلم کار، مہارشٹرا اورنگ آباد سے تعلق رکھنے والے،
المحترم سراج وہاب کو ان کی اردو ادب خدمات کو سراہتے ہوئے، حیدر آباد دکن کے مشہور متوفی سیاست دان سلطان صلاح الدین اویسی،بانی اے آئی ایم آئی ایم، اسدد الدین اویسی کے والد ماجد کے نام نامی شروع کئے گئے اردو ادب کے معرکہ الاراء ایوارڈ، “سونے سے بنی قلم کی طاقت تلوار” سے نوازے جانے پر، علیگڑھ برادری کی طرف سے محترم سراج وہاب کے اعزاز میں ایک نشت و عشائیہ رکھی گئی تھی۔
ہم منتظمین کی طرف سے وہاں شریک محفل تھے۔ اتنے بڑے مجمع میں، دوران مصافحہ ہم نے،”ہم بھٹکل سےفاروق شاہ بندری” کیا کہا، انہوں نے ہمارا ہاتھ مضبوطی سے تھامتے ہوئے، ہم سے پوچھا کہ کیا آپ ہی ابن بھٹکلی ہیں؟ اثبات میں جواب ملنے پر،وہ بڑی ہی گرم جوشی کے ساتھ ہم سے بالخیر ہوئے اور ہمارے لکھے تبصراتی مضامین کی سب کے سامنے کچھ ایسے انداز تعریف و توصیف کی اور مسلسل لکھتے رہنے کی کچھ ایسے ترغیب دی کہ ہمارے اندر کا قلم کار، ہمارے نہ چاہتے ہوئے
بھی عود کر باہر آگیا اور ہم پھر تبصراتی مضامین کو ابن بھٹکلی قلمی نام سےلکھتے لکھتے، معاشرتی اصلاحی مستقل مضامین ،نقاش نائطی کے قلمی نام سے لکھنے لگے۔ آج نقاش نائطی کے جو مضامین حیدر آباد، کرناٹک، مہاراشٹرا، یوپی بہار، دہلی کے ساتھ ہی ساتھ پاکستان و انگلینڈ کے مختلف ویب پورٹل و اخبارات میں مکرر شائع ہورہے ہیں اس کا محرک ہم،ہمارے بچپن کے دوست تمیم شبر ایکری
، جناب عبداللہ رفیق مرحوم اور بانیان نقش نوائط کے ساتھ ہی ساتھ،عرب سے مستقل شائع ہونے والے عرب نیوز کے نامہ نگار اورنگ آباد والے محترم سراج وہاب کو دیتے ہیں اور انکے ممنون و مشکور بھی ہیں اور انکی دنیا وآخرت کامیابی کے لئے دعاگو بھی ہیں۔ ہم اپنے مشن آگہی میں کتنے کامیاب ہیں
اور ہم میں اب بھی کتنی لغزشیں پائی جاتی ہیں یہ ہمارے قارئین اور ہمیں پیدا کرنے والے خالق و مالک ہی کو بخوبی پتا ہے۔ ہماری ہمیشہ یہ دعا رہتی ہے کہ وہ پاک پروردگار،بحیثیت بشر ہم سےہوئی لغزشوں گناہوں کو درگزر کرتے ہوئے، ہمارےاس مشن آگہی قوم و ملت ہی کے طفیل، خاتمہ بالخیر ہوتے، سرخرو ہو اپنے رب کائینات کے پاس لوٹنے والوں میں سے، ہمیں بنائے، وما علینا الا البلاغ