جذبہ غازی بنوں گا یا پھر شہید ہو جاوں
تحریر: کیپٹن ڈاکٹر عمر حیات بچہ سرگودھا
6 دسمبر 1971ء
6 دسمبر 1971 آج سے 50 سال قبل کی بات ہے کہ خالد رشید چوہدری آف دھریمہ، ڈاکٹر نذیر چدھڑ حال مقیم امریکہ، ڈاکٹر حبیب الرحمن ماہر امراض دل شفا انٹر نیشنل ہسپتال اسلام آباد اور دیگر احباب سی ایم ایچ لاہور پہنچ گئے، وہاں طبی معائنہ تھا عجب جذبہ اور شوق تھا جنگ میں جانے کا جنون تھا۔
ماشاء اﷲ ریلوے نظر بد سے بچا ہوا تھا، یوں لگا ہم چشم زدن میں راولپنڈی پہنچ گئے یہ سی ایم ایچ راولپنڈی تھا، ہمیں قواعد و ضوابط پڑھائے اور سکھائے جا رہے تھے، سلوٹ اور سلامی کی ٹریننگ، ایمر جنسی میں وردیاں تیار ہو گئیں۔ یا پھر جوں توں کر کے ہم وردیوں میں داخل ہو گئے، عنفوان شباب تھا
اور میں کپتان تھا اور مجھے راجستان سیکٹر جانا تھا۔تیز رفتار گاڑی پر جانب منزل روانہ ہوا۔ جہلم، لالہ موسیٰ، ملکوال، پھلروان۔ میں خوش تھا، 1958ء میں میں پھلروان ہائی سکول میں چھٹی جماعت میں داخل ہوا، 13 سال بعد بفضل خدا میں ڈاکٹر تھا اور فوج میں کپتان۔ پھر سرگودھا، فیصل آباد، بہاول پور، رحیم یار خان، صادق آباد اس تمام راستے میں لوگوں کا جوش و خروش و جذبہ، عزت و احترام، عقیدت قابل دید تھی۔
کھانا اور ناشتہ سب سے بڑھ کر خلوص اور دل سے دعائیں۔صادق آباد سے آگے ریتی اور کوبر کے ریلوے سٹیشن دشمن کی بمباری سے تباہ ہو چکے تھے، صرف ٹریک قابل استعمال تھا، رات کے 12 بجے اوباڑو ریلوے سٹیشن پہنچ گئے۔ یہی مرا آخری پڑائو تھا رات کی تاریکی تھی، سڑک ویران تھی، سواری نا پید تھی، اچانک ایک فوجی گاڑی رکی میں نے بتایا اوباڑو ایم۔ڈی۔ایس MDS میں جانا ہے
، وردی میں نے شیر کی کھال کی طرح اتاری نہیں۔ یہی میری پہچان تھی اور شناختی کارڈ۔اوباڑو میں صورت حال بہت پریشان کن تھی اور ایمان افروز، شدید زخمی، خون بہہ رہا ہے۔ موت و حیات کی کشمکش ہے اور جوان اﷲ اکبر کے نعرے لگا رہے ہیں، میری یونٹ کہاں ہے میرے جوان کہاں ہیں، مجھے محاذ جنگ پر جانا ہے۔
میں غازی بنوں گا یا پھر شہید ہو جائوں گا۔ڈاکٹر مجھے آزاد کرو اور پھر وہ موت کی آغوش میں چلا جاتا ہے اور زندگی کی قید سے آزاد ہو جاتا ہے۔ مجھے اپنا دوست کیپٹن اکمل یاد آیا، جو کے ای میڈیکل کالج میں میرا کلاس فیلو تھا، طب چھوڑ کر فوج میں بھرتی ہو گیا وہ استاد محترم پروفیسر ڈاکٹر محمد افضل کا بیٹھا تھا،
سابق سیکرٹری صحت حسن وسیم افضل کا بھائی تھا، محاذ جنگ میں شدید زخمی ہو گیا۔ سی ایم ایچ راولپنڈی میں داخل تھا، شدید زخمی تھا اور کہہ رہا تھا۔ ڈاکٹر بچہ میرے جوان میرا انتظار کر رہے ہیں، مجھے محاذ جنگ پر جانا ہے۔
راجھستان سیکٹر میں قیامت اس دن آئی جب ہماری فوج نے راتوں رات مختلف سیکٹرز سے 20,30,40,50 کلو میٹر کا سفر کر کے ایڈوانس کیا اور راتوں رات بارڈر پر پہنچ گئے، دشمن بظاہر خواب خرگوش کے مزے لے رہا تھا، عیار دشمن نے بارڈر پر مائنز بچھا رکھی تھی، فضا سے ہوائی جہازوں اور ہیلی کاپٹرز نے حملہ کر دیا، ’’آگے آگ تے پچھے کدھ، نہ جائے رفتن نہ پائے ماندن‘‘۔ اس کے بعد کیا حشر ہوا الامان الحفیظ یوں جیسے طوفان بادوباراں کے بعد پرندوں اور پتوں کا حال ہوتا ہے، اس کے باوجود کرنل انور شاہ کی شہادت کی خواہش نہ ہوئی، وہ اداس اور اشک بار تھا۔
ہمارے ہسپتال میں رش بڑھ گیا ہم نے اوباڑو سے ہجرت کی اور احمد پور لمہ ریسٹ ہائوس میں ایک جھوٹا سا فوجی ہسپتال بنا لیا۔ احمد پور لمہ صادق آباد سے چند میل دور ہے، اس سے آگے بھونگ ہے جہاں ایک خوبصورت مسجد ہے، گدو بیراج نواز آباد سے آگے ہے، اور زیادہ دور نہیں ہے۔ صادق آباد سے دوسری طرف ٹلو بنگلہ اور منتھار بنگلہ ہے، میں نے جتنا پاکستان فوج میں دیکھا بعد میں کہاں۔ ہم خرماں ہم ثواب۔
بریگیڈیئر واجد علی شاہ سے احمد پور لمہ میں ملاقات ہوئی وہ بیمار تھے، ہمارے پاس داخل تھے، مجھے کہتے ڈاکٹر بچہ آپ سے گپ شپ لگا کر زبان کی الی لہہ جاتی ہے۔ سارا دن فوج میں انگریزی بول بول کر بور ہو جاتے ہیں، بعد میں وہ اٹک سازش کیس میں ملوث ہو گئے اور پس دیوار زندان تھے۔
پروفیسر ڈاکٹر خرم منظور چوہدری کے والد بریگیڈیئر ڈاکٹر منظور چوہدری سے راجھستان میں ملاقات ہوئی، ملاقات کیا ہوئی۔
کوبہ بکو پھیل گئی بات شناسائی کی
اس نے خوشبو کی طرح میری پذیرائی کی
وہ بعد میں AFIP کے بانی اور سربراہ تھے اور جنرل برنی کے باس تھے، کرنل سی اے مجید اس ڈویژن کے کرنل سٹاف تھے، ان سے ملاقات دوستی میں بدل گئی اور پھر وہ برادر بزرگ بن گئے وہ بعد میں بریگیڈیئر اور پھر جنرل بن گئے۔ وہ GOC سیالکوٹ اور DMLA سرگودھا تھے، 1980 میں پشاور کی تاریخ کے پہلے کمانڈر فضل حق امریکہ چلے گئے اور چوہدری صاحب سرحد کے گورنر بھی بن گئے۔٭ جنرل احمد نواز سلیم میلہ اپنے محاذ پر سر گرم تھے۔
بنا ہے شاہ کا مصائب اور پھرے ہے اتراتا
ورنہ شہر میں غالب کی آبرو کیا ہے۔