یہ رہبانیت ہے
جمہورکی آواز
ایم سرور صدیقی
اللہ تعالیٰ نے آخری الہامی کتاب میں واشگاف اندازمیں کہا ہے کہ بے شک انسان ناشکرا ہے یہ اتنی بڑی حقیقت ہے کہ انکار ممکن ہی نہیں درویش نے ایک آہ بھرکہا ناشکری کاسبب خواہشات ہیںیا غربت ہرکوئی اس سوال کا جواب اپنے دل سے پوچھے دودھ کا دودھ پانی کاپانی ہونے میں دیر نہیں لگے گی ویسے تو خواہشات کا سلسلہ اتنا درازہے کہ ہر ،خواہش پر دم نکلنے کی کہاوت سچ محسوس ہوتی ہے
بہت سے لوگ تاویلیں دیتے پھریں گے صاحب کیا کریں آج کل اتنی غربت کیوں ہے کہ گذارا ہونا محال ہے؟ ایسے تمام لوگوں کو چاہیے وہ ذرا ماضی کے دریچے میں جھانک کر سوچیں کماحقہ‘ جواب مل جائے گا کیونکہ در حقیقت آج اتنی غربت نہیں جتنا لوگوں نے شور مچا رکھا ہے آجکل ہم جس کو غربت سے تعبیرکیاجاتاہے وہ در اصل خواہشات کا پورا نہ ہونا ہے۔ درویش نے دور کہیں دور خلائوںمیں گھورتے ہوئے
کہا الگ تھلک رہنے کو ترجیح دینا،فقط اپنے متعلق ہی سوچنا ،دوسروں کو نظراندازکرنا،رشتوں کااحترام نہ کرنا اخلاقی قدروں کی بے پرواہی بھی اپنے رب کی نا شکری ہے ناشکرا انسان رہبانیت کا شکارہے یہاںپرموجوددرجنوںافراد نے یقینا تو غربت کے وہ دن بھی دیکھے ہوں گے اسکول میں تختی پر گاچی کے پیسے نہیں ہوتے تھے تو مٹی لگایا کرتے تھے اب نئی نسل کو کیا معلوم یہ تختی،سلیٹ اور گاچی کیا ہوتی ہے
وہ تو یقینایہ بھی نہیں جانتے ہوں گے جن طلباء کے پاس سلیٹ پر لکھنے کے لئے سلیٹی کے پیسے نہیں ہوتے تھے بجری کا کنکر استعمال کرلیا کرتے تھے کیا سادہ دور تھا ابھی دلوںمیں اتنی،نفرتیں،کدورتیں اور منافقت نہیں تھی اسکول کایونیفارم عید ین پر بھی پہننے میں کوئی ہرج نہیں تھا جوتے بھی ہی لینے کوترجیح دی جاتی جو سکول میں بھی کام آجائے اوراگر کسی شادی بیاہ کے لیے کپڑے خریدتے تھے
تو اسکول کلر کے ہی لیتے تھے۔ بیتے دنوںکو یاد کرکے درویش کے ہونٹوںپر مسکراہٹ پھیل گئی اس نے کہا ان دنوں موسموں اور مزاجوں میں سادگی تھی دلوںمیں اتنی نفرتیں،کدورتیں اور منافقت نہ تھی بیٹیاں پورے محلے کی بیٹیاںسمجھی جاتی تھیں ایک گھرمیں شادی ہوتی تو پورا محلے میں رونق اور خوشیاں امڈ آتیں کپڑے اگر پھٹ جاتے تو سلائی کر کے بار بار پہنتے تھے جوتا بھی اگر پھٹ جاتا بار بار مرمت کروانابرانہیں لگتا تھابیشترکم وسائل کے پیروں میں پلاسٹک کا جوتا ہوتا تھا۔۔برانڈڈ کاتوکسی کو پتہ بھی نہیں تھا
یہ کم بخت کیا چیزہوتی ہے آج رزق کی فراوانی ہے،ہزاروںنعمتیں ہمارے پاس ہیں کھا کھا کر ہمارے دانت گھس گئے ہیں لیکن ناشکری نہیں جاتی گلہ ،شکوہ اور کفران ِ نعمت ہرشخص کا شیوہ بن گیاہے شاید یہ انسان کی شرست میں شامل ہے۔کبھی ماضی کو یادکرو یہ تیس چالیس پرانی بات ہوگی جب گھر میں اگر مہمان آجاتا تو کسی پڑوسی کے ہر گھر سے کسی سے گھی کسی سے مرچ ، نمک مانگ کر لاتے تھے
کیونکہ وہ بھی ایسا ہی کرتا تھا یہ کوئی معیوب بات نہیں تھی پورا محلے کا ماحول گھرجیسا تھا بیشترگھروالوںکے پاس تالہ نہیں ہوتا تھا آج ہم تالے لگاکربھی غیرمحفوظ ہیں۔غورکرنے کی بات ہے آج تو ماشاء اللہ گھروں میں ایک کئی کئی ماہ کا سامان پڑا ہوتا ہے۔ مہمان کسی وقت بھی آجائے کوئی فکر نہیں ہے آج تو اسکول کے بچوں کے دو یا تین یونیفارم اور بچوںکے زرق برق لباس ضرور ہوتے ہیں۔ آج اگر کسی کی شادی پہ جانا ہو تو مہندی بارات اور ولیمے کے لئے الگ الگ کپڑے اور جوتے خریدے جاتے ہیں
پھربھی دل نہیں بھرتا ہر عورت کی خواہش ہوتی ہے جو لباس میں ایک فنگشن میں پہنوں اس سے الگ اور منفرد دوسرے فنگشن میں نہ ہوا تو گویا ناک کٹ جائے گی کیا زمانہ آگیاہے ہم نے خواہشیں اتنی پال لی ہیں کہ وسائل کم پڑ گئے ہیں اسی لئے گھر ٹوٹ رہے ہیں جھگڑے،نفرتیں،کدورتیں آسمان کو چھونے لگی ہیں
سادگی،قناعت اورمروت ختم ہوکررہ گئی ہے ایک دور تھا جب ایک کسی بھی تقریب میں جانے کے لئے ہزار پان سو میں اپنے آپ کو مینج کرلیا کرتا تھا اور جیب بھی پیسوںکی کمی کااتنا ملال نہیں تھا تو آج کپڑے ایسے آگئے ہیں کہ وہ پھٹے ہی نہیں اب غربت کا رونا رو نے والوں کے پاس ہزار وںمالیت کا موبائل، دو تین ہزار سے کم کیا سوٹ پہناہوگا، جوتا کم سے کم تین ہزار کا نت نئے ماڈل کے گاڑیاں،موٹرسائیکل ۔۔پھربھی ناشکری ایک دوسرے سے لاتعلقی اسی لئے اللہ تعالیٰ نے آخری الہامی کتاب میں واشگاف اندازمیں کہا ہے
کہ بے شک انسان ناشکرا ہے یہ اتنی بڑی حقیقت ہے کہ انکار ممکن ہی نہیں۔غورکریںتو محسوس ہوگا ہمارے غربت کے دن تو وہ تھے جب گھر میں لالٹین یامٹی کادیا جلانے کے لیے تیل نہیں ہوتا تھا روئی کو سرسوں کے تیل میں ڈبو کر جلا لیتے آج کے دور میں خواہشوں کی غربت ہے سچ تو یہ ہے آج خواہشات کا پورا نہ ہونے کا نام غربت ہے ہم ناشکرے ہوگئے ہیں اسی لئے برکتیں اٹھ گئی ہیں سچ بات یہ ہے کہ پہلے درجہ بندی کم تھی معاشرتی اسٹیٹس کم و بیش ہونے کے باوجود دل نرم تھے ،صلہ رحمی کا مظاہرہ کیا
جاتا تھانفرتیں،کدورتیں اور منافقت کم کم تھی ، اللہ پر بہت زیادہ توکل بہت تھا، باہمی ہمدردی زیادہ تھی، مل کر رہنا اچھا سمجھا جاتا تھا جبکہ آجکل تنہائی سے دوستی ہو گئی ہے موبائل فون نے ہرکسی کو ایک دوسرے بے نیاز اور تنہا کرکے رکھ دیا ہے یقین جانو جب سے ریفریجریٹر آیالوگ کمینے ہوگئے ہیں تھوڑا تھوڑا سالن بھی بچاکررکھ لیاجاتاہے پھر کھالیں گے ایک دوسرے سے لاتعلقی یہ رہبانیت ہے
اور ایک مسلمان کا یہ طرزِ عمل نہیں۔درویش نے کہا اگر کسی کے معاملات پہلے سے بہتر ہیں، اللہ کی نعمتیں بدرجہا زیادہ ہیں،صحت تندرستی اور وسائل کی افراط ہے تو اس کا مطلب ہے وہ مادی اعتبار سے مضبوط ہورہاہے ترقی اس کا مقدربن رہی ہے لیکن ایسے لوگ اکثر شکر ، توکل اور باہمی تعلقات کے حوالے سے کمزور ہیں انہیں چاہیے کہ وہ اللہ کریم کا زیادہ سے زیادہ شکراداکرے کہ وہ کسی کا محتاج نہیں
دوسروںکااحساس کرے،خوف ِ خدا سے دل میںمزین کرے ایک بہترین معاشرے کی تشکیل و تعمیرکیلئے ایک دوسرے سے لاتعلقی ،صلہ ٔ رحمی کا فقدان،بے رحمی،فرعونیت کا مزاج انتہائی خوفناک رحجان ہوتاہے یہ دلوںکو مردہ کرکے رکھ دیتاہے جو ایک نارمل انسان کے شایان ِ شان ہرگزنہیںیادرکھیں رہبانیت اللہ کے شکرگذار بندوںکا شیوہ نہیں ہوتا۔