ابنِ عربیؒ کے خواب
جمہورکی آواز
ایم سرور صدیقی
وہ ایک شہزادہ تھا اسے دنیاکی ہر آسائش میسر تھی نوکرچاکر،خادمائیں ایک اشارہـ ابروکی منتظررہتیں لیکن شہزادے کے اندرکا انسان مطمئن نہیں تھا وہ لوگوںکے حالات دیکھ کر کڑھتارہتا جنگیں،قتل و غارت مارا ماری سے اس کو نفرت ہونے لگی ایک دن اس نے دیکھا ایک جنازے میں مرنے والے کے عزیزو اقارب رو رہے ہیں یہ دیکھ کر وہ پریشان ہوگیا اس نے دل ہی دل میں سوچا واقعی یہ دنیا دکھوں کا گھر ہے رات وہ سونے لگا تو اسے کسی کروٹ نیند نہ آئی اس نے شاہی خلعت اتارکر عام سا لباس پہنا اور چپکے سے محل سے باہر آگیا یہ سدھارتھ تھا یعنی مہاتما بدھ۔
وہ ایک بادشاہ تھا
ایک رات کے آخری پہر سوتے میں جاگ اٹھا اسے محسوس ہوا جیسے ماحول پر کوئی پراسرار یت چھائی ہوئی ہے پھر اسے کسی کے قدموںکی چاپ سنائی دی وہ بستر سے اٹھ بیٹھا ملکہ پر ایک نظردوڑائی جو گہری نیند سوئی ہوئی تھی وہ چپکے سے اٹھا دیکھا ایک حسین و جمیل شخص کچھ تلاش کررہاہے بادشاہ نے قریب جاکر پوچھا تم کون ہو؟ اور کیا تلاش کررہے ہو؟ اس نے کہا میں اپنا اونٹ تلاش کررہاہوں
اونٹ۔۔ بادشاہ نے حیرانگی سے کہا محل میں اونٹ؟ جی ۔۔میں اونٹ ہی تلاش کررہاہوں پراسرارشخص نے جواب دیا یہاں اونٹ کیسے مل سکتاہے بادشاہ نے کہا اس شخص نے کہا جس طرح محل میں اونٹ نہیں مل سکتاتوپھرمحل میں اللہ کیسے مل سکتاہے یہ کہتے ہوئے پراسرارشخص نہ جانے کہاں گیا لیکن اس کے جواب نے بادشاہ کو ہلاکررکھ دیا اس نے چپکے سے محل کو خیرباد کہہ دیااور دریا کے کنارے ایک کٹیا میں اللہ اللہ کرنے لگا۔ یہ کہانی بلخ کے بادشاہ ابراہیم ادھمؒ کی ہے۔
وہ ایک نامور خاندان سے تعلق رکھتا تھا
اپنے ابائو اجدادکی طرح شاہی ملازمت میں تھا لیکن وہ بڑاحساس ،ذہین فطین ہونے کے باعث سوچاکرتاتھا میں اس ملازمت کے لئے موزوںنہیں طبیعت اللہ والوںکی طرف مائل تھی تعلیم و تدریس کا شوق دل میں اجاگرہوا تو ہرچیزسے دل اٹھ گیا تو اس نے علماء کرام ،صوفیوں اور دانشورو ں کی صحبت اختیارکرلی دنیا انہیں شیخ اکبر المعروف ابن عربی کے نام سے یادکرتی ہے ۔ تاریخ میں چند ہی ایسی شخصیات ہوں گی
جنہوں نے عیش و آرام کی زندگی کو ترک کرکے اللہ سے لو لگالی اور انسانیت کی خدمت کے لئے کوشاں ہوگئے ان میں ایک بادشاہ کے خوبرو شہزادے سدھا رتھ تھے جو گوتم بدھ اور مہاتمابدھ کے نام سے مشہور ہوگئے انسانی تہذیب و تمدن پر مہاتما بدھ کی تعلیمات کے بڑے اثرات مرتب ہوئے اور قبل مسیح میں وفات پاجانے کے باوجود بدھ مت کا شمار دنیا کے بڑے مذاہب میں ہوتاہے اسی طرح ابراہیم ادھم بادشاہ ہونے کے باوجود عیش و آرام کو تیاگ دیا دنیا میں ایسی جتنی بھی شخصیات گذری ہیں
وہ بڑی حساس طبیعت کی مالک تھیںاورانہوں نے انسانوںپر اپنے گہرے اثرات مرتب کئے ہیں۔ شیخ اکبر المعروف ابن عربی اپنے خوابوں کے باعث بھی بڑے مشہور ہیں انہیں بہت سے علم وفنون پر فطری ملکہ حاصل تھا اور اکثر و بیشتر فی البدیہہ اشعار کہتے تھے۔ شیخ اکبر محی الدین ابن ِ عربی بیس برس کی عمر میں اشبیلیہ کے کسی امیر کی دعوت میں مدعو تھے، جہاں پر شہر کے نامی گرامی ے روساء کے بیٹوں کو بھی مدعوکیا گیا تھا
کھانے کے بعد جب جام گردش کرنے لگا اور صراحی آپ تک پہنچی اور آپ نے جام کو ہاتھ میں تھاما اور شراب جام میں انڈیانے ہی والے تھے کہ اچانک ایک شخص کی آواز ان کے کانوںکو سنائی دی آپ نے ادھر ادھردیکھا لیکن وہاں کوئی ایسا نہیں تھا سب کے سب موج مستی میں لگے ہوئے تھے کوئی ان کو کہہ رہا تھا ‘‘
فرزند! تمہارا کام شراب پینا اور اس طرح کی مجلسوں میں شرکت کرنا نہیں سنبھلو۔ ’’ اس واقعہ کے بعد ابن عربی نے جام ہاتھ سے پھینک دیا اور پریشانی کے عالم میں دعوت سے باہر نکل آئے۔ د روازے پر آپ نے ایک وزیر کے چرواہے کو دیکھا ، جس کا لباس مٹی سے اٹا ہوا تھا وہ بکریاں لئے چلا جارہا تھا۔ آپ اس کے ساتھ ساتھ چلنے لگے پھر شہر سے باہر جاکر اپنا شاہانہ لباس اس چرواہے کو دیا اور اس کے بوسیدہ کپڑے پہن کر کئی دنوں ویرانوں میں گھومتے رہے اب ان کی کایا پلٹ چکی تھی
وہ دن اور رات ذکر الہٰی میں مصروف ہو گئے اس دوران ان کے دل کی کیفیت بدل گئی۔ اپنی صوفی منش طبیعت کے ہوتے شاہی ماحول سے آپ کا دل اچاٹ ہونے لگا تو آپ نے شاہی ملازمت کو خیرباد کہہ کر زہد و فقر کو اپناشعار بنالیا تصوف میں اندلس کے درجنوں بزرگان ِ دین اور صوفیا ء کرام سے علم حاصل کرنے کے بعد انہیں احساس ہواہے کہ انہیں مزید علم کی ضرورت ہے چنانچہ ابن عربی نے حصولِ علم کی خاطر دور دراز کے سفر کئے، وہ جہاں بھی گئے انہوں نے وہیں درس و تدریس کا سلسلہ شروع کیا
جس سے ان کے ادارت مندوںکی تعدادمیں برابر ہوتا چلاگیا مزے کی بات یہ ہے کہ غیر مسلم بھی ان سے بہت جلد متاثرہوجاتے تھے جس سے منگول اور بازنطینی بھی ان کی جان کے دشمن ہوگئے۔ابن عربی نے 590ھ ( 1194ء )میں پہلی بار اندلس کی سر زمین سے نکل کرمیں شمالی افریقہ جاپہنچے جہاں انہیں ایسے نابغہ ٔ روزگار صوفیاء کرام کی صحبت میسر آئی جنہوں نے آپ کی روحانی تربیت میں کلیدی کردار ادا کیا۔ آپ نے تونس میں ابوالقاسم بن قسی نامی صوفی کی کتاب خلع النعلین کا درس لیا ابن ِ عربی اس کتاب سے اتنے متاثر ہوئے کہ انہوں نے اس کتاب کی شرح پر ایک مستقل رسالہ تصنیف کیا۔
اسی سفر کے دوران آپ کی ملاقات ابو محمد عبد العزیز بن ابو بکر القریشی المہدوی کے ساتھ ہوئی ، جن کی فرمائش پر آپ نے اندلس کے55نامور صوفیا ء کرام کے تذکروں پر مشتمل اپنی کتاب روح القدس لکھی۔ جن کے ساتھ آپ کا رابطہ رہا یا جن کے ساتھ آپ کا شاگردگی کا رشتہ تھا۔ شمالی افریقہ میں شیخ ابن عربی نے ایک خانقاہ قائم کی۔ دو سال کے عرصے میں وہاں ان کا ایک بڑا حلقہ بن گیا۔ عربی کی لغت اور محاورہ پر ان کو غیر معمولی قدرت حاصل تھی۔ آپ کے پانچ شعری مجموعے ‘‘دیوان’’
بھی ہیں۔مشہور عرب مورخ ابن ذہبی لکھتے ہیں کہ ابن عربی کی جسارت، قدرت اور ذہانت کا کوئی جواب نہیں تھا۔ وہ جب حمد و ثناء میں مشغول ہوتے تو ایسا معلوم ہوتا جیسے ان کو اپنا بھی ہوش نہیں ہے۔ عشق الٰہی میں سرشار تھے۔ ان میں کئی اچھی صفات موجود تھیں۔ ان کی روحانی تجلیوں اور کیفیت کا کوئی ٹھکانا نہ تھا فکر کی گہرائی کا اندازہ لگانا مشکل تھا۔ اندلس کے نامورمسلم اسکالر ، صوفی ، شاعر ، اور فلسفی ، انتہائی بااثر اسلامی فکر کے حامل شیخ اکبر محی الدین محمد ابن العربی الحاتمی الطائی الاندلسی (1240ء —1165ء ایسی نابغہ روزگار شخصیت ہیں کہ جن پر تصوف نازکرتی ہے
آپ دنیائے اسلام کے ممتاز صوفی، عارف، محقق، قدوہ علماء ، اور علوم ا لبحر ہیں۔ اسلامی تصوف میں آپ کو شیخ اکبر کے نام سے یادکیا جاتا ہے اور تمام مشائخ آپ ؒکے اس مقام کے قائل ہیں۔ عام خیال یہ ہے کہ تصوف اسلام میں وحدت الوجود کا تصور سب سے پہلے انھوں نے ہی پیش کیا۔ ان کا قول تھا کہ باطنی نور خود رہبری کرتا ہے۔ بعض علما نے ان کے اس عقیدے کو الحاد و زندقہ سے تعبیر کیا ہے۔ مگر صوفیا انھیں
شیخ الاکبر کہتے ہیں۔ ان کی تصانیف کی تعداد850 کے قریب ہے۔ انہیں بچپن سے ہی سچے خواب نظر آتے تھے ۔بعض صوفیوںکاکہناہے ِ شیخ اکبر المعروف ابن عربی نہ صرف سچے خواب دیکھتے تھے بلکہ خوابوں کی حقیقت اور افادیت کے بھی قائل تھے شایدخوابوںکے ذریعے انہیں کشف ہوجایاکرتاتھا۔ ان کا قول ہے کہ انسان جیسا ہوتا ہے، ویسے ہی اس کو خواب آتے ہیں۔ اگر کوئی خواب میں بھی حاضر دماغ رہنا سیکھ لے تو اس میں بے پناہ قوت پیدا ہوجاتی ہے کہاجاتاہے درجنوں بار ابن ِ عربیؒ نے خلافت ِ عثمانیہ کے بانی غازی عثمان کے والد ارطغرل ؒغازی کی خوابوںمیں رہنمائی فرماکرانہیں
مشکلات سے نجات دلائی خوابوں کے ضمن میں ان کے کئی واقعات تاریخ میں رقم ہیں آپ بذاتِ خود لکھتے ہیں:میں نے اپنے آپ کو سیول کے قریب شراف گاؤں میں دیکھا وہاں میں نے ایک میدان دیکھا جس پر بڑا سا ٹیلہ نظرآرہا تھا جس کی بلندی پر میں نے ایک شخص کو کھڑے دیکھا پھر یکایک ایک اور آدمی نمودار ہوا وہ پہلے شخص کے قریب آیا دونوں نے بڑے تپاک سے ایک دوسرے کو گلے لگایا
میں نے محسوس کیا کہ وہ پہلے شخص کے جسم میں مدغم ہوگیا ہے پھر کئی بار وہ ایک دوسرے کے ساتھ جڑتے اور ایک شخص بن جاتے پھر علیحدہ ہوجاتے میں نے سوچا ، ‘یہ عجیب آدمی کون ہے؟’ پھر نہ جانے کہاں سے آواز ابھری جیسے میں نے کسی کو یہ کہتے سنا یہ روایت پسند علی ابن حزم ہے۔ میں نے پہلے کبھی ابن حزم کا نام نہیں سنا تھا۔ میرے ایک شیخ ، جس سے میں نے سوال کیا ، نے مجھے بتایا کہ یہ شخص حدیث کی سائنس کے میدان میں ایک اتھارٹی ہے۔شیخ اکبر نہ صرف سچے خواب دیکھتے تھے بلکہ خوابوں کی حقیقت اور افادیت کے بھی قائل تھے۔ ان کا قول ہے کہ انسان جیسا ہوتا ہے
، ویسے ہی اس کو خواب آتے ہیں۔ اگر کوئی خواب میں بھی حاضر دماغ رہنا سیکھ لے تو اس میں بے پناہ قوت پیدا ہوجاتی ہے۔ خوابوں کے ضمن میں ان کے کئے واقعات بڑے مشہور ہیں۔ شیخ خود لکھتے ہیں: ایک دفعہ میں سخت بیمار ہوگیا۔ زندگی کی امید نہ رہی۔ لوگ میری شدید بے ہوشی دیکھ کر گریہ و زاری کرنے لگے۔ انہیں محسوس ہوا کہ میں دارِفانی سے رخصت ہوچکا ہوں۔ میں نے اسی حالت میں خواب دیکھا
کہ کچھ وحشت ناک چہرے والے میرے قریب آکر مجھے اذیت دینا چاہ رہے ہیں۔ قریب ہی ایک حسین وجمیل، عطر بیز شخص مجھے ان کے نرغے سے بچارہا ہے۔ بالاآخر اس کے آگے وحشت ناک چہرے والے ماند پڑگئے اور مغلوب ہوگئے۔ ہوش میں آنے کے بعد میں نے دیکھا کہ والد گرامی سرہانے بیٹھے سوگوارآنکھوں اور اشک بار پلکوں کے ساتھ سورۂ یٰسین کی تلاوت کررہے ہیں۔ میں نے خواب میں جو کچھ دیکھا تھا، سب عرض کردیا۔ بعد میں معلوم ہوا کہ میری صحت وعافیت والد کی دعاؤں اور سورۂ یٰسین کی برکت کانتیجہ ہے۔ ابن عربی کی زوجہ مریم بنتِ محمد بن عبدون اندلس کے ایک امیر کی بیٹی تھی۔
وہ ایک متقی خاتون تھی، انہوں نے روحانیت کے کئی مدارج ابن عربی کی ہمراہی میں طے کئے، انہوں نے خواب میں ایک شخص کو دیکھا ، جسے انہوں نے کبھی زندگی میں نہ دیکھا تھا ، اس شخص نے پوچھا کہ کیا آپ الطریق (تصوف)پر چلنے کی خواہش مند ہیں۔ آپ نے کہا : اللہ کی قسم میں ایسا کرنا چاہتی ہوں ،
مگر نہیں جانتی کہ اسے کیسے اختیار کروں۔ اس شخص نے جواب دیا: پانچ باتوں سے: توکل، یقین، صبر، عزیمت اور صدق کے ساتھ۔ جینا سیکھو ۔حضرت ابن ِ عربیؒ کا 22 ربیع الثانی 638 ھ (8 نومبر 1240) کو پچپن سال کی عمر میں دمشق میں وصال ہووہیںآ پ کا مزار ہے۔ابن عربیؒ اگرچہ کٹر سنی تھے ، حالانکہ بارہ اماموں پر ان کی تحریریں بھی شیعہ میں مقبول تھیں وفات کے بعد ابن عربیؒ کی تعلیمات پوری اسلامی دنیا میں تیزی سے پھیل گئیں۔ ان کی تحریریں صرف مسلم اشرافیہ تک محدود نہیں تھیں ان سے معربی دنیا نے بھی بہت استفادہ حاصل کیا۔