رحمۃ اللعالمینﷺ کا وسیلہ 165

سلطان اورنگزیبؒ عالمگیر کاانصاف

سلطان اورنگزیبؒ عالمگیر کاانصاف

جمہورکی آواز
ایم سرورصدیقی

بنارس میںپنڈت لالہ رام کاسی کا بڑا نام تھا ذہانت،فطانت،معاملہ فہمی ،انسان دوستی اور ملنساری نے ان کی شخصیت کو چارچاند لگادئیے تھے جس کے باعث ان کاگھرانہ مشہور ہوگیا یہی وجہ تھی کہ یاتریوں کی بہت بڑی تعداد پنڈت کے گھر میں ہر وقت جمع رہتی تھی روپے پیسے کی کمی نہ تھی وہ ہندویاتریوں کی بہت سیوا کرتے مسلمانوںکوبھی ان سے کوئی شکوہ شکایت نہیں تھی وہ چپکے سے ضرورت مندوںکی مدد بھی کیا کرتے تھے

اپنے علاقہ میں ہی نہیں بنارس کے قرب و جوا رمیں بھی پنڈت لالہ رام کاسی بڑے ہردلعزیزو مقبول ہوتے چلے گئے۔وہ اکثرکہاکرتے تھے انسان کا دھرم انسانیت ہی ہوناچاہیے۔ادھیڑ عمری میں پنڈت لالہ رام کاسی کے ہاں پہلی اولاد لڑکی شکنتلا پیدا ہوئی وہ جوان ہوکر اتنی حسین و جمیل ہوگئی کہ لوگ اس کے حسن کی مثالیں دینے لگے وہ بلاکی ذہین تھی چودہ سال کی عمر میں ہندو مذہب کی تمام کتابیں مکمل پڑھ لیں

کبھی کبھاروہ دیگر مذاہب کی کتب بھی پڑھ کرسوچتی ہر مذہب میں انسانوںکی بھلائی کا حکم دیا گیا ہے پھر ہمارے معاشرے میں ذات پات اور ایک دوسرے پر ظلم کیوں کیا جاتاہے ؟ تواس کا دل اندر سے تڑپ تڑپ جاتا پری پیکر ہونے کے ساتھ ساتھ شکنتلا اپنی عقل وفہم سے علمی مسائل بھی چٹکیوںمیں حل کردیتی تو اس کی سہیلیاں حیران رہ جاتیں اس نے گھوڑ سواری،تیراندازی بھی سیکھ لی تھی والدین کی اکلوتی اولاد ہونے کے سبب اس نے خوب فائدہ اٹھایا تھا ۔وہ صبح صبح جب گنگا اشنان کیلئے نکلتی تھی

تو دیکھنے والوں کی بھیڑ لگ جاتی دیکھنے والے کہہ اٹھتے اوروہ اپنے ہونٹوںمیں انگلیاں داب کر سسکیاں بھرنے لگتے کہ بلا شبہ بھگوان نے شکنتلا کو فرصت کے لمحات میں بنایا ہے شکنتلا بڑی شرمیلی اور باحیاء ہونے کے باعث آنکھ اٹھاکر بھی کسی کو نہیں دیکھتی ہو۔حالات ایک دگرپرچل رہے تھے

کہ اچانک سلطنتِ مغلیہ نے ابراہیم نامی ایک شخص کو نیا کوتوال بناکر بنارس بھیجاگیا یہ شخص انتہائی عیاش اور کسی وزیرکا نک چڑھا تھا بدمزاجی اور سرکشی اس کی فطرت میں کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی کوتوال کے ہرکاروںنے لوگوںکو بے عزت کرنا معمول بنالیا چندہی دنوںمیں اہلیان ِ بنارس اس کی حرکتوںسے عاجزآگئے تھا وہ شکاری کتوںکی طرح گلی محلوںمیں پھرتے ہرہفتے کسی نہ کسی خوبصورت ،جوان کنواری لڑکی کو اٹھاکر لے جاتے کوتوال کو پیش کرتے شہری اْس کے ظلم وعیاشی سے تنگ آگئے تھے لیکن کوتوال کے سامنے بولنا گویا خود کو موت کے کنؤیں میں دھکیلنے کے مترادف تھا جو کوتوال کو شکایت لگانے جاتا اس کو حیلوںبہانوں سے تنگ کیاجاتااور ہرکارے تشددسے بھی دریغ نہ کرتے۔
بدقسمتی سے ایک دن ایک ہرکارے نے شکنتلا کودیکھ لیا اس نے کوتوال کے سامنے اتنی تعریف کی کہ بوڑھے کوتوال کی رالیں ٹپکنیں لگیں اس نے کہا سرکار !اپنے پنڈت لالہ جی کی بیٹی شکنتلا کنول کے پھول کی طرح دار ہے آج تک اْسے کسی نے چھوا نہیں ہے اسے اپنے مصاحبوں میں شامل کریں پھرکچھ دنوں بعد حکم دیجئے وہ یقینا انکارنہیں کرسکے گا۔
اسے بھی اٹھاکرلے آئو۔۔ کوتوال نے ہدایت کرتے ہوئے کہا
جناب ۔۔حالات کی نزاکت کو سمجھیں ہرکارے نے سرگوشی کے سے اندازمیں کہاپنڈت لالہ رام کاسی کو معمولی آدمی نہیں ہے ہندو،مسلم سکھ سب اس کااحترام کرتے ہیں کہیں معاملہ خراب نہ ہو جائے۔ اگلے روز کوتوال نے پنڈت لالہ رام کاسی کو طلب کرکے کہا لالہ جی ہم نے آپ کا بڑا نام سناہے ہم چاہتے ہیں کہ آپ کے تجربات سے فائدہ اٹھاتے ہوئے بنارس کی ترقی کے لئے کچھ کیا جائے
جناب آپ کا حکم سر آنکھوںپر۔۔ پنڈت لالہ رام کاسی نے کہا میں عمرکے اس حصے میں ہوں کہ آپ کی کوئی خدمت نہیں کرسکتا ۔۔کوتوال کے بدستور اصرار اور پنڈت لالہ رام کاسی کے مسلسل انکار نے ماحول کو الجھادیا
اپنے کارندے کی زبانی شکنتلا کی حسن کی تعریف سن کر بڈھے کوتوال کی رال ٹپکنے لگی تھی اس کا یہ حربہ کارگر نہ ہوا تو پنڈت کو کہا پھر آپ اپنی بیٹی کی شادی میرے ساتھ کردیں۔کوتوال کی بلی تھیلے سے باہرآگئی تھی وہ یہ سن کر سکتے میں آگیا پھر سنبھل کر غضبناک ہوکرکہا اسی لئے آپ مجھے کوئی عہدہ دینا چاہتے تھے آپ کی نظرمیری پوتربیٹی پر تھی خودہی سوچئے میں ہندو اور آپ مسلمان ۔۔یہ شادی کبھی نہیں ہوسکتی
کیوںنہیں ہوسکتی۔۔ کوتوال غصے میں لال پیلاہوکر کھڑاہوگیا آپ کے ہی وچارہیں کہ انسان کااصل مذہب انسانیت ہونا چاہیے پھر یہ شادی تو ہندو مسلم اتحادکی ایک مثال بن جائے گی۔
میںتم جیسے گھٹیا شخص سے اپنی بیٹی کی شادی ہرگزنہیں کروںگا پنڈت لالہ رام کاسی نے چلاکرکہا
آج کے دن میں بارات لے کر آئوں یاتم ۔۔۔کوتوال نے کہا اپنی بچی کی ڈولی سجاکر ہمارے محل میں پہنچائو گے اگر پنڈت جی تم نے حکم عدولی کی تو انجام اچھا نہیں ہوگا۔ کوتوال کی بات سن کر پنڈت روتل پیٹتا گھر آگیا

اہل ِ خانہ کو معلوم ہوا تو گھر میں گویا صف ماتم بچھ گئی۔شکنتلا کی ماں اپنا سینہ پیٹتے ہوئے بین کرنے لگی ہائے جس اکلوتی بچی کو ہم نے بڑے نازوں سے پالا تھا اسے اپنے ہاتھوں زندہ نرکھ (دوزخ) میں کیسے ڈا لیں۔ ہائے بھگوان ہم کیا کریں اس سے تو بہترہے کہ ہم سب گنگا میں چھلانگ لگاکرزندگی کا خاتمہ کرلیں ۔۔ہائے اپنی بچی کی عزت برباد ہونے سے پہلے ہی اپنی زندگی کی چراغ گل کردیں۔

شکنتلا نے منت سماجت کرکے اپنی ماتاپتا کو آتم ہتھیا(خود کشی )کرنے سے روکا اور کہا کہ آپ کوتوال کے کسی ہرکارے کو بلالیجئے اْن سے کہیں کہ مہاراج ہماری اکلوتی بیٹی کی شادی ہے ہمارے بھی دل کے ارمان ہیں اْس کی ڈولی سجانے کیلئے ہمیں ایک ماہ کی مہلت دیجئے۔ پنڈت کی زبانی خلافِ توقع جواب سن کر بڈھے کوتوال کی تو گویا من کی مراد پوری ہوگئی اس نے کہا پنڈت کو مہلت ہے لیکن کوئی چالاکی کی تو پھر خیرنہ ہوگی
شکنتلا نے اپنے باپو سے کہا کہ دو دن کے اندر اندر میرے لئے شہزادوں کے کپڑوں، کمر پند، پٹکا، اور ایک تلوار کا بندوبست کیجئے اگر بھگوان کی کرپا رہی تو حالات بدل جائیں گے۔وہ کیسے ؟ ماتا نے فکرمندہوکر تذبذب کے عالم میں کہا تم عورت ذات کیا کرلو گی ؟مجھ پر بھروسہ رکھیں شکنتلا نے بولی میں نے سوچ لیا کہ اس مسئلے کا کیا حل نکل سکتاہے۔
رات کے اندھیرے

شکنتلا بھیس بدل کر گھوڑے پر سوار ہوکر اَن دیکھے سفر کو روانہ ہوگئی منزلوں کی مسافتیں طے کرتے ہوئے شکنتلا مغلیہ شہزادے کے بھیس میں بھارت کی راجدھانی دِلّی جا پہنچی اتنا خوبصورت شہر دیکھ کر وہ حیران رہ گئی ۔ جمعتہ المبارک کے روز دہلی کی سب سے بڑی جامع مسجد میں نمازیوں کا بے پناہ رش تھامختلف علاقوں سے علمائے کرام، مشائخ عظام کی ڈولیاں بھی جامع مسجد کے دروازے پر لگ چکی ہیں۔اس نے دیکھاہزاروں مسلمان جمعہ کی ادائیگی کیلئے اپنی جبین کو اپنے رب کے حضور جھکانے کیلئے بیٹھے ہوئے ہیں کوئی نوافل پڑھ رہاہے کوئی آخری الہامی کتاب کی تلاوت میں مصروف ہے

اور کوئی تسبیح ہاتھ میں لئے ورد کرتا دکھائی دیتاہے شکنتلا بھی وضو کرکے ان کے درمیان جابیٹھی شہزادے کیہ وضع قطع جیسے حلیے میں وہ اپنی شناخت چھپانے میں کامیاب ہوگئی تھی کہ اتنے میں ایک بارعب آواز گونجی “سلطان الہند، بادشاہِ اسلام حضرت اورنگ زیب عالمگیرؒ جمعہ کی ادائیگی کیلئے جامع مسجد تشریف لارہے ہیں۔ فرائض وسنت کی ادائیگی کے بعد ایک بار پھر اعلان ہوا سارے فریادی اپنی عرضیاں ہاتھ میں رکھئے سلطان ِ معظم خود سب کو شرف ِ ملاقات بخشیں گے شکنتلا نے

جان بوجھ کر سب سے آخرمیں جابیٹھی ایک ایک فریادی کی فریاد سنتے ہوئے سلطان جب آخری فریادی سے ملے تو وہ شہزادے کے بھیس میں شکنتلا کودیکھا توحقیقت شناس بادشاہ کو پہچاننے میں ذرادیر نہ لگی کہ شہزادے کے بہروپ میں کوئی لڑکی کھڑی ہے۔ اورنگ زیب عالمگیرؒ نے اپنے خادم خاص کو حکم دیا کہ اِس فریادی کو ہمارے دربار میں لے آئیں اِس کی فریاد ہم وہاں سنیں گے۔ حکم کی تعمیل کی گئی تو بادشاہ نے حکم دیا کہ سارے درباری باہر چلے جائیں۔جب پورا دربار خالی ہوچکا تو سلطان نے اپنی چادر دیتے ہوئے کہا! بیٹی بچیوں کو زیب نہیں دیتا کہ وہ شہزادوں کا روپ اختیار کرلیں کہیے کیا فریاد ہے آپ کی ؟
شکنتلانے روتے روتے اپنی پوری داستان سنادی۔داستان سنتے ہوئے اورنگ زیب عالمگیرؒکے چہرے پر متغیر ہوا وہ باربار اپنی نگلیاں مسلنے لگے شاید اپنی اضطراری کیفیت پر قابو پارہے تھے مکمل غم بھری داستان سنانے کے بعدشکنتلانے کہا “دیالو مہاراج ” میں برہمن ذات کی ہندو لڑکی ہوں”۔
سلطان نے کہا ہندو ہویا مسلمان بیٹی تو نا ۔۔جائیے اور ڈولی سجانے کی تیاری کیجئے۔
مایوس کن

جواب سن کرشکنتلا رونے لگ گئی جسے اس کے دل کا تو گویا آبگینہ ہی ٹوٹ گیابادشاہ نے اس کے سر پر ہاتھ رکھ کر کہا یہ نہیں ہوسکتا کوئی بیٹی سلطان ِ معظم سے مایوس ہوکر جائے کسی پر ظاہرنہیں ہونا چاہیے کہ تمہاری ہم سے ملاقات ہوگئی ہے ۔شکنتلا بوجھل قدموںسے واپس لوٹ آئی اس نے بادشاہ اورنگ زیب عالمگیرؒ کے انصاف،رحمدلی اور سخاوت کی کئی کہانیاں سن رکھی تھیں اسی لئے وہ دلی گئی تھی وہ سوچنے لگی سب بے کارگیا اب مہلت میں صرف اب ایک دن رہ گیا ہے اب کیا ہوسکتاہے

پتہ نہیں بادشاہ کچھ کرے گا بھی یانہیں یقین و مایوسی کے عالم اس نے آتم ہتھیا کرنے کے لئے زہر کا انتظام کرلیا کہ کوتوال کی بیوی بننے کی بجائے مرجانا بہترہے لیکن اس کا دل کہہ رہاتھا آخری حد دیکھنی چاہیے پھر مقررہ دن بھی آگیا شکنتلاکو دلہن بنادیاگیا کوتوال چندکارندوں کے ہمراہ آیا اور شکنتلا سج دھج کر ڈولی میں بیٹھ گئی ۔ کوتوال کی خوشی دیدنی تھی اس نے اعلان کیا جب تک میں فقیروں میں روپے پیسے نہ لٹاؤں تب تک شکنتلاا کی ڈولی حرم میں داخل نہ کی جائے۔ پورا اہلِ بنارس کوتوال کے ظلم سے تنگ تھا لیکن کوئی قربانی کا بکرا بننے کیلئے تیار نہ تھا فقیروں میں پیسے لٹائے جارہے اتنے میں ایک فقیر کی آواز آتی۔ مہاراج ہم پر بھی کِر پا ہو، ہمیں بھی کچھ دیجئے۔
بڈھے کوتوال نے ناگواری سے جواب دیا جو روپے زمین پر لٹائے جارہے ہیں یہ تم جیسے بھکاریوں کے لئے ہیں وہیں سے اٹھائو اور چلتے بنوفقیر نے التجانہ لہجہ میں کہا مہاراج! آج تو خوشی کا سمے ہے آپ کی من کی مراد پوری ہورہی ہم چاہتے ہیں کہ ہمیں آپ اپنے ہاتھ سے کچھ دیں۔ کوتوال بڑبڑایا کہاں سے آگئے اتنے منگتے ۔۔خوشی کا دن ہے تو خاموش ہوں ورنہ تم جیسے فقیروںکے پاس سے

بھی میں گذرنا پسندنہیں کرتا ۔۔یہ کہتے ہوئے کوتوال نے کچھ روپے نکالنے کے لئے جونہی مڑا تو تو فقیر نے میلا کچیلا لباس پھینک دیا فقیر نے اس کا ہاتھ پکڑ کر زور سے جھٹکا دیا کوتوال کیا دیکھا اس کے سامنے شہنشاہ ِ ہندسلطان اورنگزیب عالمگیر کھڑے ہیں۔کوتوال کی خوف کے مارے روح فناہوگئی خون خشک ہوگیا وہ وہیں زمین پر بادشاہ کے پاؤں میں گرگیا ۔بادشاہ نے اسے ٹھوکر مارتے ہوئے پر جلال لہجے میں کہا! بدبخت کیاتجھے اس لئے کوتوال مقرر کیا گیا کہ تو رعایہ پر ظلم وستم کرے،

بچیوں کی عزتیں برباد کرے۔ کوتوال چلایا رحم بادشاہ سلامت رحم مجھ سے غلطی ہوگئی معاف کردیں اسی دوران لوگوںنے بادشاہ کو کوتوال کی چیرہ دستیوں کے ڈفترکھول دئیے
اتنے میں سلطان کا خصوصی دستہ بھی آن پہنچا سلطان نے حکم دیا کوتوال کے دونوں پاؤں میں زنجیر باندھ کر ہاتھیوں کے ساتھ باندھ دیا جائے اور ہاتھیوں کو مخالف سمت دوڑا دیں حکم پر عمل کیا گیا اس کی آخری چیخیں بڑی بھیانک تھیں دیکھتے ہی دیکھتے کوتوال کا جسم دو حصوںمیں تقسیم ہوگیا جو شخص کل تک اپنے آپ کو سب سے طاقتور سمجھ کر ظلم و ستم کررہاتھاآج لوگوںکو دور دور تک خون میں ڈوبے ہوئے اس کے جسم کے لوتھڑے دکھائی دئیے رہے تھے لوگوںنے خوشی سے نعرے اگاناشروع کردئیے کوتوال کو عبرت ناک سزا دے کر سلطان نے انصاف کا حق ادا کردیا۔شکنتلاکی ڈولی واپس باعزت اس کے گھر پہنچادی گئی۔ کچھ یر بعدشہنشاہ ِ ہندسلطان اورنگزیب عالمگیرؒ بھی پنڈت لالہ رام کاشی کے گھر جا پہنچے سلطان نے کہا بیٹی سب سے پہلے مجھے پانی پلائیے
آپ نے مجھے بیٹی کہا تھا شکنتلا بولی اور بیٹی کے گھر سے صرف پانی ہاں شہنشاہ بڑی متانت سے بولے کیونکہ تمہاری فریاد سننے کے بعد میں نے قسم کھائی تھی کہ جب تک تجھے انصاف نہ دلادو پانی مجھ پر حرام ہے۔ الحمداللہ اب میں پانی پینے کا حقدار ہوں۔
اسی دوران سلطان کے بھوجن کیلئے شکنتلا اپنے ہاتھوں سے کھانا تیار کیا اپنے گھر کے ایک حصہ میں سلطان کی نماز کیلئے

جگہ صاف کیا۔۔ جس جگہ سلطان اورنگزیب عالمگیرؒنے دونفل شکرانہ ادا کئے شکنتلاکے باپ پنڈت لالہ رام کاسی نے اْس جگہ کو مسجد کے لئے مخصوص کردیا۔ سلطان نے چاندی کے پتر پر ایک حکم نامہ جاری کیا کہ اِس مسجد کا انتظام یہی ہندو خاندان والے سنبھالیں گے۔ دھریرا نام کی یہ مسجد آج بھی گنگا کنارے اْسی جگہ واقع ہے شنیدہے کہ کچھ دنوں بعد پنڈت لالہ رام کاشی کا گھرانہ مسلمان ہوگیا۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں