رحمۃ اللعالمینﷺ کا وسیلہ 121

حکومت اور خلافت

حکومت اور خلافت

جمہورکی آواز ایم
سرورصدیقی

ایک عرصہ سے مسلمانوںمیں ایک تحریک بھررہی ہے جو لوگ مسلمانوںکی نشاط ِ ثانیہ کی بحالی کا خواب دیکھ رہے ہیں وہ اس بات پر زور دے رہے کہ خلافت بحال ہونی چاہیے اس سلسلہ میں برصغیرمیں بھی مولانا محمدعلی جوہر اور ان کے بھائی مولانا شوکت علی کی زیر ِقیادت ایک تحریک چلائی گئی جس میں ان کی والدہ کے پوسٹربھی لگائے گئے کہ بیٹا جان خلافت پرقربان کردو پاکستان میں ڈاکٹراسرار احمد مرحوم خلافت کی بحالی کے علمبردار بن کر سامنے آئے کچھ اور مذہبی رہنما اس کے حق میں پیش پیش ہیں کچھ عرصہ قبل ابوبکر البغدادی نے اعلان کیا ہم نے ملک شام میں خلافت بحال کردی ہے لیکن انہوںنے اس آڑمیںداعش نامی تنظیم قائم کرلی سب جانتے ہیں کہ نبی ٔ اکرم ﷺ کے وصال کے بعد چار خلفاء راشدین کا دور گذرا ہے
۱) حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ (11 سے 13ھ)
۲) حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ (13سے 23ھ)
۳) حضرت عثمان رضی اللہ عنہ (23 سے 35ھ)
۴)حضرت علی مرتضی رضی اللہ عنہ (35ھ سے 40ھ) تک خلافت پر ممتکن رہے ان کے بعد حضرت امام حسنؓ خلیفہ بنے چاروں خلفاء کرام کے بعد حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کو حضرت حسن رضی اللہ عنہ کی صْلح اور بیعت کے بعد خلافت ملی جس کو ملوکیت کا نام بھی دیا جاتا ہے۔آپ کی خلافت 41 ھ سے 61ھ (661 ء سے680 ء ) 20 سال تک رہی۔ اْس کے بعد اموی خلفاء کی حکومت کی ترتیب کچھ یوں تھی
2۔یزید بن معاویہ ؓنے تین سال 61 ھ سے 64 ھ
3۔ معاویہ بن یزید یعنی یزیدکے بیٹے نے چھ ماہ حکومت کی ہو گی جو 64ھ میں ہی ختم ہو گی۔
4۔ مروان بن حکم نے ایک سال 64 ھ سے 65ھ
5۔ عبدالملک بن مروان نے 21 سال 65 ھ سے 86 ھ
6۔ ولید بن عبدالملک نے 10سال86 ھ سے 96 ھ
7۔ سلیمان بن عبدالملک نے تین سال 96 ھ سے 99 ھ
8۔ حضرت عمر بن عبدالعزیز رحمتہ اللہ علیہ نے تین سال 99 ھ سے 101ھ
9۔ یزید بن عبدالملک نے چار سال 101ھ سے 105ھ
10۔ ہشام بن عبدالملک نے بیس سال 105ھ سے 125ھ
11۔ ولید بن یزید نے ایک سال 125ھ سے126ھ
12۔ ولید بن عبدالملک نے چند ماہ 126ھ تک
13۔ ابراہیم بن الولید نے ایک سال 126ھ سے127ھ
14۔ مروان بن محمد نے پانچ سال127ھ سے 132ھ
1۔ اموی دور 100سال (41ھ سے 132ھ) پر محیط ہے جس کا دارالحکومت شام تھا، اس دور میں کئی اہل ِبیت شہید بھی ہوئے۔ کچھ عرصہ کے لئے حضرت عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ بھی خلیفہ بنے لیکن انہیں اموی گورنر حجاج ابن یوسف نے شہیدکروادیا۔ تاریخ بتاتی ہے کہ بنو امیہ کی حکومت132ھ میں ختم ہو گئی جس کے بعد سلطنت عباسیہ قائم ہوئی یعنی حضور ﷺ کے چچا حضرت عباس ؓ کی نسل سے چلی جس نے کوئی600سال حکومت کی لیکن اس دوران بنو امیہ کے بیشتر خاندان زیر ِ عتاب ہی رہے

جس طرح اموی دور ِ حکومت میں مخالفین کو چن چن کرنشانہ بنایا گیا ،سانحہ کربلا جیسا المناک واقعہ پیش آیا اور متعدد جلیل القدر صحابہ کرام کو شہید کردیاگیا اس طرح عباسی عہد میں ابوالعباس السفاح کی مدد ایرانی ابو مسلم خراسانی پیش پیش تھے جس کو بعد میں ابوالعباس کے بھائی ابوجعفر المنصور نے قتل کروادیا۔بنو امیہ کا دارالخلافہ دمشق تھا اور دمشق کو فتح کرنے کے بعد ہزاروں مسلمان شہید کئے گئے اور یہاں تک کچھ مؤرخین نے کہا جاتا ہے کہ ابو العباس السفاح نے حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ سمیت تمام اموی حکمرانوں کی قبریں کھود کر نہ صرف بے حْرمتی کی گئی

بلکہ جلایا تک گیا۔ عقیدت کی بات علیحدہ ہے لیکن تاریخ بتاتی ہے حکمرانوںکے دل میں اپنے مخالفین کے لئے رحم کی کوئی گنجائش نہیں ہوتی ہرحکمران وہی کچھ کرتا جواس وقت کے حالات ہوتے ہیں یہ بات ہمیشہ ذہن میں رکھیں کہ حکومت اور خلافت دو الگ الگ چیزیں ہیں تین خلفاء ر اشدین نے تو اپنے قاتلوںکومعاف کردیا تھا ان کے بعد آنے والے حکمرانوں نے حکومت کی ہے وہ خلافت کا تسلسل نہیں تھا

اس لئے اس تناظرمیں نہ لیا جائے انہیں آپ مسلم حکمران تو کہہ سکتے ہیں ایک مذہبی حکومت نہیں جو چاروں خلفاء راشدین کا خاصا تھا۔ بہرحال خلافت عباسیہ کے مندرجہ ذیل خلفاء کا نام، عرصہ ہجری اور عیسوی سال کے مطابق اس طرح ہے:
1۔ ابوالعباس السفاح (132 – 136ھ)(750- 754ء )
2۔ ابو جعفر المنصور (136- 158ھ) (754- 775ء )
3۔ محمد المہدی (158- 169ھ) (775- 785ء )
4۔ موسیٰ الہادی (169ھ- 170ھ) (785- 786)
5۔ ہارون الرشید (170- 193ھ) (786- 809ء )
6۔ امین الرشید (193ھ – 198ھ) (809- 813ء )
7۔ مامون الرشید (198- 218ھ) (813 – 833ء )
8۔ المعتصم باللہ (218 – 227ھ) (833 – 842ء )
9۔ الواثق باللہ (227 – 232ھ) (842 – 847ء )
10۔ المتوکل علی اللہ (232 – 247ھ) (847 – 861ء )
11۔ المنتصر باللہ (247 – 248ھ) (861 – 862ء )
12۔ المستعین باللہ (248 – 252ھ) (862 – 866ء )
13۔ المعتز باللہ (252 – 255ھ) (866 – 869ء )
14۔ المہتدی باللہ (255 – 256ھ) (869 – 870ء )
15۔ المعتمد باللہ (256 – 279ھ) (870 – 892ء )
16۔ المعتضد باللہ (279 – 289ھ) (892 – 902ء )
17۔ المکتفی باللہ (289 – 295ھ) (902 – 908ء )
18۔ المقتدر باللہ (295 – 320ھ) (908 – 932ء )
19۔ القاہر باللہ (320 – 322ھ) (932 – 934ء )
20۔ راضی باللہ (322 – 329ھ) (934 – 940ء )
21۔ المتقی باللہ (329 – 333ھ) (940 – 944ء
22۔ المستکفی باللہ (333 – 334ھ) (944 – 946ء )
23۔ المطیع باللہ (334 – 363ھ) (946 – 974ء )
24۔ الطائع باللہ (363 – 381ھ) (974 – 991ء )
25۔ القادر باللہ (381 – 422ھ) (991 – 1031ء )
26۔ القائم باللہ (422 – 467ھ) (1031 – 1075ئ)
27۔ المقتدی بامر اللہ (467 – 487ھ) (1075 – 1094ئ)
28۔ المستظہر باللہ (487 – 512ھ) (1094 – 1118ئ)
29۔ المسترشد باللہ (512 – 529ھ) (1118 – 1135ئ)
30۔ راشد باللہ (529 – 530ھ) (1135 – 1136ئ)
31۔ المقتفی لامر اللہ (530 – 555ھ) (1136 – 1160ئ)
32۔ مستنجد باللہ (555 – 566ھ) (1160 – 1170ئ)
33۔ المستضی باللہ (566 – 575ھ) (1170 – 1180ئ)
34۔ الناصر لدین اللہ (575 – 622ھ) (1180 – 1225ء )
35۔ الظاہر بامر اللہ (622 – 623ھ) (1225 – 1226ء )
36۔ المستنصر باللہ (623 – 640ھ) (1226 – 1242ء )
37۔ مستعصم باللہ (640 – 656ھ) (1242 – 1258ء )
1۔ بنو عباس نے دریائے دجلہ کے کنارے ’’بغداد‘‘ شہر کو آباد کر کے اسے اپنا دارالحکومت بنایا۔ بنو عباس کی حکومت حضرات ابوبکر، عمر،عثمان و علی رضی اللہ عنھم کی طرح خلافت راشدہ نہیں تھی بلکہ اموی حکومت کی طرح تھی ۔خلافت عباسیہ صدیوں (132سے 656ھ ( 750 1258 -ء ) تک پھیلی خلافت ہے جسے ہلاکو خاں نے سقوطِ بغداد کے ساتھ ہی ختم کیا۔
2۔ حضرت نعمانؒ بن ثابت (امام ابو حنیفہ80 ھ – 150ھ)، حضرت مالکؒ بن انس (امام مالکؒ 93 ھ – 179 ھ)، حضرت محمد ؒبن ادریس (امام شافعی 150ھ – 204ھ)، حضرت احمدؒ بن محمد حنبل (امام حنبل 165ھ – 241ھ) رحمتہ اللہ علیہ پر انہی ا دوارِ حکومت میں ظلم و ستم کے پہاڑ توڑے گئے یہ بات ہمیشہ ذہن میں رکھیں کہ حکومت اور خلافت دو الگ الگ چیزیں ہیں تین خلفاء ر اشدین نے تو اپنے قاتلوںکومعاف کردیا تھا ان کے بعد آنے والے حکمرانوں نے حکومت کی ہے وہ خلافت کا تسلسل نہیں تھا ۔
3۔ مسلمانوںکے کچھ فرقوںکا خیال ہے کہ بہت سی حدیثوںکی سندنہیں ملتی جس اعتبارسے وہ من گھرٹ ہوسکتی ہیں اس بارے میں کافی پروپیگنڈا بھی سننے کوملتاہے لیکن اس بارے میں حتمی رائے قائم نہیں کی جاسکتی کیونکہ حدیثوںکومرتب کرنے والے سب محدثین امام محمد بن اسماعیل بخاری (256 – 194ھ)، امام مسلم بن حجاج (261 – 204ھ)، امام ابو داؤد سیلمان بن الاشعث (275 – 202ھ)، امام محمد بن عیسی (279 – 229ھ) جامع ترمذی، امام محمد بن یزید (273 -209ھ) ابن ماجہ، امام احمد بن شعیب (303 – 215ھ) نسائی سب بنو عباس دور میں ہوئے ہیں اگرماضی میں کچھ حدیثیں صحیح سندکے ساتھ نہ ہوتیں

تو یہ آئمہ کرام انہیں درج ہی نہ کرتے۔ شاہ بیبرس نے اپنے دور میں ہلاکو خان کو شکست دے کر بھگا دیا اور خود ایک عباسی خلیفہ کی بیعت بھی کر لی لیکن اصل اختیارشاہ بیبرس یعنی مملوکوں کے پاس ہی تھے۔ شاہ بیبرس نے ہی چار ائمہ کرام (حنفی، شافعی، مالکی، حنبلی)کے چار قاضی مقرر کئے۔ بنو امیہ اور بنو عباس کے بعد تیسری بڑی خلافت جس نے تین براعظم پر حکومت کی وہ ارطغرل کے بیٹے عثمان غازی کی تھی۔خلافت عثمانیہ کے یہ خلیفہ رہے ہیں 1- سلطان عثمان غازی ولد ارطغرل غازی (1299 – 1323ء ) (699 – 723ھ)
2- سلطان اورخان غازی ولد سلطان عثمان غازی (1323 – 1369ئ) (723 – 770ھ)
3- سلطان مراد اول ولد سلطان اورخان اول (1369 – 1389ء ) (770 – 791ھ)
4- سلطان بایزید اول(یلدرم) ولد سلطان مراد اول (1389 – 1402) (791 – 804ھ)
1402ء میں جنگِ انقرہ ہوئی جو امیر تیمور اور بایزید یلدرم کے درمیان لڑی گئی، سلطان بایزید کو شکست ہوئی اور یہ گرفتار ہو کر قید ہوئے، بعد میں قید کے دوران ہی فوت ہوئے، یوں سلطنت ایک بار ختم ہو گئی،

اور کئی سال 1413 تک بایزید کے بیٹوں میں خانہ جنگی چلتی رہی، پھر سب سے چھوٹے بیٹے محمد چلپی نے سلطنت پر مکمل قبضہ کیا یوں یہ دوبارہ شروع ہوئی-
5- سلطان محمد اول ولدسلطان بایزید اول ( 1413 – 1421ء ) (816 – 824ھ)
6- سلطان مراد دوم ولد سلطان محمد اول (1421 – 1444ء دوسرا دورِ: 1446 – 1451ء ) (824 – 848 / 850 – 854)
7- سلطان محمد فاتح ولد سلطان مراد دوم ( 1451 – 1481ء ) (854 – 886ھ)
8- سلطان بایزید دوم، ولد سلطان محمد دوم (1481 – 1512ء ) (886 – 918ھ)
9- سلطان سلیم اول ولد سلطان بایزید دوم (1512 – 1520ء ) (918 – 926ھ)
10- سلطان سلیمان اول (القانونی) ولد سلطان سلیم اول (1520 – 1566ء ) (926 – 974)
11- سلطان سلیم دوم ولد سلطان سلیمان(1566- 1574ء ) (974 – 982ھ)
12- سلطان مراد سوم ولد: سلطان سلیم دوم (1574 – 1595ء ) (982 – 1003ھ)
13- سلطان محمد سوم ولد سلطان مراد سوم (1595 – 1603ء ) 1003 – 1012ھ)
14- سلطان احمد اول ولد سلطان محمد سوم (1603 – 1617ء ) (1012 – 1026ھ)
15- سلطان مصطفی اول ولد سلطان محمد سوم (1617 – 1618ئ￿ دوسرا دورِ: 1622 – 1623ء ) (1026 -1027 / 1031 – 1032ھ)
16- سلطان عثمان دوم ولد سلطان احمد اول (1618 – 1622ء ) (1027 – 1031ھ)
17- سلطان مراد چہارم ولد سلطان احمد اول (1623 – 1640ء ) (1032 – 1049ھ)
18- سلطان ابراہیم اول ولد سلطان احمد اول (1640 – 1648ء ) (1049 – 1058ھ)
19- سلطان محمد رابع ولد سلطان ابراہیم اول(1648 – 1687ء ) (1058 – 1099ھ)
20- سلطان سلیمان دوم ولد سلطان ابراہیم اول (1687 – 1691ئ￿ ) (1099 – 1102ھ)
21- سلطان احمد دوم ولد سلطان ابراہیم اول (1691- 1695ء ) (1102 – 1106ھ)
22- سلطان مصطفی دوم ولد سلطان محمد چہارم (1695 – 1703ء ) (1106 – 1115ھ)
23- سلطان احمد سوم ولد سلطان محمد چہارم (1703 – 1730ء ) (115 – 1143ھ)
24- سلطان محمود اول ولد سلطان مصطفی دوم (1730 – 1754ء ) (1143 – 1168ھ)
25- سلطان عثمان سوم ولد سلطان مصطفی دوم (1754 – 1757ء ) (1168 – 1171ھ)
26- سلطان مصطفی سوم ولد سلطان احمد سوم (1757 – 1774ء ) (1171 – 1188ھ)
27- سلطان عبدالحمید اول ولد سلطان احمد سوم (1774 – 1789ء ) (1188 – 1203ھ)
28- سلطان سلیم سوم ولدسلطان مصطفی سوم (1789 – 1807ء ) (1203 – 1222ھ)
29- سلطان مصطفی چہارم ولد سلطان عبدالحمید اول (1807 – 1808ء ) (1222 – 1223ھ)
30- سلطان محمود دوم ولد سلطان عبدالحمید اول (1808- 1839ء ) (1223 – 1255ھ)
31- سلطان عبدالمجید اول ولد سلطان محمود دوم (1839 – 1861ء ) (1255 – 1277ھ)
32- سلطان عبدالعزیز ولد سلطان محمود دوم (1861 – 1876ء ) (1277 – 1293ھ)
33- سلطان مراد پنجم ولد سلطان عبدالمجید اول (93 دن)
34- سلطان عبدالحمید دوم ولد سلطان عبدالمجید اول (1876 – 1909ء ) (1293 – 1327ھ)
35- سلطان محمد پنجم ولد سلطان عبدالمجید اول (1909 – 1918ء ) (1327 – 1336ھ)
36- سلطان محمد وحید الدین ششم ولد سلطان عبدالمجید اول (3 جولائی تا 1 نومبر 1922ء )
خلافت عثمانیہ کو ختم کرنے میں لارنس آف عریبیہ جوایک جاسوس تھا اس نے اہم کردار اداکیا عربوں کی نسلی عصبیت کو اْبھار کر مسلمانوں سے مسلمانوں کی لڑائی کروائی گئی۔ برصغیر میں بھی خلافت عثمانیہ کے خلافت تحریک چلائی گئی تھی مگر کامیاب نہیں ہو سکی۔ آج ترکی خلافت کی بحالی کے لئے کوشاں ہے

کیونکہ وہ خلافت کا سلسلہ وہیں سے جوڑنا چاہتاہے جہاںسے ٹوٹاتھا 2023ء میں معاہدہ لوازن کے خاتمہ کے بعدکیاہوگا کوئی نہیں جانتا یہ تو ممکن نظر نہیں آرہا کہ خلافت ِ عثمانیہ میں شامل درجن بھر ممالک دوبارہ ترقی کا حصہ بن جائیں لیکن کئی اسلامی ممالک خلافت کی بحالی چاہتے ہیں یہ اتنا آسان بھی نہیں ہے کیونکہ مختلف اسلامی ممالک کے مختلف غیراسلامی ممالک سے کاروباری، تجارتی ،معاشرتی روابط ہیں کویت اور سعودی عرب میں امریکی فوج کے ذمہ سکیورٹی ہے عالمی طاقتوں نے دہشت گردی کو مسلمانوں سے منسوب کرکے رکھ دیا ہے اس میں کوئی شک نہیں ہر اسلامی ملک میں خلافت کے احیاء کی خواہش رکھنے والے ضرور موجود ہوں گے لیکن ان کی تعداد آٹے میں نمک کے برابرہے

ان حالات میں خلافت ایک سوالیہ نشان ہے۔ یہ بھی ایک توجہ طلب بات ہے کہ خلافت تمام اسلامی ممالک کو کیسے ہینڈل کرے گی؟ پاکستان کے ایک سابق وزیرِ اعظم ذوالفقارعلی بھٹونے اسلامی ممالک پر مشتمل ایک بلاک تشکیل دینے کا پروگرام دیا تھا ۔مشترکہ کرنسی اور دفاع کا ایک انقلابی منصوبہ پر کام بھی شروع ہوگیا تھا شاہ فیصلؒ، کرنل قذافی اورذوالفقارعلی بھٹونے تیل کو ہتھیارکے طورپر استعمال کرنے کی حکمت ِ عملی تیار کرنے کا ابتدائی خاکہ ترتیب دیا لیکن شاہ فیصل اورذوالفقارعلی بھٹو کو منظرسے ہٹا دیا گیا عالمی مبصرین کا خیال تھااسلامی ممالک پر مشتمل بلاک تشکیل دیدیا جاتا تو شایدیہ خلافت کی ایک جدید شکل ہوتی

اورآج مسلم امہ کے یہ مسائل نہ ہوتے۔۔جن چیلنجز سے آج ہم نبرد آزما ہیں شاید ہم ایسی مشکل سے دو چارنہ ہوتے مسلمانوںکی دلوں میں ایک تڑپ ہے ایک جستجو سال ہا سال سے مسلمانوںکے دلوں میں مچل رہی ہے لیکن خلافت کی بحالی کوئی آسان کام نہیں۔ بہت سے سوال تشنہ ہیں کئی سوالوں کے جواب ضروری ہیں اس میں کوئی شک نہیں ہونا چاہیے خلافت مسلمانوںکے اتحادکی علامت ہے لیکن اس کی حدود و قیود کیاہوگی،ناک نقشہ کیا، کیسا اور کیونکر؟ آج بیشتر اسلامی ممالک جمہوری ہے نہ اسلامی۔ اکثر سیکولر،کچھ میں جمہوریت کچھ میں بادشاہت اور کچھ نیم اسلامی کچھ مغرب زدہ۔ پھر خلافت کااحیاء کیسے ممکن ہے؟ کوئی نہیں جانتا۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں