کوئی فرق نہیں
جمہورکی آواز
ایم سرور صدیقی
ہمیشہ کہا جاتاہے کہ پاکستان ایک غریب ملک ہے اکثریت آبادی کا حال اور حالت ِ زار دیکھ کرہر دیکھنے والی آنکھ اور سننے والے کان کو یقین آجاتاہے کہ واقعی پاکستان غریب ملک ہے لیکن دنیاکو اس بات پرمطلق یقین نہیں۔اب تو کوئی اعتبار بھی نہیں کرتا۔ جب قیمتی لباس میں ملبوس پاکستانی وفد بیرونی ممالک میں اپنے ہم وطن متاثرین کیلئے امدادکیلئے بات کرتے ہیں تو دنیا ہم پرہنستی ہے
یہ ٹھاٹھ اور امداد کی اپیل۔واہ بھئی واہ ۔۔یہی حال غیرملکی سرمایہ کاری کا ہے جب ہمارے بیشتر حکمرانوں نے اربوں کھربوںسے اپنے کاروبار لندن، دوبئی، ملائشیائ،سعودی عرب اور امریکہ میں شروع کررکھے ہیں تو کون پاگل پاکستان میں سرمایہ کاری کرے گا؟ حکمرانوںکی اسی منافقت نے ہمیں دنیا میں تنہا کردیا ہے ۔۔۔ ایک سوئس بینک ڈائریکٹر کا کہناہے کہ اس وقت پاکستان کی اشرافیہ کے98 ارب ڈالر سوئس بینکوںمیں پڑے ہوئے ہیں
یہ رقم پاکستان میں انوسٹ کردی جائے تو30سال کیلئے پاکستان ٹیکس فری بجٹ پیش کر سکتاہے6کروڑ پاکستانیوںکیلئے روزگار+ملازمتیں دی جا سکتی ہیں500سے زیادہ پاور پراجیکٹ کے ذریعے ہمیشہ ہمیشہ کیلئے بجلی فری دی جا سکتی ہے، کراچی ، پشاور سمیت ملک کے کسی بھی کونے سے اسلام آباد تک چاررویہ سڑکوں پر مشتمل نئی ہائی وے بنائی جا سکتی ہے یا ہر پاکستانی کو چار سال تک20000روپے ماہانہ وظیفہ دیا جا سکتاہے اور مزے کی بات یہ ہے کہ غیر ملکی قرضوں سے نجات بھی مل سکتی ہے۔۔جو خیالات کااظہار سوئس بینک ڈائریکٹر نے کیا ہے یہ تو ایک خواب ہے جو پوری پاکستانی قوم دیکھ دیکھ کر تھک گئی ہے لیکن اس کی تعبیر آج تلک نہیں دیکھی
روز خوابوںمیں ملاقات رہا کرتی تھی
اور خواب شرمندہ ٔ تعبیرہوا کرتے تھے
ایک اور خاص بات یہ ہے کہ مولانا فضل الرحمن سے لے کر چوہدری نثار،عمران خان ، چوہدری برادران ،شریف فیملی ، الطاف حسین،طاہرالقادری اور آصف علی زرداری تک کسی ایک بھی لیڈر کا لائف سٹائل عوام جیسا نہیں ہے عوام کو دو وقت کی روٹی کے لالے پڑے ہوئے ہیں، انہیں پینے کا صاف پانی میسر نہیں ،بنیادی سہولتوںکے لئے عام آدمی پریشان ہے۔مہنگائی ،بیروزگاری، لوڈ شیڈنگ،بیماری اورغربت نے عوام کی اکثریت کا ناک میں دم کررکھاہے جبکہ ہمارے غریب سے غریب ایم پی اے، سنیٹر، ایم این اے کے وسائل اتنے ہیں
کہ عقل دنگ وہ جاتی ہے جب ان کی حالت اور حالات عام آدمی جیسے نہیں ہیں تو پھر انہیں زندگی کی تلخ حقیقتوںسے آشنائی کیسی ؟۔انہیں عوامی مسائل کیا خبر؟ اور عوام کی فلاح کیلئے سوچنا کیسا؟۔۔غریبوںکی دکھ بھری داستان سن کر وہ تو یہی کہیں گے کہ بیوقوفو! روٹی نہیں ملتی تو کیا ہوا ڈبل روٹی کھا لیا کرو۔۔ اس وقت ملک میں جمہوریت کے جتنے دعوے دارہیں یا جو لیڈرعوام کو مختلف سبز باغ دکھا رہے ہیں۔۔جو غریب کی بات کررہے ہیں غربت کے خلاف جدوجہدکے داعی ہیں سب کے سب ۔ ایک ہی تھیلی کے چھتے وٹے ہیں ۔
۔تمام کے تمام حمام میں ایک جیسے ان کے قول وفعل میں تضادہے۔۔عوام کے ساتھ ٹوپی ڈرامہ ہورہاہے کوئی غربیوںسے ہمدردی جتاکر ۔۔کوئی اسلام کا نام لے کر۔۔۔کوئی سسٹم کو گالیاں دے کر اپنا الو سیدھا کررہاہے ان کا ’’طریقہ ٔ واردات‘‘ مختلف ہو سکتاہے مشن اور پروگرام ایک جیساہے جیسے سب بھیڑوں کے منہ ایک جیسے ہو تے ہیں۔
۔۔ا ن کے پاس بڑے بڑے محلات ہیں غریب کو کرائے کا مکان بھی نہیں ملتا کہ درویشی بھی عیاری، سلطانی بھی عیاریعوام کی محبت کا دم بھرنے والوں میں ایک عمران خان بھی ہیں جن کے پاس لاہور کے علاوہ میانوالی اور اسلام آبادبنی گالہ میں کئی سوایکڑوںپر مستمل محلات ہیں میاں نوازشریف فیملی کے پاس بھی ماڈل ٹائون ،مری ، لندن میں بڑے بڑے محلات ہیں ، جاتی عمرہ میں تو مربعوںپرمحیط فارم، اوروسیع و عریض گھر۔۔ اسی طرح سابقہ صدر آصف علی زرداری کے پاس کراچی ،لاہور،
دئبی اور فرانس میں عالیشان محلات ہیں چوہدری پرویز الہی اور چوہدری شجاعت کے پاس گجرات ،لاہور اوربیرون ِ ممالک میں گھرموجود ہیںMQMکے قائدالطاف حسین کے برطانیہ میں مہنگے فلیٹس اور شیخ الاسلام طاہرالقادری کی کنیڈا اور لاہور میں عالیشان رہائش ہے سب قومی رہنمائوں کا رہن سہن عام آدمی کی زندگی سے کوئی میل نہیں کھاتا لیکن اس کے باوجود سب عوام کی خدمت کا دعویٰ کرتے ہیںسب میں کوئی فرق نہیںہے؟ ایک جیسے وعدے ، ایک جیسے دعوے ایک جیسا حکمرانی کا انداز کچھ بھی نہیں
مختلف نہیں عوام تو بے چارے اتنا ہی کہہ سکتے ہیں خدارا !پاکستان پررحم کھائیں آزادی کو مبہم نہ بنائیں آج الحمداللہ پاکستان دنیا کی ساتویں بڑی ایٹمی قوت ہے لیکن ہمارے حکمران ایٹم بم کو کشکول میں رکھ کر دنیا سے کبھی امداد، کبھی قرضے اور کبھی بھیک مانگتے پھرتے ہیں اس کے علاوہ نصف صدی سے کرپٹ عناصر نے پاکستان کا چہرہ مسخ کرکے رکھ دیاہے یہ الگ بات ہے کہ ہمیشہ کہا جاتاہے کہ پاکستان ایک غریب ملک ہے اکثریت آبادی کا حال اور حالت ِ زار دیکھ کر ہم وطنوںکو اس کا یقین ہو جاتاہے
لیکن دنیا ہماری حقیقت جان گئی ہے اسی لئے کوئی سیدھے منہ بات کرنا بھی پسندنہیں کرتا۔ یہ کتنی مضحکہ خیز صورت ہے کہ پاکستان ایک ملک غریب ہے اور اس کے لوگ امیر بلکہ امیر ترین۔ان میں سے کسی کو پاکستان پر ترس نہیں آتا پاکستانی شخصیات کے98 ارب ڈالر سوئس بینکوںمیں پڑے ہوئے ہیں جس سے پورے پاکستان کے ہر شخص کیلئے بلا امتیاز دائمی خوشیاں خریدی جا سکتی ہیں لوگوںکو مہنگائی
،بیروزگاری، لوڈ شیڈنگ،بیماری اورغربت سے نجات مل سکتی ہے لیکن اس کے بارے سوچنا بھی گناہ فرض کرلیا گیا ہے جو لجھے دار باتیں کرتاہے، غریبوںکے حقوق کی صدا بلند کرتاہے،روٹی کپڑا مکان دینے کے نعرے لگاتاہے لمبی چوڑی باتیں کرتاہے شیخ چلی کی طرح خیالی پلائو پکاتاہے ہمارے معصوم ہم وطن اسے اپنا نجات دہندہ سمجھ اس کے پیچھے لگ جاتے ہیں کچھ عرصہ بعد معلوم ہوتاہے یہ بھی راہبرکے روپ میں راہزن تھا کئی سر پیٹ لیتے ہیں کئی لوگوںمیں اس کی بھی سکت نہیں ہوتی
،جس نظام میں یہ سب کچھ ہورہاہے آخر اس نے فناہوناہے ایک دن عروج کو زوال آناہے صرف عوام کی سوچ بدلنے کی دیرہے ان کے دن پھر جائیں گے جن لیڈروںکا لائف سٹائل عوام جیسا نہیں ان کو عوام کی نمائندگی کا بھی حق حاصل نہیں ہونا چاہیے یہ بھی قانون بننا چاہیے جن کی دولت کسی بھی انداز سے دوسرے ممالک میں موجودہو ان کو سرکاری و عوامی نمائندگی کیلئے نااہل قراردیدیا جائے یہی پاکستانی مسائل کا حل ہے
اگر رعائت دینی ہے تو کوئی حد تجویزکرلیں اس کے بعد بے رحم احتساب ۔جو اس کی زدمیں آئے اسے الٹا لٹکا دیا جائے پاکستان کی بدولت یہ لوگ ارب کھرب پتی بنے ہیں اب پاکستان کو ریٹرن کرنے کا وقت آن پہنچاہے لگتاہے قرباتی کا موسم قریب ہے قربانی بھی دو چار افرادکی پھر قوم حقیقی تبدیلی کی منزل پا لے گی وگرنہ کچھ بھی نہیں ہونے والا ۔پاکستان دنیا کی ساتویں بڑی ایٹمی قوت ہے لیکن ہمارے حکمران ایٹم بم کو کشکول میں رکھ کر دنیا سے کبھی امداد، کبھی قرضے اور کبھی بھیک مانگتے پھرتے ہیں
۔جس ملک میں ٹھنڈے پانی کی سبیل کے واٹرکولر پر رکھے گلاس کو زنجیرسے باندھنا پڑے اور لوگوںکو مسجد میں اپنی آخرت سے زیادہ اپنے جوتوںکی فکرہو وہاں صدر یا وزیراعظم کی تبدیلی سے کیا فرق پڑے گا تبدیلی کیلئے ہر شخص کو اپنا اخلاق اور کردار تبدیل کرناہوگا ازخود یاڈنڈے کے زورپر اس کا فیصلہ بہرحال ہم نے خود کرناہے ۔۔ اب بھی وقت ہے سوچنے کا ، سمبھلنے کا،غورکرنے کا قدرت نے اگر ہماری رسی دراز کی ہے تو اس مہلت سے فائدہ اٹھانا چاہیے۔