ترقی پذیر بھارت کو پکوڑے تل بیجنے والا بھارت بنادیا گیا ہے
نقاش نائطی
۔ +966562677707
بھارت کی آزادی کے وقت، عالم کے سب سے پچھڑے دیشوں میں سے ایک، بھارت کو، پہلے وزیر تعلیم, ابوالکلام آزاد نے، اس وقت کے پہلے کانگریسی پرائم منسٹر جواہر لال نہرو والی کانگریس سرکار کی سرپرستی میں، غریب دیش واسیوں سے اصولے محدود ٹیکس پیسوں ہی سے، اپنی دور رس پانچ سالہ پلاننگ کے تحت، پورے دیش بھر میں اسکول، کالجز ،آئی آئی ایم، آئی آئی ٹی اور یونیورسٹیز کا ایسا جال بچھا دیا تھا
اور انکے بعد، یکے بعد دیگرے بننے والے کانگریسی پی ایم، اندرا گاندھی، راجیو گاندھی اور اب سے کچھ سال قبل تک، من موہن سنگھ والی کانگریس سرکار نے، اپنے پیش رو ابوالکلام اور جواہر لال نہرو کے ترتیب دئیے پانچ سالہ ترقیاتی منصوبے پر عمل پیرا رہتے ہوئے، ان پڑھ جاہل مزدور بھارتہ شہریوں کو، ایسی اعلی تعلیم یافتہ کھیپ میں تبدیل کرکے رکھ دیا تھا کہ بھارت میں پڑھے لکھے ہزاروں لاکھوں اعلی تعلیم یافتہ بھارتی خصوصا برہمن ، آج پورے عالم کے مختلف ملکوں کے ایوانوں میں شامل ہوتے ہوئے،
مختلف ملکوں کی خدمات میں مصروف عمل، اپنے ہزاروں کروڑ زرمبادلہ بھارت بھیجتے ہوئے، نہ صرف بھارت کو 2030 تک عالم کی سب سے بڑی قوت (وشو گرو) بنانے میں،مست ومصروف تھے، بلکہ صاحب امریکہ کو عالم کی اکلوتی طاقت بنانے میں بھی پیدائشی بھارتی، اعلی تعلیم یافتگان کا بڑا رول رہا ہے۔ جو بھارت کی اعلی تعلیم حصول بعد اور اعلی تعلیم حاصل کرنے کے بہانے، امریکہ جاتے ہوئے،
امریکی شہریت پاتے ہوئے، وہیں پر،رچ بس کر، امریکی شہری ہوگئے ہیں۔ صرف امریکہ میں کس قدر اعلی تعلیم یافتہ امریکی ہیں اس کا اندازہ اسی سے لگایا جا سکتا ہے کہ، گذشتہ سال امریکی انتخاب کے موقع پر، پیدایشی بھارتیوں کے ووٹوں کے حصول کے لئے، امریکی صدر ٹرمپ نے، بھارتیہ وزیر اعظم کو اپنے انتخابی تشہیر کے لئے، امریکہ بلوا، لے جاتے ہوئے، مودی جی سے “اب کی بار ٹرمپ سرکار” کے نعرے لگوانے تھے
یہ وہی مودی جی ہیں جو ٹرمپ کو جیت سے ہمکنار کرنے،امریکا جاکر، “اب کی بار ٹرمپ سرکار” کے نعرے لگوائے تھے، انہیں اس کا اندیشہ بالکل ہی نہیں تھا کہ وہاں امریکہ میں مستقل سکونت پذیر،بھارتیہ نزاد لاکھوں وہ اعلی تعلیم یافتہ تھے، جو مودی جی کو خوش کرنے،انکے ساتھ “اب کی بار ٹرمپ سرکار” نعرے تو لگا سکتے تھے لیکن صرف مودی جی کے کہنے پر،ٹرمپ کو ووٹ دینے کے بجائے،
ٹرمپ کے مخالف بھارتیہ نزاد کملا ھیرس کے ساتھی جوبائیڈن کو اپنا قیمتی ووٹ دینے کا فیصلہ کر چکے تھے۔ اس کا احساس اپنی انٹیلیجنس کے واسطے سے،مودی جی کو بھی بخوبی تھا، لیکن جانتے بوجھتے پروٹوکول کے تحت،ٹرمپ کے بلانے پر، وہ امریکہ ٹرمپ کی تشہیر میں گئے تھے۔ شاید اسی لئے، اپنے سات سالہ سنگھی راج میں، “سب کا ساتھ سب کا وکاس” نعرے کے بل پر گجرات سی ایم سے دہلی پی ایم تخت تک، پہنچنے والے مودی جی نے، منظم سازش کے تحت، 2030 تک وشو گرو بننے کی
راہ پر گامزن، اعلی تعلیم سے ترقی پزیر بھارت کو، ان پڑھ جاہل مودی بھگت اور سنگھ بھگت ووٹرس والے کے طور باقی رکھنے کے لئے، اعلی تعلیم کے لئے مختص گرانڈ و بجٹ تخفیض کرتے ہوئے، اپنی سیاسی تقریروں میں، “پڑھ لکھ کربے روزگار رہنے سے اچھا ہے، سر راہ پکوڑے بیچ ہی کر روزگار قائم کیا جائے” جیسے اپنے ڈھکوسلے نعروں کےساتھ، ایک سوچی سمجھی سازش کے تحت، بھارت میں پہلے سے موجود تعلیمی معیار کو بگاڑ کر رکھ دیا ہے۔
یہ وہی بھارت ہے جس کے بارے میں، اس وقت کے کانگریسی پی ایم من موہن سنگھ کی ترقی پزیر معشیتی پالیسیز کو دیکھتے ہوئے، 2030 تک بھارت کے عالمی قوت بننے کے جو گمان لگائے جا رہے تھے، جو اب مودی جی کی غلط معشیتی و تعلیمی پالیسیزکے چلتے، اب بھارت کے، کبھی عالمی طاقت بننا نا ممکنات میں سے ہوکر رہ گئے ہیں۔اگر بھارت کی کالجز،آئی آئی ٹی ،آئی آئی ایم اور مختلف یونیورسٹیز میں اعلی تعلیم یافتہ زیادہ تر برہمن بھارتیہ نزاد، تمام کے تمام غیر ملکی شہری، اپنے بھارت دیش بھگتی ظاہر کرتے، اپنی غیر ملکی شہریت چھوڑ، بھارت میں آکر بس جاتے ہیں اور جی جان سے بھارت کی ترقی کے لئے جدوجہد کرتے ہیں، تو یقیں مانئے، اب بھی 2030 تک بھارت کو وشو گرو بننے سے کوئی عالمی طاقت روک نہیں سکتی ہے۔
آج کسی دوست نے کسی نامعلوم اسکول کی سالانہ گیدرنگ کے موقع پر، تعلیمی اہمیت اجاگر کرتے، اس کارٹونی معرض ماڈل (ایگزیبیشن) کو دیکھ کر، کچھ اسکی وضاحت کرتے کچھ لکھنے کی، ہم نے ترغیب پائی ہے۔ آج یہ حقیقت مسلمہ ہر سو عام ہے کہ، کسی بھی قوم و ملک کی ترقی، اسکی رعایا کے اعلی تعلیم حصول ہی سے ہے ۔جس کی بنیاد بھارت میں پہلے اعلی تعلیم یافتہ ڈاکٹر ابوالکلام آزاد نے رکھی تھی
اور اس وقت سے 2014 تک کانگریسی لیڈروں نے اپنے پینسٹھ سالہ کانگریسی روایات کو برقرار رکھتے ہوئے، چمنستان بھارت کو ناقابل تسخیر ترقی پزیری سے نوازا تھا۔اب اگر “سب کا ساتھ اورسب کا بھروسہ (وشواش) کے ساتھ سب کی ترقی” کے سہارے “اچھے دن آنے والے ہیں” جیسے دل لبھاؤنے نعرے کے ساتھ، دیش کا سب سے بڑا تخت حاصل کرنے والے، غیر تعلیم وزیر اعظم کی، موجودہ پالیسیز، انکے 2014 انتخابی وعدوں کے خلاف، دیش واسیوں کو غیر تعلیم یافتہ رکھتی، پائی جاتی ہے
تو، ایسے وزیر اعظم کو، اپنے تمام تر مختلف المذہبی تفکرات سے آزاد ہوکر، اپنے ووٹ کی طاقت سے، اب 2023 کے پانچ ریاستی انتخابات میں یکسر رد کرتے ہوئے، اس کی پارٹی کو ہار سے دوچار کرنا چاہئیے اور 2024 عام انتخاب میں بھی انہیں “بڑے بے آبرو ہوکر تیرے کوچے سے ہم نکلے” کہتے دہلی اقتدار سے،انکی بی جے پی پارٹی کو انکے پارٹی صدر دفتر (ھیڈ کوارٹر) ناگپور مہاراشٹرا واپس بھیج دینا چاہئیے۔وما علیناالا البلاغ