امیرالمومنین حضرت علی ؓ سے کسی نے سوال کیا جناب پانی کا ذائقہ کیسا ہوتاہے؟ امیرالمومنینؓ نے بلا تامل فرمایا زندگی جیسا۔ 127

ٹوٹ اور اٹوٹ

ٹوٹ اور اٹوٹ

جمہورکی آواز
ایم سرورصدیقی

رشتے بھی کیا عجیب ہوتے ہیں انسان جتنا بھی غورکرے یا جتنا بھی انکارکرے اٹوٹ ہوتے ہیں اس میں انسان کا کوئی کمال نہیں رشتوںکاانتخاب قادرِ مطلق کا منتخب کردہ ہوتاہے کوئی اپنے بہن بھائی،والدین سے قطع تعلق بھی کرلے تو رشتہ اٹوٹ رہتاہے ختم نہیں ہوتا ان رشتوںکا انکاری اللہ تعالیٰ کے فیصلوں سے انکارکا مرتکب ہوتاہے دنیا کا ایک بھی فرد اس بات پر قدرنہیں کہ وہ اپنے رنگ،روپ، حسب ،نسب کو اختیارکرنے پر قادرہو وہ اس کے لئے اللہ کے فیصلوںکا محتاج ہے کیونکہ یہ ممکن ہی نہیں

اس کی پیدائش اس کی کسی خواہش کے تابع ہو یہ رشتوںکا گورکھ دھندا ہے ہی ایسا یہ آبگینوںسے بھی نازک ہوتے ہیں بندہ غورکرے تو محسوس ہوتاہے کہ رشتے اللہ تعالیٰ کا گراں قدر عطیہ ہے رشتوںکا کوئی نعم البدل ہوتاہے نہ ہو سکتاہے اربوںکھربوں لوگوں کے درمیان آپ کے ماں جائے محض اتنے ہیں جن کا شمار انگلیوںپر کیا جاسکتاہے پھر رشتوں کی قدرکرنا یا احترام نہ کرنا کتنی عجیب بات ہے اسی لئے امیرالمومنین حضرت علیؓ نے فرمایا تھا احساس کے رشتے خونی رشتوں سے بڑھ کرہوتے ہیں

آج لوگوںکا خون سفیدہوگیاہے اسی لئے وہ اپنے حقیقی رشتوںکابھی احترام نہیں کرتا یہ کہانی بھی ایسے ہی لوگوںکی ہے کئی سال پہلے کی بات ہے ایک شخص کا انتقال ہو گیا اس کی نماز ِ جنازہ پڑھادی گئی جب تدفین کے لئے اسے قبرستان لے جانے لگے تو نہ جانے کدھرسے ایک آدمی آگے آ کر جنازے کے سامنے کھڑا ہوگیا اس نے میت والی چارپائی کا ایک پایا پکڑ کر بڑے رعب سے کہا لیا اور بولا کہ مرحوم نے میرے 15 لاکھ دینے تھے۔ پہلے مجھے میرے پیسے دو پھر اس کو دفن کرنے کی اجازت دوں گا۔

وہاںتو رولا پڑ گیا اب تمام لوگ کھڑے تماشا دیکھ رہے ہیں ادھرادھرسے مزید لوگ جمع ہوگئے ایک بیٹے نے کہا ہم تو آپ کو جانتے تک نہیں کہ آپ کون ہیں ؟ دوسرا بولا ابا جی نے تو کبھی ہمیں تو کوئی ایسی بات نہیں بتائی وہ مقروض ہیں، اس لئے ہم 15 لاکھ کیوں دیں تیسرا بولا ہاں مجھے یاد ہے آپ کبھی کبھار اباجی کے پاس آیا کرتے تھے لیکن اس سے کیسے ثابت ہوگا کہ ہمارے والد آپ کے مقروض تھے ،

قرض کا تقاضا کرنے والے نے کہا بیٹے انکاری ہیں تو مرحوم کے بھائی موجود ہیں وہ قرض ادا کر دیں میں جانتاہوں کہ مرحوم نے اپنے دو بھائیوں کو اپنے خرچۃ پر مکان بناکردئیے تھے متوفی کے بھائیوں نے تنک کر کہا کہ جب بیٹے ذمہ دار نہیں تو ہم کیوں دیں؟۔۔ جنازے پرموجود لوگوںنے قرض کا تقاضا کرنے والے کو بڑا سمجھایا کہ آپ تدفین ہونے دیں اگر مرحوم واقعی آپ کا مقروض تھا تو ہم وعدہ کرتے ہیں

آپ کا ساتھ دیں گے اور آپ کی رقم لے کردے دیں گے۔ لیکن وہ نہ مانا اس نے کہا تدفین کی ایک ہی صورت ہے میرے 15 لاکھ اداکردئیے جائیں مرحوم کروڑوںکی وراثت چھوڑکر فوت ہوا ہے ورثاء کے لئے یہ رقم کچھ حیثیت نہیں رکھتی اب سارے لوگ کھڑے تماشا دیکھ رہے ہیں اور اکثر بھانت بھانت کی بولیا ںبولنے لگے ہیں اور اس نے بدستور میت والی چارپائی پکڑی ہوئی ہے۔ جب کافی دیر گزر گئی تو بات گھر کی عورتوں تک بھی پہنچ گئی کہ عجیب ضدی شخص ہے کسی کی بھی بات نہیں مان رہا بدستور اپنے قرض کا تقاضا کئے جارہاہے

مرحوم کی اکلوتی بیٹی نے جب بات سنی تو اس نے فورا اپنا سارا زیور اتارا اور اپنے پاس جتنی بھی رقم تھی لے کر اس آدمی کے پاس پہنچ گئی اس نے ہاتھ جوڑ کر کہا ا خدا کے لئے یہ رقم ا لے لو ور زیو بیچ کر بھی تمہاراقرض پورا نہیں ہوتا تو اپنے خداکو گواہ بناکر وعدہ کرتی ہوں کہ مرنے سے پہلے ضرور آپ کے بقایا پیسے بھی ادا کردوں گی

خدارا میرے ابو کا جنازہ نہ روکو۔ یہ سننا تھا کہ قرض کا تقاضا کرنے والے نے دھاڑیں مارمارکر رونا شروع کردیا لوگوںنے کہا بڑا عجیب آدمی ہے پہلے15 لاکھ لینے کیلئے جنازہ قبرستان جانے سے روک رہاتھا اب مرحوم کی بیٹی قرض اداکررہی ہے تو بین ڈالنے لگ گیا ہے اب وہ شخص کھڑا ہو گیا روتے ہوئے

مرحوم کے چہرے کے بند کھول کر ہاتھ جوڑ دئیے بڑی دلگیر لہجے میں کہا اسحاق مجھے معاف کردینا لیکن اس کے سوا کوئی چارہ بھی نہیں تھا اس نے مجمع کو مخاطب ہو کر بولا مرحوم میرے بچپن کا وست تھا مجھے کاروبار میں نقصان ہواتو خودچل کر میرے پاس آیا اور میری مدد کی میں بتاتاہوں اصل بات یہ ہے کہ میں نے مرحوم سے 15 لاکھ لینے نہیں بلکہ اس کے دینے ہیں اور اس کے کسی وارث کو میں جانتا تک نہ تھا

تو میں نے یہ کھیل کھیلا اب مجھے پتہ چل چکا ہے کہ اس کی وارث صرف ایک بیٹی ہے اور اسکا کوئی بیٹا یا بھائی نہیں ہے۔ اب لوگ اس کی دانائی پر عش عش کر اٹھے مرحوم کے بھائی منہ اٹھا کے اسے دیکھ رہے ہیں اور تینوں بیٹے بھی۔ اسی لئے امیرالمومنین حضرت علیؓ نے فرمایا تھا احساس کے رشتے خونی رشتوں سے زیادہ مضبوط ہوتے ہیں بیٹا ،بیٹی ،بھائی یا دوست جوبھی احساس کرناوالا ہو وہی پائیدار رشتوںکی ڈورمیں بندھا ہوا ہے لیکن انسان سمجھتا کب ہے؟ بند ہ غورکرے تو محسوس ہوتاہے

کہ رشتے اللہ تعالیٰ کا گراں قدر عطیہ ہے رشتوںکا کوئی نعم البدل ہوتاہے نہ ہو سکتاہے اربوںکھربوں لوگوں کے درمیان آپ کے ماں جائے محض اتنے ہیں جن کا شمار انگلیوںپر کیا جاسکتاہے پھر رشتوں کی قدرکرنا یا احترام نہ کرنا کتنی عجیب بات ہے اکثر دیکھنے میں یہ آیاہے کہ تھوڑے سے مفاد،لالچ اور جائیدادکی خاطر لوگوںکے خون سفید ہوجاتے ہیں بھائی بہنوں میں بول چال بندہوجاتی ہے حتیٰ کہ لوگ والدین سے بھی ناراض ہوجاتے ہیں

کئی تو پراپرٹی ہتھیانے کے لئے اپنے پیاروںکو قتل کرنے سے بھی دریغ نہیں کرتے انسان کو اپنا طرزِ عمل بدلناہوگا لالچ میں آکر اپنے ہی خونی رشتوںکی بے قدری اللہ اور اس کے رسول ﷺ کی تعلیمات کے منافی ہے اس لئے رشتوںکی قدرکرنا ہم سب پر واجب ہے ورنہ پچھتاوے کے سوا کچھ حاصل نہیں ہوتا۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں