کرپشن فری پا کستان بنانے کا عزم 122

کوئی جائے گا نہ کوئی واپس آئے گا

کوئی جائے گا نہ کوئی واپس آئے گا

کالم نگار: تحریر :شاہد ندیم احمد

ملک بھر میں ایک بار پھر نواز شریف کی واپسی بارے شور مچا ہوا ہے ،ایک طرف مسلم لیگ ( ن) کے رہنما ایاز صادق کا بیان ہے کہ غیر سیاسی لوگ نواز شریف سے لندن میں ملاقاتیں کررہے ہیں اور وہ بہت جلد واپس لوٹ آئیں گے تودوسری جانب اسلام آباد میں آصف علی زرداری کی ملاقاتوں کا اتنا چرچا ہے کہ بے نظیر کی برسی میں شرکت بھی نہیں کرسکے ہیں،اس ما حول میں وزیر اعظم عمران خان کی طرف سے کہا جارہا ہے

کہ نواز شریف کی نااہلی ختم کرنے کے راستے نکالے جارہے ہیں ، تین دفعہ وزیر اعظم رہنے والا فرد جو سزایافتہ بھی ہے ،وہ کیسے چوتھی بار وزیر اعظم بن سکتا ہے ،تاہم اس کے باوجود ڈیل اور ڈھیل کی بازگشت واضح طور پر سنائی دیے رہی ہے۔اس میں شک نہیں کہ اس ملک میں پہلے بھی ڈیل اور ڈھیل دی جاتی رہی ہیں اور اب بھی کائوشیں ہورہی ہیں،اس لیے ہی ایک بار پھر ڈیل کی باتیں ہونی لگی ہیں ،

ایک بار پھر پرانے کھیل کی باز گشت سنائی دینے لگی ہے ، یہ بازگشت آصف علی زرداری کے فار مولے سے شروع ہو کر میاں نواز شریف کی واپسی کی جانب بڑھتی جارہی ہے،اس کھیل کو دیھنے والے تو قیاس آرائیاں ہی کر سکتے ہیں ،مگر اس کا حصہ بننے والے بہت اچھی طرح جانتے ہیں کہ ایسا کیا کچھ کب ہونے والا ہے ،اس کی نشاندہی بھی کی جارہی ہے ،تاہم اس پر وزیراعظم عمران خان کا خدشات کے ساتھ حیرانگی کا اظہار کرتے ہوئے کہنا ہے کہ یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ نواز شریف آئیں گے

،ان کی سزا ختم کی جائے گی اور پھر انہیں چوتھی مرتبہ بوزیراعظم بھی بنایا جائے گا۔یہ افسوسناک امر ہے کہ قوم مہنگائی کی چکی میں پس ر ہے ہیں اور ملک کی معاشی صورتِ حال تباہ کن ہے، لیکن حکمران اور اپوزیشن ایک دوسرے کو نیچا دیکھانے کیلئے پورا زور لگارہے ہیں، حکومت اپنے سارے سرکاری وسائل خرچ کرکے اپوزیشن کے خلاف مہم چلانے میں مصروف ہے،جبکہ اپوزیشن مقتدر قوتوں سے رابطوں میں مشغول ہے ،کیو نکہ وہ جانتے ہیں کہ اقتدار میں داخل ہو نے کا ایک و ہی واحد راستہ ہے

،اس راستے پر چلتے ہوئے آئین وقانوں میں خود بخود گنجائشیں نکال آتی ہیںاور آئین و قانون کوموم کی ناک کی طرح من چاہے موڑ بھی لیا جاتا ہے ،اس لیے عوام کی عدالت میں جانے سے لے کر عوام کی حمایت حاصل کرنے کی باتیں محض عوام کو بے وقوف بنانے کیلئے کی جاتی ہیں ،در اصل اقتدار تو ڈیل اور ڈھیل کے ذریعے ملتا ہے۔
اس حقیقت سے انکار نہیںکہ اس ملک کی ساری سیاسی جماعتیں ہی ڈیل اور ڈھیل کے ہی انتظار میں رہتی ہیں، اگر کوئی ایک ڈیل کرنا چاہتا ہے کہ موجودہ حکومت ختم کر کے اُس کے لیے رستہ بنایا جائے تو دوسرے کی خواہش ہے کہ اُس کے لیے ملک اور سیاست میں واپسی کا راستہ ہموار کیاجائے ،جبکہ ڈیل کا مزہ لینے والے چاہتے ہیں کہ ڈیل والے صرف اُن کے ساتھ ہی مخلص رہیں، چاہے اُن کی کارکردگی جیسی بھی رہی ہو اُن کی حمایت جاری رکھیں اور اُن کے مخالفین کو کسی قسم کی کوئی رعایت نہ دی جائے،اس ملک کی بدقسمتی ہے کہ اس کی ساری سیاست ڈیل اور ڈھیل کے ہی ارد گرد گھوم رہی ہے اور عوام جانتے بوجھتے ہوئے بھی بے وقوف بننے کے ساتھ استعمال ہو تے آرہے ہیں۔
حکومت اور اپوزیشن کی تر جیح عوام نہیں ،حصول اقتدار ہے ،دونوں ہی ملکی مفادکی بجائے ذاتی مفاد کے حصول میں لگے ہوئے ہیں، حکومت ساڑھے تین سال چوروں کے احتساب کے شور میں گزار دیئے ،مگر عملی طور ہر کسی ایک کا بھی احتساب نہیں کیا جاسکاہے،،حکومت آج بھی پچھلے حکمرانوں کی چوری کا شور مچانے میں لگی ہوئی ہے

،جبکہ اپوزیشن کا سارا زور حکومت گرانے پر صرف ہورہاہے، اگر تین برس سے زیادہ عرصے میں اپوزیشن ملک کو آئین کے مطابق چلانے پر زور دیتی، قانون سازی کو راہ راست پر رکھتی، ملکی معاملات میں آئین کو بالادست بناتی تو ملک درست سمت میں چل پڑنا تھا،مگر ایسا کچھ بھی نہیں کیا گیا،دونوں نے ہی ملکی مفاد پر ذاتی مفاد کو تر جیح دی ہے اور آج بھی اپنے مفادات کے حصول
میں لگے ہوئے ہیں۔
حکومت کی کوشش اپوزیشن کو دیوار سے لگانا اور اپوزیشن کی جدوجہد حکومت گرانے کیلئے ہے ،جبکہ عوام کے حالات دن بدن بدتر سے بدترین ہوتے جارہے ہیں،حکومت اور اپوزیشن نے ماضی سے کچھ سیکھا نہ حال میں کوئی بہتری کی اُمید نظر آتی ہے ،یہاں پر ڈیل کرنے والے اور ڈیل کے طلب گار سب ہی اپنا مفاد ات کے غلام بنے ہوئے ہیں،یہ اپنے مفادات کے حصول کیلئے ایک دوسرے کے مخالف اور اپنے مفاد میں ہی ایک دوسرے کا ساتھ دینے لگتے ہیں،عوام کیلئے بیانات، نعرے، باتیں سب کچھ زبانی جمع خرچ ہے

،یہ سب کچھ عوام کو بے وقوف بنانے کیلئے کیا جاتا ہے ،یہ وقت ڈیل کا نہ ڈھیل کا ہے ،یہ وقت پرانی ہی ڈیل کو پائے تکمیل تک پہچانے کا ہے ،اس لیے شیخ رشید درست کہتے ہیں کہ عمران خان کہیں جائیں گے نہ نواز شریف واپس آئیں گے ،یہ چائے کی پیالی میں طوفان لانے کی ایک کوشش ہے کہ جس کے ذریعے پاڑٹی کارکنان کو متحرک کیا جاسکتا ہے،مگر حکومت گرانا ،اپوزیشن قیادت کے بس کی بات نہیں ہے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں