کرپشن فری پا کستان بنانے کا عزم
کالم نگار: تحریر :شاہد ندیم احمد
پاکستان میں انسداد بدعنوانی کے لئے کام کرنیوالے ادارے قومی احتساب بیورو کی کارکردگی پرہمیشہ سے سوالیہ نشان رہا ہے، اس ادارے پر مختلف حکومتوں کی جانب سے اپنے سیاسی مقاصد کے لئے استعمال کرنے کے الزامات بھی لگائے جاتے رہے ہیں، آئین میں اٹھارویں ترمیم کے بعد ادارے کے سربراہ کی تقرری میں شفافیت کے لئے وزیر اعظم اور قائد حزب اختلاف کے درمیان بامعنی مشاورت کو ضروری قرار دیا گیا
،اس کے باوجو دنیب کا ادارہ انسداد بدعنوانی کے لیے وہ کردار ادا نہیں کر سکا، جو اسے کرنا چاہیے تھا،تاہم چیئرمین نیب جسٹس جاوید اقبال کا کہنا ہے کہ نیب کا تعلق کسی سیاسی جماعت،گروپ یا فرد سے نہیں، بلکہ ریاست پاکستان سے ہے ،نیب بدعنوانی کے خاتمے کو قومی فرض سمجھ کر ادا کر رہا ہے اورکرپشن فری پاکستان بنانے کیلئے پرُعزم ہے۔یہ امر واضح ہے کہ بد عنوانی کا خاتمہ کسی فرد واحد کی نہیں، پوری قوم کی آواز ہے، کیونکہ کرپشن ملکی ترقی کی راہ میں نہ صرف بڑی رکاوٹ ہے، بلکہ مستحق لوگوں کو ان کے حق سے بھی محروم کرتی ہے،
اسملک سے لوٹ مار اور بدعنوانی کے خاتمے کے لیے ہی 16نومبر 1999ء کو قومی احتساب بیورو(نیب) کا قیام عمل میں لایا گیاتھا، مگر بدقسمتی سے اپنے قیام کے کچھ ہی عرصہ بعدسے ہی نیب پر سیاسی مخالفین کو ہراساں کرنے اور سیاسی جوڑ توڑ میں استعمال ہونے کے الزامات کا سامنا رہا ہے،اس تاثر کو یکسر مسترد کرنا اس لیے بھی ممکن نہیں ،کیونکہ ان مقدمات میں سے بیشتر میں کسی کو سزا تک نہیں ہوئی اور جن چند سیاسی لوگوں کو ہوئی ہے ،وہ بھی ضمانتوں پر آزادانہ دندناتے پرتے نظر آتے ہیں۔
اس ملک میں طاقتور اور کمزور کیلئے الگ الگ قوانین دیکھنے میں آتے ہیں،اس کی وجہ اداروں پرمختلف دبائو کا کار فرما ہونا ہے، ادارہ نیب کو کبھی آزادانہ طور پر کام کرنے کا موقع فراہم نہیں کیا گیا ،تاہم نیب کو جب کبھی آزادانہ بغیر کسی سیاسی مداخلت کے کام کرنے کا موقع ملا تو قومی احتساب کے ادارے نے قوم کو بہتر نتائج فراہم کرنے کی کوشش کی ہے ،اس کا واضح ثبوت نیب لاہور کی حالیہ چار سالہ رپورٹ ہے کہ جس کے مطابق ماضی کے 16سال میں نیب نے 17ارب 70کروڑ 80لاکھ روپے کی پلی بارگین کی ہے، جبکہ گزشتہ چار سال میں صرف14ارب 65کروڑ روپے مالیت کی پلی بارگین ہوئی تھی، اس دورانیے میں وصولیوں میں 181فیصد اضافہ بھی دیکھا جاسکتاہے۔
اس حقیقت سے انکار نہیں کہ قومی احتساب بیورو وائٹ کالرکرائم اور میگا بدعنوانی کے مقدمات کو اولین ترجیح دے رہا ہے، ادارہ نیب کی جانب سے ملک اور قوم کے اربوں روپے لوٹنے والوں کو قانون کے کٹہرے میں لانے کیلے تمام وسائل بھی بروے کار لائے جارہے ہیں، نیب ملک سے کرپشن کے خاتمے کیلے سنجیدہ کاوشیں کررہا ہے،لیکن یہ کا ئوشیں تبھی کا رگر ثابت ہوں گی کہ جب حکومت نیب کو آزادانہ ماحول فراہم کرنے کے ساتھ نیب کی تفتیش میں حائل قانونی موشگافیوں کوبھی دور کرے،
تا کہ کرپشن کے خاتمے پر مامور یہ ادارہ آزادانہ ماحول میں نہ صرف کرپٹ افراد کا محاسبہ کرسکے ،بلکہ ملک میں میرٹ اور شفافیت کی حکمرانی کو بھی ممکن بنایا جا سکے۔یہ امر قابل غور ہے کہ ہم اداروں سے اچھے نتائج کی توقع رکھتے ہیں،مگر انہیں فعال بنانے کے اقدامات سے گریزاں دکھائی دیتے ہیں ،قومی احتساب بیورو کے چئیرمین جسٹس جاویداقبال کی ہدایت پر نیب کے افسران کی سالانہ کارکردگی کا جائزہ لینے اور اسے مزید بہتر بنانے کیلئے جامع معیاری گریڈنگ سسٹم شروع کیا گیاہے
، اس گریڈنگ سسٹم کے تحت نیب کے تمام علاقائی بیور وز کی کارکردگی کا نہ صرف جائزہ لیا جار ہا ہے ،بلکہ انکی خامیوں کو دور بھی کیا جا ر ہا ہے ،نیب نے انویسٹی گیشن آفیسرز کے کام کو مزید موئژ بنا نے کے لئے سی آئی ٹی(CIT) کا نظام بھی قائم کیا ہے ،اس سے نہ صرف کام کا معیار بہتر ہوگا، بلکہ کوئی انفرادی طور پر تحقیقات پر اثرانداز بھی نہیں ہوسکے گا۔
اس میں شک نہیں کہ قومی احتساب بیورو کے چئیرمین جسٹس جاویداقبال اپنی تعیناتی سے ابتک ادارہ کو جدید خطوط پر استوار کرنے ساتھ کارکردگی مزید بہتربنانے کیلئے کوشاں رہے ہیں،انہوں نے حکومت اور اپوزیشن کی تفریق کیئے بغیر میرٹ پر کسی پریشر کو خاطر میں نہ لاتے ہوئے کرپٹ عناصر کے خلاف قانون کے مطابق سخت کاروائی کی ہے،
اُمید کی جاتی ہے کہ قومی احتساب بیورو ایسے قومی لٹروں پر کو بھی اپنی سخت گرفت میں لائے گا اور انہیں کیف کردار تک پہنچائے گا ،جو کہ ادارہ نیب اور عدلیہ کو حرف تنقید بنانے سے بھی باز نہیں آرہے ہیں،دنیا بھر کے جن ممالک میں بھی کرپشن کم ہوئی ہے، اس کا راز یہی ہے کہ وہاں ادارے اور عدالیہ آزاد ہیں اور قانون سب کیلئے برابر ہے، ہمیں یقین ہے کہ اگرملک کے اداروں اورعدلیہ کو آزادی سے کام کرنے دیا جائے اور ان کے احکامات پر فوری عمل در آمد کیا جائے تو ہم بھی بہت جلد کرپشن فری پا کستان بننے کی راہ پر گامزن ہو سکتے ہیں ۔