قومی سلامتی پا لیسی سے معاشی سلامتی کی مضبوطی
کالم نگار: تحریر :شاہد ندیم احمد!
وفاقی کابینہ نے قومی سلامتی پالیسی کی منظوری دی ہے ،اس کے بارے میں حکومت کا دعویٰ ہے کہ یہ ملک کی پہلی قومی سلامتی کی پالیسی ہے، اس کے ابھی مکمل خدوخال سامنے نہیں آئے ہیں، تاہم ابتدائی تفصیلات کے مطابق پالیسی کا مہور معیشت ہو گا،اس پالیسی کے تحت ملک کے تمام ادارے ایک مربوط انتظام کے تحت معیشت اور اس سے جڑے تمام امور میں اہداف کی کامیابی کے لیے اپنا کردار ادا کریں گے،
اس حوالے سے وزیراعظم کے قومی سلامتی کے مشیر معید یوسف کا کہنا ہے کہ یہ حقیقی معنوں میں تاریخی کامیابی ہے کہ ’عوام پر مبنی ایک ایسی پالیسی تشکیل دی گئی ہے کہ جو قومی سلامتی کے تمام پہلوئوں کو دیکھتی ہے ،پہلے سکیورٹی فوج اور بارڈر سے مشروط تھی ،اب عوام سے بھی مشروط ہے ۔
اس میں شک نہیں کہ نیشنل سیکیورٹی پالیسی کے نام سے بظاہر ایسا ہی لگتا ہے کہ یہ صرف سرحدوں کی حفاظت کے حوالے سے کوئی منصوبہ بندی ہے، لیکن سیکیورٹی صرف سرحدوں کی حفاظت کا نام نہیں ،بلکہ سرحدوں کی حفاظت کے ساتھ ان کی حدود میں رہنے والے شہریوں کی زندگیوں میں خوشحالی و آسانی پیدا کرنا بھی ریاست ہی کی ذمہ داری ہے ،عوام کے مسائل کا تدار کیسے ہو گا
اور ان کی زندگی میں خوشحالی کیسے آئے گی ا،اس کے لیے یک واضح پالیسی، ایک روڈ میپ کی اشد ضرورت محسوس کی جارہی تھی ،اس پر سابق دورحکومت میں کام شروع کیا گیا،لیکن پی ٹی آئی حکومت کو کریڈٹ جاتا ہے کہ اسے قوم کے سامنے لانے میں کامیاب ہو گئی ہے ،تاہم ضرورت اِس امر کی ہے کہ تمام ادارے یکسو ہو کر ایک نظام کے تحت اس کے پیچھے چل پڑیں،ورنہ دیگر پا لیسیوں کی طرح یہ بھی ناکام ہو جائے گی ، اس پالیسی کی کامیابی میں ہی ایک عام پاکستانی کی زندگی کی آسانی پنہاں ہے۔
اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ ریاست ایک جسم کی طرح ہوتی ہے ،اس جسم کے تمام اعضا ایک نظم میں چلیں گے توجسم میں حرکت پیدا ہوتی ہے،ایسے ہی ریاستی ادارے ہیں، اگر ڈسپلن کے تحت یکسو ہو کر متحرک ہوں گے تو ہی معاشرے میں بہتری آئے گی،ریاست ایک ماں کی طرح ہوتی ہے اور وہ طاقتور، کمزور، امیر، غریب کے فرق سے بالاتر ہو کر سب کے لیے بلا امتیاز سوچتی اور منصوبہ سازی کرتی ہے
،موجودہ حکومت قومی مفاد کے پیش نظر نیشنل سیکیورٹی پالیسی لے کر آئی ہے ، اپوزیشن کا فرض بنتا ہے کہ ذاتی مفاد کی بجائے قومی مفاد کی نظر سے دیکھتے ہوئے حکومت سے تعاون کرے ،اُمید ہے کہ کابینہ کے بعد پارلیمینٹ بھی نیشنل سیکیورٹی پالیسی کی منظوری دے دے گی،لیکن یہ بات بھی محسوس کی جاتی ہے کہ اس سے قبل قومی اتفاق رائے سے بننے والے نیشنل ایکشن پلان پر مکمل عملدرآمدنہیں کیا جا سکاتھاتو اس نیشنل سیکورٹی پا لیسی پر کیسے عملدرآمد کی یقین دہا نی کرائی جاسکتی ہے ۔
ہمارے ہاں ہر دور حکومت کا وطیرہ رہا ہے کہ ہر حادثے اور سانحہ کے بعدنئے منصوبے اورپا لیسیاں توبنائی جاتی ہیں ،مگر اس پر من و عن عمل کرنے کا شور و غوغا بلند کرنے کے باوجود عمل نہیںکیاجاتا ہے ،اس لیے ضرورت اِس امر کی ہے کہ تمام ادارے اور ملک کے ذمہ دار افراد اس بات کی اہمیت کا ادراک کرتے ہوئے
عملد رآمد کو یقینی بنائیں،اگرقومی پالیسیاں بنتی رہیںاور کسی بھی قومی پالیسی پر عمل نہ کیا جائے تو محض کاغذ کے پھولوں کا گلدستہ بن کر رہ جاتی ہے،اس کے رنگ تو نظر آتے رہتے ہیں،لیکن اس کی کوئی خوشبو نہیں ہوتی ہے کہ جس سے کوئی مستفید ہو سکے ،اس طرح پالیسیاں بنا کر طاق میں رکھنے سے فقط قومی دولت، وقت اور وسائل کے ضیاع کے علاوہ ملک و عوام کا کوئی فائدہ نہیں ہوتا ہے۔
یہ امر خوش آئند ہے کہ معاشی سلامتی کو اس قومی سلامتی پالیسی کا بنیادی جزو قرار دیا جا رہا ہے، تاہم اس کے ملکی معیشت پر اثرات تبھی مرتب ہوں گے کہ جب اس پر من وعن عملدر آمد بھی کیا جائے گا، اُمید ہے کہ اس بار قومی سیکیورٹی پالیسی کے اجرا کے بعد اس پر تن من دھن سے عمل کا آغازبھی کیا جائے گا،
ملک کی سیاسی وعسکری قیادت کو بخوبی ادراک ہے کہ جنہوں نے قومی سلامتی پالیسی کا اجرا ء کرکے اپنے باہم یکجہت اور سرگرم ہونے کا ٹھوس پیغام دیا ہے،اس وقت ملکی وقومی سلامتی کے تحفظ کی خاطر ایسے ہی ادارہ جاتی اتحاد و یکجہتی کی انتہائی ضرورت ہے، اس کے زیر سائیہ ہی قومی سلامتی پا لیسی پر عملدر آمد کرتے ہوئے معاشی سلامتی مضبوط بنائی جاسکے گی۔