جعلی دوائیوں کادھندہ اور ریگولیٹری ادارے
کالم نگار: تحریر :شاہد ندیم احمد!
ملک بھر میںروز مرہ استعمال کی اشیاء میں ملاوٹ برسوں سے جاری ہے جو انسانی جانوں سے کھیلنے والے انسانیت دشمن عناصر کا معمول بن چکا ہے، اس ملاوٹ کے دھندے پر ابھی قابو نہیں پایا جاسکا تھا کہ ملک میں غیرمعیاری اور جعلی ادویات کی فروخت کے سکینڈل بھی منظر عام پر آنے لگے ہیں،
جوکہ ملاوٹ سے بھی زیادہ جان لیوا ثابت ہورہے ہیں،ماہرین کی رپورٹ کے مطابق پاکستان میں جعلی ادویات سے ہر سال اربوں روپے کمائے جاتے ہیں ،لیکن یہ جرم بڑی تیزی کے ساتھ ہزارہا انسانی جانوں کے ضیاع کا باعث بھی بن رہاہے۔
یہ امر انتہائی قابل افسوس ہے کہ دنیا بھر میں جعلی اور غیر معیاری ادویات کا کاروبار کم ہونے کی بجائے بڑھتا ہی جارہا ہے ،اس کاایک اندازے کے مطابق سالانہ حجم دو سو ارب ڈالر کے قریب پہنچ چکا ہے، اقتصادی ماہرین کا کہنا ہے کہ پوری دنیا میں کاروباری شعبوں میں قانونی اور معیاری مصنوعات کی غیر قانونی اور غیر معیاری نقل تیار کر کے کمایا جانے والا منافع سب سے زیادہ ہوتا ہے،
اس لیے بین الاقوامی سطح پر مجرمانہ منافع کی یہی ہوس لاکھوں انسانوں کی موت کی وجہ بھی بن رہی ہے ،پا کستان میں بھی جعلی اور غیر معیاری ادویات کا دھندہ اپنے عروج پر ہے ،جبکہ اس کی روک تھام کرنے والے ادارے بے بسی کی تصویر بنے نظر آتے ہیں۔
پاکستان میں معیاری ادویات کی دستیابی کو یقینی بنانے اور جعلی اور غیر معیاری ادویات کی روک تھام کا کام ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی آف پاکستان یا ڈریپ نامی ادارہ کرتا ہے، لیکن اس ادارے کے اہل کاروں کی ملی بھگت سے ہی غیر قانونی دوا ساز اور دوا فروش پاکستانیوں کی ناحق موت کی وجہ بن رہے ہیں
،ڈرگ کنٹرول کے شعبے کے اعلی افسران و اہلکار وں سے دریافت کیا جائے تو اس بات سے ہی انکار ی ہیں کہ پاکستان میں جعلی ادویات کا کاروبار عروج پرہے، جبکہ ایک سرکاری تھنک ٹینک کی رپورٹ کے مطابق 2015 سے اب تک پاکستان کی مارکیٹ میں 4 ہزار 8 سو دوائیں غیرمعیاری پائی گئیں اور 454 جعلی نکلیںہیں،اس کے باوجود ریگولیٹری ادارے کے کان پر کوئی جوں تک نہیں رینگ رہی ہے ۔
یہ ریگولیٹری ادارے کی نا اہلی ہے کہ جعلی اور غیر معیاری ادویات کا دھندہ جرم ہو نے کے باوجودنہ صرف عرصے سے جاری ہے، بلکہ اس کا دائرہ بھی پھیلتا چلا جا رہا ہے، جعلی اور غیر معیاری ادویات بنانے والوں نے نہ صرف ڈرگ مارکیٹ تک بھرپور رسائی حاصل کی ہوئی ہے، بلکہ ادویات فروش زیادہ منافع کے لالچ میں یہ ادویات کھولے عام اپنے سٹوروں پر رکھتے اور فروخت کرتے ہیں،
ہسپتالوں میں ایسے واقعات بھی ہو چکے ہیں کہ وہاں کے سٹوروں سے اصلی ادویات اُٹھا کربازاروں میں فروخت کر دی گئیں اور اُن کی جگہ جعلی ادویات رکھ دی گئیں، اس سارے دھندے میں ہسپتالوں کا عملہ بھی ملوث ہوتا ہے، یہ کتنا بڑا ظلم ہے کہ جو ادارہ ڈرگ مافیا کے سد باب کیلئے بنا گیا اور جوہسپتال انسانی جانیں بچانے کے لئے بنائے گئے ، چندلالچی لوگوں کی حرکتوں کی وجہ سے عام انسانوں کی موت کا باعث بننے لگیںہیں۔
حکومت نے غیرمعیاری اور جعلی ادویات کی روک تھام کے لئے ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی تو بنا ئی ہوئی ہے،مگر اس کے نظام کو بہتر نہیں بنایا جاسکا ،اس کے باعث ریگولیٹری ادارہ جعلی ادویات کی فروخت کے سکینڈل منظر عام پرآنے کے بعد چند دن کیلئے مہم جوئی کرتے ہوئے چند لوگوں کو پکڑا جاتا ہے ،
مگر اصل مگر مچھوں پر کوئی ہاتھ نہیں ڈالتاہے ،کیو نکہ وہ طاقتور لوگ ایوانوں میں بیٹھے ہیں یا اُن کے سر پر ارکان ایوان کا ہاتھ ہے ،پٹرول ،شوگر، چینی ،آٹا اور ڈرگ مافیا ادروں کی گرفت سے نہیں، ،حکومتی دست رست سے بھی باہر ہیں ، ریگولیٹری ادارے محض دکھائوے کیلئے براہ راست مارکیٹ کنٹرول کرتے ضرور نظر آتے ہیں ،لیکن اس سے اصل خرابیاں دور نہیں ہوتی ہیں،بلکہ ان میں مزید اضافہ ہو رہا ہے۔اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ اس ملک کے نظام میں بہتری لائے بغیر اداوں کو فعال بنانا اور کرپٹ مافیاز
پر گرفت ڈالناممکن نہیں ہے ،حکومت ایک کے بعد ایک عوامی رلیف کی منصوبہ سازی میں مصروف عمل ضرورہے ،مگر اس نظام میں بہتری لائے بغیر کوئی منصوبہ کامیابی سے ہمکنار نہیں ہو سکے گا ،حکو مت دیگرشعبوں کی طرح قومی صحت کے بارے میں بھی متفکر ہے ،صحت کارڈ کا اجراء اسی سلسلے کی کڑی ہے،تاہم جب تک ایک مروجہ نظام کے تحت صحت کارڈ بھی حقیقی مستحقین تک نہیں پہنچے گا
تواس صحت کارڈ کا حقیقی مقصد پورا نہیں ہو گا،حکومت جتنا مرضی صحت کارڈ کی ترسیل میں شفافیت کے دعوئے کرے ،سیاسی کرپشن کی دھند صحت کارڈ پر بھی چھائی ہوئی ہے ،حکومت کو چاہئے کہ عوامی منصوبہ سازی کے ساتھ ایک ایسا نظام بھی وضح کرنے کی کوشش کرے کہ جس کے تحت شفافیت یقینی بنانے کے ساتھ اشیائے خوردنی میں ملاوٹ کے تدارک اور غیرمعیاری اور جعلی ادویات کی روک تھام کو بھی یقینی بنایا جاسکے ،اگرادویات کی قیمتیں یونہی تیزی سے بڑھتی رہیں، اوپر سے ان کا معیار بھی ناقص رہا اور جعلسازی یو نہی عام ہوتی رہے گی تو پھربیمارانسانیت کے دکھوں کا مداوا کبھی نہیں ہو سکے گا!