مسلم دشمنی درشا ھندو ووٹروں کو بے وقوف کرنے کی سنگھی سازش 167

استاد محترم عبدالرحمن باطن صاحب مدظلہ

استاد محترم عبدالرحمن باطن صاحب مدظلہ

کالم نگار: تحریر :نقاش نائطی
۔ +966562677707

ہم جامعہ اسلامیہ بھٹکل عربی اول کے طالب علم مصروف تعلیم درجہ ہی تھے کہ خادم مدرسہ نے آکر بتایاکہ اخی محترم آئے ہوئے ہیں، مہتمم کے کمرے تک پہنچنے پر پتہ چلا کہ ہمارے اخی محترم نے ہمارے تعلیمی مستقبل کا فیصلہ کردیاہے اور اب تک کے اس دن کے گزرے،تا دم آخر سانس تک نہ بھولے جانے والے وہ لمحات، دینی مدرسے میں ہمارے آخری لمحات تھے۔ تو گویا ہم سے ہماری مرضی معلوم کئے بناہی،

عربی اول یعنی چھٹی کلاس کے دینی علوم طالب علم کو، مقامی قومی عصری ثانوی تعلیم گاہ کے ساتویں درجہ میں بٹھادیا گیا تھا۔ چونکہ اے فور ایپل، بی فور بال انگریزی کے کچھ حروف کے علاوہ عصری تعلیم سے ہم آشنا نہ تھے اس لئے اسکول اوقات کے بعد، جن تین اساتذہ اسکول کے یہاں اضافی تعلیم کے لئے روزانہ شام ہمیں بھیجا جاتا تھا، ان میں المحترم مرحوم آیس ایم شبیر ماسٹر علیہ الرحمہ اور عبدالغنی ماسٹر علیہ الرحمہ کے علاوہ،المحترم عبدالرحمن باطن ماسٹر مدظلہ بھی تھے۔ اسکول اوقات بعد تین مختلف اساتذہ کی شفقت تدریب نے، ہمیں کچھ ہی مہینوں کی انکی محنت بعد، کلاس کے ذہین ترین چند بچوں کے بعد والے، انکے مقابلہ کی صف اولی تک ہمیں لاکھڑا کر دیا تھا

کلیہ ہماری تعلیم دوران المحترم باطن ماسٹر،اپنے قومی اسکول سے مرڈیشور ہائی اسکول منتقل ہوگئے تھے جہاں سے وہ اڈپی کے کسی اسکول میں تدریسی خدمات انجام دیتے دیتے، ان اپنے بہتر معاش کی تگ و دو میں۔ سعودی عرب کے الخبر شہر میں قائم پاکستان ایمبیسی اسکول مدرس خدمات انجام دینے لگے تھے۔ ان ایام ہمارے زمانہ تعلیم کلیہ جب ہم نے ڈرامہ نویسی میں طبع آزمائی کی تھی تو وہ ہمارے استاد محترم عبدالرحمن باطن مدظلہ ہی تھے جنہوں نے ہمارے لکھے نائطی ڈرامہ “ساٹو گلا کاٹو”

،(لیں دین کی شادی گلے کا کانٹہ) دیکھ کر نہ صرف ہماری بڑی ہمت افزائی کی تھی بلکہ اس ڈرامے کے لئے ایک خوبصورت نائطی ںظم بھی لکھ کر دی تھی جو ہماری تساہلی کے باعث ہمارے پاس محفوظ باقی رہ نہ پائی، اس کا نصف مصرع کچھ یوں تھا، “کنارہ ور ہاڑون بوڑؤلی موجی نئیہ”(ساحل کے قریب ڈبوئی ہماری کشتی)*
*اسی کے دہے کے وسط میں،جب ہمارا معاشی شہر سعودیہ قیام الخبر ہوا تو المحترم عبدالرحمن باطن صاحب سے تعلقات استاد شاگرد سے پرے، قومی رفاع عام خدمات تناظر میں، بے تکلفانہ ہوگئے تھے۔1989 بھٹکل مسلم جماعت منطقہ شرقیہ کی نظامت ہمارے ناتواں کندھوں پر رہتے، جماعت ھذا کے، دستور سازی میں، ہمارے دو مختلف دوست المحترم ابوبکر قاضیہ مرحوم پیشہ مہندس اور المحترم زاہد رکن الدین سی اے پیشہ محاسب عالی سے منسلک، کے علاوہ استاد محترم باطن مدظلہ نے ہماری بڑی مدد ورہنمائی کی تھی۔

جماعت ھذا کی پہلی سالانہ تقریبات عید ملن پروگرام جب ہم نے بیرون بھٹکل و بیرون ھند جماعتوں میں پہلی دفعہ کسی فائیو اسٹار ہوٹل کے عالیشان بینکویٹ ہال میں منایا تھا اور بعد نشست اجلاس سالانہ، ھند و پاک نامور شعراء کے ساتھ چار ایک سو لوگوں کے مجمع کو لئے، مشہور پاکستانی شاعر المحترم یونس اعجاز صاحب کی نظامت میں، بھارتیہ شاعرمرحوم ذکا صدیقی علیہ الرحمہ، محترم اقبال قمر پاکستان کے علاوہ انیک شعرا کے ساتھ، استاد محترم عبدالرحمن باطن کی معیئت میں، صبح کی اذان تک جو کامیاب ترین مشاعرہ منعقد ہوا تھا،بطور ناظم مشاعرہ یونس اعجاز کے قول مطابق،

ان ایام تک وہ ہمارا منعقد مشاعرہ سعودی تاریخ میں ھند و پاک کا دوسرا سب سے کامیاب ترین مشاعرہ تھا۔ اس مشاعرہ کی صدارت سفارة ھند برائے سعودی عرب بطور فرسٹ سکریٹری خدمات انجام دے رہے، المحترم مرحوم شاہ بندری جعفر صادق منکی علیہ الرحمہ تھے۔ اس مشاعرہ کے اختتام پر عوامی فرمائش پر استاد محترم نے چھوٹی بحر والی جو نظم ترنم میں پڑھتے ہوئے،دیار غیر ریگزار عرب میں اردو ادب کا جو سماں باندھا تھا،اسے فجر کی آذان کی آواز نے جادو کے سماں میں تبدیل کرکے رکھ دیا تھا۔ پوری نظم تو ہمیں یاد نہیں، مصرع انتہا مقطع کچھ یوں تھا
ہم آذان دیتے ہیں باطن دوسروں کے واسطے
اپنے کانوں پر مگر دو انگلیاں رکھتے ہیں ہم

لحن داؤدی والے بھاری بھرکم آواز کے ساتھ کسی مغنی سے، آج بھی وہ نظم،اسی استاد محترم والے ترنم کے ساتھ، گوائی جائے اور ریکارڈیڈ کلپ یو ٹیوب پر نشر کی جائے تو اردو ادب کی دنیا، لمبے عرصے تک استاد محترم کے کلام کی شیدائی بنی رہ سکتی ہے۔ استاد محترم عبدالرحمن باطن مدظہ میں، بارگاہ ایزدی سے، بہت سارے گن یکجا پائے جاتے ہیں۔ اپنے چشم عذر و کمزوری باوجود اس پیران حالی میں بھی، محترم استاد قومی رفاعی کاموں میں، خصوصا ترویج علم کو ایک مشن کی طرح اپنے گلو میں لئے،

انجمن حامی المسلمین سے جڑے رہنے کے انکے جذبہ کو سلام کرنے کو دل چاہتا ہے۔ آج بھی اس پیران حالی میں ان سے، کسی بھی موضوع پر کلام کیا جائے تو ان میں وہ جوانی وقت والا ‘عفوان جوش شباب’ واپس آیامحسوس ہوتا ہے۔ اللہ سے دعا ہے کہ ہم میں آج جو قلم گوئی کی صلاحیت موجود ہے اسے جلا بخشنے والے ہمارے بزرگ استاد محترم کو صحت کاملہ والی لمبی زندگانی عطا کرے اور جب تک

وہ حیات جادوانی سے ہمارے درمیان موجود ہیں، طلاب قوم کو ان سے بھرپور استفادہ حاصل کرنے کی توفیق دے۔ آج واٹس آپ پر ہمارے میڈیا منسلک دوست کے انکے اپنے ذاتی میڈیا پروگرام “آمنے سامنے” استاد محترم سے لئے انٹرویو کا اشتہار دیکھا تو ہمیں لگا استاد محترم کے تئیں ہمارے جذبات و قدر تکریمیت کو قومی شباب تک ترسیل کیا جائے۔ واللہ الاعلم بالتوفیق الا باللہ

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں