تبدیلی کی بے سری لوریاں
کالم نگار: تحریر :شاہد ندیم احمد
ملک بھر میں جس تسلسل سے مہنگائی بھڑ رہی ہے ،اس سے عام آدمی ہی سب سے زیادہ متاثر ہورہا ہے ،غریب کیلئے دو وقت کی روٹی کا حصول پہلے ہی انتہائی مشکل ہے، اس پر روزمرہ استعمال کی خورونوش کی اشیاء کے نرخوں میں اضافے سے آخری نوالہ بھی چھینا جارہا ہے،حکومت کی جانب سے رلیف کی بجائے بے رحمانہ اقدام سے تو یہی عندیہ ملتا ہے کہ اسے عام آدمی کی مشکلات کا ادراک ہے نہ ہی کوئی سروکار ہے،حکومت آئی ایم ایف کی شرائط پر من و عن عملدرآمد کرتے ہوئے بجلی‘
گیس اور پٹرولیم مصنوعات کے نرخوں میں آئے روز اضافہ کرکے عوام کے صبر کا امتحان لیتی نظر آرہی ہے، جبکہ منی بجٹ کے بعد مہنگائی کا ایک نیا طوفان آسکتا ہے،اس ہونیوالی مزید مہنگائی کو عوام برداشت کرپاتے ہیں یا تنگ آمد بجنگ آمد کے مصداق سڑکوں پر آنے پر مجبور ہوجائیں گے ،تاہم وفاقی وزیر فوا دچودھری کے بقول کہ اس منی بجٹ سے عام آدمی متاثر نہیں ہوگا،جبکہ ہر قومی و منی بجٹ کے بعد سب سے زیادہ عام آدمی ہی متاثر ہوتا ہے۔
وطن عزیز کا معاشی منظرنامہ ایک عرصہ دراز سے بہتر ہو نے کی بجائے مشکلات کا شکار ہی چلاآرہا ہے،ملک پر قرضوں کا انبار بڑھتا ہی چلا جارہا ہے ،حکومت قرض دینے والوں کی شرائط پر عمل کرتے ہوئے نت نئے ٹیکس لگا رہی ہے ،اس کا سارا بوجھ سب سے زیادہ عام شہری کو ہی برداشت کرنا پڑ رہا ہے، حکومت کی جانب سے اصلاح احوال کی کوششیں ریکارڈ پر موجود ہیں،اس ضمن میں اقتصادی اشاریے کسی حد تک بہتری بھی دکھا رہے ہیں ،لیکن اس کے ساتھ تلخ حقیقت کسی صورت نظر انداز نہیں کی جاسکتی کہ عام شہری بڑھتی مہنگائی کے ہاتھوں انتہائی اذیت میں مبتلا ہورہاہے ۔
عوام بڑھتی مہنگائی پر سر اپہ احتجاج ہیں ،سرکاری اعداوشمار بھی بتا رہے ہیں،لیکن حکومت سب کچھ جانتے بوجھتے ماننے کیلئے تیار نہیں ہے کہ مہنگائی میں ہوش ربا اضافہ ہورہا ہے ،سرکاری ادارہ شماریات کے مطابق 2020ء کے مقابلے میں 2021ء اشیائے ضروریہ کی قیمتوں کے حوالے سے مہنگا ترین سال رہا ہے،اس ایک سال کے دوران مٹن 163‘ بیف 100‘ دودھ 9 روپے‘ دہی 11 روپے‘ دال چنا 17 روپے اضافہ ہوا ہے جبکہ پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں بھی ریکارڈ اضافہ ہوا۔
ملک میں چینی اوسط 7 روپے 53 پیسے فی کلو مہنگی ہوئی‘ 2020ء میں چینی کی اوسط قیمت 84 روپے تھی جو 2021ء میں بڑھ کر 91 روپے 53 پیسے فی کلو ہو گئی، آٹے کا 20 کلو کا تھیلا اوسط 199 روپے 78 پیسے مہنگا ہوا ،جس سے اسکی قیمت 973.78 سے بڑھ کر 1173.56 روپے ہو گئی، گھی 258.42 سے بڑھ کر 402.15 روپے کا ہوگیا،دودھ 104.59 روپے سے بڑھ کر 114.30 روپے ہو گیا ہے، اس کے علاوہ دالوں اور سبزیوں کی قیمتوںمیں ہوشربا اضافے نے عوام کی کمر توڑ کررکھ دی ہے۔
اس وقت عام آدمی کیلئے عملاً تنفس اور جسم کا رشتہ برقرار رکھنا انتہائی مشکل ہو چکا ہے،عوام کی حالت جو تین سال قبل تھی، آج عوام اُس سے بھی بدتر صورتحال سے نبرد آزما ہیں،جب کہ وزیر اعظم عوام کو مہنگائی میں کمی کی نوید سنانے کے بجائے میڈیاسے اس بات پر برہم ہیں کہ یہ لوگ مہنگائی کے اعداد و شمار دبتاکر نئے پاکستان میں تبدیلی کہاں ہے کے سوالات کے ذریعے ہم پر بے جا تنقید کرتے ہیں۔
وزیر اعظم شاید بھول گئے ہیں کہ یہ سوالات تین برس قبل اُنہی کی جانب سے اُٹھائے گئے تھے اور ان کا واحد حل انھوں نے نئے پا کستان میں تبدیلی بتایا تھا، ظاہر ہے کہ جب وزیر اعظم کا بتایا ہوا حل مسائل میں کمی کے بجائے اضافے کا سبب بنے گا تو سوالات بھی اُٹھیں گے اور تنقید بھی ہو گی،اس تنقید پر اعتراض کی بجائے اصلاح کی جانب توجہ دینے کی اشد ضرورت ہے۔یہ حقیقت ہے کہ عوام حکومت گرانے میں اپوزیشن کا ساتھ دینا چاہتے ہیں نہ آزمائے کو دوبارہ آزمانا چاہتے ہیں
،لیکن عوام چاہتے ہیں کہ انہیں بڑھتی مہنگائی سے نجات دلائی جائے ،ان کی بے روز گاری دور کی جائے ،نئے پاکستان اور تبدیلی لانے کا جو وعدہ عوام سے کیا گیا تھا، اس وعدے کو پورا کیا جائے ، حکومت کے ساتھ بالخصوص وزیراعظم کی ذمہ داری بنتی ہے کہ اس نئے سال میںمزید بڑھتی ہوئی مہنگائی اور بے روز گاری کا فوری نوٹس لیتے ہوئے تداک کے ذریعے عوام کی امیدوں پر پورا اُترنے کی کوشش کریں،
کیو نکہ فاقہ مست عوام اب تبدیلی کی جھوٹی لوری سے بھلیں گے نہ خوشحالی کی کسی لوری سے مدہوش ہوں گے، عوام آئے روزتبدیلی کی بے سری لوریاں سن کر تنگ آچکے ہیں،عوام اب اپنی زندگی میںواقعی کوئی حقیقی تبدیلی چاہتے ہیں ،اگر حکومت نے عوام کی زندگی میں تبدیلی لانے میں مزید تاخیر کی تو یاد رکھیںکہ عوام انہیں تبدیل کرنے میں دیر نہیں لگائیں گے۔