نئے سال کی شروعات
کالم نگار: تحریر : نقاش نائطی
۔ +966562677707
تقویم عیسوی ہو کہ تقویم ھجری دونوں برحق ہیں تقویم عیسوی سورج کی نقل و حرکت پر منحصر ہے تو تقویم ھجری چاند کی نقل و حرکت پر۔ سائینسی اعتبار سے دونوں کو جھٹلایا نہیں جاسکتاہم مسلمانوں کو یہود و نصاری والے مقدس اعمال کی نقل سے منع کیا گیا ہے۔ انکے بعض مقدس دنوں میں ان اقوام کے روزہ رکھنے کے عمل سے ہمیں منع نہیں کیا گیا تھا بلکہ ایک دن آگےیاپیچھے، دو دن کے روزے رکھتے ہوئے،
اس دن کی برکات سے مستفید بھی کیا گیا تھا، تو ان مشرکین کی مماٹلٹ سے مناہی کو بھی ثابت کیا گیا تھا۔ چونکہ عیسوی صدی کے اختتام والا ہفتہ مسیحیوں میں مقدس مانا جاتا ہے اور اس کے بعد آنے والے سال کی شروعات اچھے پیغامات، دعاؤں نیک تمناؤں سے کی جاتی ہیں۔ اس لئے ہم مسلمانوں کے بھی، بالکل ویسا ہی نیک خواہشات کا اظہار کرنے سے، ان کی تقلید کیا عمل معلوم ہوتا ہے، اس لئےپرہیز ضروری ہوتا ہے۔لیکن غلط تاویلات سے شدت کے ساتھ مناہی سے ضد و ہٹ دھرمی پیدا ہوسکتی ہے اس لئےمعاملہ فہمی ضروری ہے۔
سب سے اہم،کسی چیز کی مناہی کے بجائے، اس چیز کا نعم البدل دیا جانا ضروری ہے ۔دنیا کی ہر قوم کا انکا اپنا مذہبی تقویم یا کیلنڈر ہوتا ہے اور وہ قومیں اپنے سال کے اختتام پر، اپنے اپنے بھگوان، ایشور، گاڈ سے سابقہ سال کے تجربات کی روشنی میں، بعض چیزوں سے آمان، تو بعض اچھی چیزوں کی طلب کیا کرتی ہیں، جیسے کیرالہ تامل ناڈ والوں کے لئے، انکے نئے سال کی شروعات پونگل سے ہوتی ہے
تو، مارواڑی گجراتی تاجر برادری کے لئے، دسہرہ بعد دیپاؤلی سے نئے سال کی شروعات، ویسے ہی آجکل کے پورے عالم پر چھائے چائینیز کے سال نؤ کی شروعات، غالبا 15 جنوری سےہوتی ہے۔زوال غرناطہ اسلامی سلطنت زوال کے بعد، تقریبا آدھے عالم پر حکومت کرتے برطانوی سامراج کے مسیحی ہونے کی وجہ سے، دسمبر آخری ہفتہ انکے مذہبی رسومات بعد، نئے شمشی تقویم،نئے سال کی تقریبات بڑے ہی دھوم دھام سے منائی جاتی ہے۔
کیرالہ تامل ناڈ گجرات ممبئ والوں کے نئے سال تقریبات پونگل و دیپاؤلی کا تو ہم ہمیشہ مشاہدہ کرتے آئے ہیں لیکن گذشتہ 13 سو سال تک، پہلے کے 800 سال تین چوتھائی عالم پر حکومت کرتے خلافت راشدہ، عباسیہ، فاطمیہ بعد، چھ ساڑھے چھ سو سال والے خلافت عثمانیہ کے نصف عالم پر حکومت کرتےہم مسلمانوں نے، اپنے اسلامی ھجری سال کے خیر مقدمی کے اہتمام سےگریز کرتے ہوئے، رمضان المبارک کی صعوبتوں آزمایشوں بعد عیدالفطر والے انعام و اکرام سےنوازے جانے والے موقع کو، اپنے تجارتی مالی سال کی شروعات بناتے ہوئے، زکاة و صدقات تقسیم کرتے ہوئے،
اسے ہی اسلامی سال کی شروعات کے طور، عملاء مناتے آئے ہیں، اسی نقطہ نظر سے ،عالم کے ہم مسلمان وہ واحد قوم ہیں جو زیادہ تر اپنے تقویم اسلامی سے نابلد انگریزی تقویم ہی کےسہارے جیئے جارہے ہیں۔ آج سے 33 سال قبل ہمیں یاد پڑتا ہے اسلامی پندرھویں صدی کے استقبال کے لئے، منعقد کئی گئی،
اسکول و کالج ہال اور محلے کے مساجد عوامی جلسوں میں، اپنی جوشیلے فن خطابت سے،عوام پر اپنا رعب جھاڑتے ہوئے، علماء کرام نے، اب کے بعد اسلامی تقویم کا ہر معاملے میں استعمال کرنے کے جو ببانگ درا، حلفیہ دعوے کئے تھے، اس پر آج تینتیس چونتیس سال کا طویل عرصہ گزرنے کے بعد بھی، تین چوتھائی سے بھی زیادہ مسلم طبقہ اپنے اسلامی تقویم یا شروعاتی سال و تاریخ اسلامی سے نابلد ہی جئے جارہے ہیں۔
یہ بالکل ایسا ہی، ہمارے اعمال کے متوازی عمل ہے جو ہم قرآن و سنت و صحابہ رضوان اللہ اجمعین کی عملی زندگیوں سے پرے، اپنے اپنےبزرگان دین یا مسلکی اماموں کی اتباع کےنام سے، شرک و بدعات شیعیت و رافضئیت والے اعمال کو ہی، دین حنیف تصور کئے،عمل کئے جارہے ہیں۔یہ بڑا مشکل امر ہوتا ہے،کچھ میں آپ نقل کے سہارے جئیں اور کچھ میں اصل ڈھونڈتےپھریں۔ “ودخلو فی السلمی کافہ”
مفہوم “اور وہ پورے کے پورے سلامتی میں داخل ہو گئے” ہمیں پورے کا پورا دین اسلام و عمل رسول اللہ ﷺ اور صحابہ کرام کے عمل کرکے بتائے دین اسلام پر ہی عمل پیرا ہونا ہے۔ تھوڑا دین اسلام کا عمل اور تھوڑا اپنے اولیاء کرام کی اتباع کے بہانے، اپنی مرضی والا عمل، فضائل اعمال کے حصول کی آڑ میں کرنے ہی سے، اصل دین اسلام و مسلمانی کی قدر و منزلت ختم ہوجایا کرتی ہے
ایسے میں جدت پسند ترقی پزیر مسلم دنیا کو شمسی سال نؤ تقریبات سے مناہی سے پہلے اسلامی قمری ھجری سال نؤ تقاریب منانے، انہیں موقع فراہم کیا جانا چاہئیے، بصورت دیگرخود کے دین اسلام پر، پورا پورا عمل نہ کرتے پس منظر میں، دنیادار اقسام کے مسلمانوں سے، دنیوی تجارتی اعتبار سے،شمسی کیلنڈر پر عمل پیرا مسلم معاشرے کو،شمسی تقویم سال نؤ تقریبات سے مناہی چہ معنی؟
چونکہ پورا مسلم سماج، دنیوی شمشی کیلنڈر ہی کو تسلیم کئے،اپنے تجارتی وعملی زندگانی گزارتے پس منظر میں، سال گذشتہ کورونا وبا کی ماری دنیا والوں کو، شمسی سال نؤ کے موقع پر نیک خواہشات کے اظہار کرنے کو ہم لا یعنی نہیں سمجھتےہوئے، بارگاہ خداوندی میں ہم دعاگو ہیں کہ سقوط سلطنت عثمانیہ پر سو سال ختم ہونے ابھی دو سال باقی ہیں اورتقریبا ختم ہوتے سو سال مسیحیت راج والے دور اقتدار میں، ہم عالم کے مسلمانوں نے، ہم پر ہوئے مسیحیوں کے بے انتہا ظلم و جبر کو سہا ہے۔
اس لئے چونکہ سکوت استنبول پر،قمری اسلامی تاریخ کے سو سال بھی پورے ہوچکے ہیں، اب تو آپ، عالم کے کسی گوشہ سے صحیح معنوں عالم اسلام کی رہبری و رہنمائی کرتی، عملی اسلامی سلطنت کا ظہور و نفاذ کردے یارب، تاکہ اب کے بعد تو یہ یہود و ہنود و نصاری کے ظلم و انبساط سے، مسلم امہ عالم محفوظ رہے اور ہم جمیع مسلمانان عالم کو “اهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ” (ہمیں سیدھے راستے پر چلا) پر چلتے اور”غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ وَلا الضَّالِّينَ”(نہ کہ غضب پانےوالوں کااور نہ گمراہوں کا) سے آمان میں رہتے جینے کی توفیق عطا کردے، وما علینا الا البلاغ