صحت کارڈ ا جراء کا انقلابی قدم
کالم نگار: تحریر :شاہد ندیم احمد
دنیا بھر میںتعلیم اور صحت ایسے سماجی شعبے ہیں کہ جو ہر ریاست کی بنیادی ذمہ داری ہوتے ہیں،لیکن پاکستان ایک ایسا ملک ہے کہ جہاں پر ریاست نے ان دونوں ذمہ داریوں کی ادائیگی سے ہاتھ اٹھا ئے رکھا ہے، گزشتہ تین عشروں کے دوران تعلیم اور صحت حکومتی ترجیحات میں کہیں بہت نچلے درجے پر رہی ہے، تاہم موجودہ حکومت نے تعلیم کے ساتھ صحت کے شعبے کو بھی اپنی ترجیحات میں اولیت دی
اور ملک بھر کے پریشان حال عوام کو یکساں نظام تعلیم کی سہو لیات دینے کے ساتھ علاج معالجہ کی سہولیات کی فراہمی کیلئے بھی ا قدم اٹھارہی ہے، اس حوالے سے وزیر اعظم کی زیر ہدایت ہیلتھ انشورنس سکیم کا آغاز کردیا گیا ہے کہ جس کے تحت شہریوں کو صحت کارڈز جاری کیے جارہے ہیں،اس صحت کارڈ کے ذریعے سرکاری ومنظور شدہ نجی ہسپتالوں سے ضرورت کے مطابق علاج معالجہ کی سہولیات حاصل کی جاسکیں گی۔
یہ امر واضح ہے کہ ہر دور حکومت میں شعبہ صحت کیلئے بہت کم بجٹ مختص کیا جاتا رہا ہے ،موجودہحکومت نے بھی مالی سال 2021-22ء کے بجٹ میں صحت کے لئے 205ارب روپے مختص کئے ، جن میں مزید 70ارب کا اضافہ کیا گیا ،مگر اس خطیر رقم کے باوجود بھی سرکاری ہسپتالوں میں غریب شہریوںکیلئے کوئی سہولیات میسر نہیں تھیں،ایک طرف سرکاری ہسپتالوں میں داخلے کے لئے مریضوں کو چھ مہینے کا وقت دیا جاتا ہے
تو دوسری جانب داخل مریضوں کو سارے ٹیسٹ باہر سے ہی کروانے پڑتے ہیں، پا کستان میں غریب کیلئے علاج کروانا بس سے باہر ہوتا جارہا ہے ،اس تناظر میں دیکھا جائے تو حکومت کی جانب سے صحت کارڈ کا اجراء پریشان حال مریضوں کیلئے کسی بڑی نعمت سے کم نہیںہے ۔تحریک انصاف حکومت کی جانب سے ملک بھر میں صحت کا رڈ کا اجراء لائق تحسین اقدام ہے ،خیبر پختونخواہ میں صحت کارڈ کے خاطر خواہ نتائج آنے کے بعد اس کارڈ کا اجراء پنجاب بھر میں بھی کیا جارہا ہے ،اس کے تحت صوبے کے رہائشی ہر خاندان کو 10 لاکھ روپے تک علاج کروانے کی سہولت حاصل ہوگی،
مگر اس صحت کارڈ کی سہولت صرف ہسپتال میں داخل مریضوںکو میسر ہو گی، جبکہ مریض کو داخل ہونے سے پہلے بیماری کی تشخیص کے لئے ٹیسٹوں پر خطیر رقم خرچ کرنا پڑے گی اور ہسپتال سے ڈسچارج ہونے کے بعد بھی اپنی جیب سے ادویات خریدنا پڑیں گی،اگر حکومت ہیلتھ انشورنس کی بات کرتی ہے تو مریضوں کے داخلے سے پہلے اور بعد کے اخراجات کو بھی انشورنس میں شامل کرے
اور جن مریضوں کو پوری زندگی دوائیاں لینی پڑتی ہیں، ان کو بھی مفت ادویات فراہم کرے، تاکہ پنجاب کے تمام شہریوں کو سو فیصدی مفت علاج کی سہولت میسر آ سکے،اس کے ساتھ صحت کارڈ کی ترسیلی شفافیت کو بھی یقینی بنا نے کی ضروری ہے ، اگر حکومت صحت کارڈز کے اجراء کو ایک انقلابی قدم تصور کرتی ہے تو اس کی ترسیل کیلئے بدعنوانی سے پاک سسٹم بھی قائم کرنا ہوگا۔
اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جاسکتا
کہ پاکستان کے ہر شعبے میں کرپشن کی بیماری در آئی ہے، صحت کا شعبہ بھی اس سے پاک نہیں ہے ، اس امر کا غالب امکان ہے کہ ہر خاندان کے لیے 10 لاکھ روپے تک علاج کی سہولت کا ناجائز استعمال ہوگا ،کیونکہ سرکاری اور نجی ہسپتالوں میں اہم عہدوں پر ایسے لوگ تعینات ہیں کہ جن میں سے اکثر بدعنوانی کے مرتکب ہوتے ہیں، ڈکٹر یاسمین راشد جتنا مرضی شفافیت کے دعوئے کریں ،اس سے اشرافیہ ہی فائدہ اُٹھائے گی
غریب زیادہ تر محروم ہی رہے گا ،اس پر وزیراعظم کی طرف سے کہنا ہے کہ حکومت اب ہسپتال بنانے پر پیسہ نہیں لگائے گی اور نجی شعبہ خود ہسپتال بنائے گا، ناقابل فہم ہے،ملک کی آبادی کے حساب سے سرکاری ہسپتالوں کی تعداد پہلے ہی انتہائی کم ہے، جبکہ نجی ہسپتال جو کمرشل بنیادوں پر بنائے جاتے ہیں، وہ مریضوں کی مجبوری سے بھرپور فائدہ اٹھاتے ہوئے خوب لوٹ مار کررہے ہیںتو ان سے کسی خیر کی توقع کرنا خود کو دھوکہ دینے کے مترادف ہے۔
بلا شبہ عوام حکومت سے اچھی توقعات لگائے بیٹھے ہیں ،حکومت بھی عوامی توقعات پر پورا اُترنے کی بھر پور کوشش کررہی ہے ،تاہم اگر پنجاب کا ترقیاتی اور صحت کا بجٹ دیکھا جائے تو اتنی خطیر رقم ہیلتھ انشورنس پرخرچ کرنا انتہائی مشکل دکھائی دیتا ہے،حکومت نیصحت کارڈ امیر غریب کے لیے بلاامتیاز جاری کرنے کا اعلان تو کردیا ،مگرآنے والے اخراجات کو پورا کرنے کے لیے کسی قسم کا کٹ یا بچت کا فارمولا دیا نہ ہی اضافی بجٹ کے بندوبست کا کوئی اعلان کیا ہے، ایسے حالات میں
صحت انشورنس کی رقم ادا ئیگی ایک بڑا چیلنج ثابت ہو سکتا ہے،حکومت انتخابات سے قبل صحت کارڈ جیسے خوش آئند اعلانات تو کررہی ہے ،یہ اعلانات سیاسی نعرے بھی ہو سکتے ہیں، اس منصوبے کو آنے والی حکومتیں شائدجاری نہ رکھ سکیں،لیکن یہ منصوبہ جتنی دیر بھی چلے عوام کو استفادہ کرتے رہنا چاہئے ، عوام کو صحت کی سہولیات ملنا، جب تک بھی ملیں خوش آئند ہیں۔