ایک ہی جملہ سننے کوملا”یہ نا ممکن ہے
کالم نگار: تحریر :نوید ملک اسلام آباد
25 دسمبر 2021 کی یخ بستہ صبح کو معلوم تھا کہ آرٹس کونسل راولپنڈی میں ایسے پنچھیوں نے جمع ہونا ہے جن کی چہکار ادبی و سماجی حلقوں میں گونجے گی اور کئی آنکھوں پر نئیخواب ثبت ہونگے۔دنیا میں جب بھی کسی شخص نے کچھ منفرد کرنے کی خواہش کی تو اسے سب سے پہلے ایک ہی جملہ سننے کوملا”یہ نا ممکن ہے”
آج فضائی اسفار میں جتنی جدت پیدا ہوئی ہے یہ رائٹ برادران کی کاوشوں کا نتیجہ ہے جنھیں والد نے ایک اڑنے والا کھلونا لا کر دیا اور پھر ان کے دلوں میں ایسی ہی چیز ایجاد کرنے کا جنون پیدا ہوا۔انھوں نے پتنگیں بنا کر بیچنے سے آغاز کیا اور بالآخر انسان کو فضاؤں میں اڑنے کی سہولت فراہم کر کے دنیائے فانی سے کوچ کر گئے۔سوچ پنچھی جب تک ذہن دریچے میں نہ چہچہائے، نہ ہی انسان اپنے اندر انقلاب پیدا کر سکتا ہے
اور نہ ہی وقت کے بہتے دریا میں ہلچل مچا سکتا ہے۔شہزاد افق التمیمی خواب دیکھنے والا نوجوان ہے اور خوابوں کو حقیقت میں بدلنے کا جنون رکھتا ہے۔انٹرنیشنل رائٹرز فورم پاکستان کا یہ نوجوان بانی ہمیشہ کچھ منفرد اور بڑا کام کرنے کا خواہشمند رہا۔اس نے جب بھی اپنے حلقہ احباب سیاپنی خواہشات کا اظہار کیا تو ایک ہی جواب ملا
”ایسی منصوبہ بندیاں سوچنے تک ہی ٹھیک لگتی ہیں، ہوتا کچھ نہیں”مگر حوصلے کی عمارت وقت کے ساتھ ساتھ تعمیر ہوتی رہی۔یہ شہزاد افق کے پر خلوص جذبات ہی تھے جنھیں دیکھتے ہوئے میں نے بھی اس فورم کے زیرِ اہتمام شروع ہونے والے ”تعمیرِ ادب پروگرام” کو کامیاب بنانے کے لیے اپنی خدمات پیش کیں اور نئے لکھنے والوں کی ابتدائی تربیت کے لیے آن لائین کلاسز کا اجراء کیا۔گو کہ اس فورم کا سالانہ پروگرام بڑی سطح کا تھا
اور شاید پاکستان میں اس سے قبل ایسے منفرد پروگرام کا انعقاد نہیں ہواجس میں مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والی مذہبی، ادبی،سماجی، تعلیمی، فلاحی شخصیات میں اعلیٰ کارکردگی کی بنیاد پر ڈیڑھ سو سے زائد ایوارڈز تقسیم کیے گئے مگر میرے لیے اہم وہ ذہن ہے جس پر مثبت سماجی، ادبی اور معاشرتی اقدار کی ترویج کے لیے خیالات اُگتے ہیں۔
ہمارے بعد ہر موسم اڑانیں پڑھ کے بولے گا
کئی پنچھی زمانے میں، مہماتی بھی ہوتے ہیں
دنیا میں انھی لوگوں کے نام زندہ جاوید رہتے ہیں جو مہماتی ہوتے ہیں اور اپنی ذات کے دائرے سے نکل کر دوسروں کے لیے کچھ نہ کچھ بہتر کرنے کی سعی کرتے ہیں۔افق کو میں نے ہمیشہ اچھا سوچتے ہوئے دیکھا۔مجھ سے اکثر کہتا تھا
”اچھے لوگوں کی حوصلہ افزائی ہونی چاہیے، میں بہت سے لوگوں کی اعلیٰ سرگرمیوں کو دیکھ کر سوچتا ہوں کہ کاش میں بھی ان کے لیے کچھ کر سکوں”پروگرام کے دوران میرے ساتھ ایک بزرگ تشریف فرما تھے، سیدھے سادے اور خاموش پسند۔جب انھیں ایوارڈ دینے کی باری آئی تو بتایا گیاکہ وہ ایک گاؤں میں25 سالوں سے درسِ قرآن دے رہے ہیں۔ انھوں نے لوگوں میں قرآن پڑھنے کا شوق اس قدر پیدا کیا
کہ اس گاؤں میں دکاندار، رکشہ چلانے والے، معلمین اور چھوٹے بڑے کاروباری حضرات کے ساتھ پوری آبادی حفاظ سے بھری پڑی ہے۔ذرا سوچیے! کیا ایسے لوگوں کے لیے کسی ادارے نے کبھی سوچا کہ ان کی حوصلہ افزائی کی جائے۔بات یہ نہیں کہ ایوارڈ سے حق ادا ہو جاتا ہے، بات یہ ہے کہ ایسی شخصیات دیگر سماجی و معاشرتی اکائیوں کے لیے مثالی کردار بن جاتی ہیں۔یاد رہے اہلِ جنوں کی کوئی ایک منزل نہیں ہوتی، وہ ہر پڑاؤ تک رسائی حاصل کرنے کے بعد اپنے سینوں میں اگلے پڑاؤ کی طرف جانے والے راستوں کو روندنے کا عزم تعمیر کرتے ہیں۔اسی تناظر میں شعر دیکھیے
یہ روایت بھی یہاں ڈال گئے اہلِ جنوں
گھر کی تعمیر گرانے کے لیے ہوتی ہے
ہمارے معاشرے کے مسخ شدہ چہرے کو پھر سے سنوارنے کے لیے شہزاد افق جیسے نوجوانوں کی ضرورت ہے ۔وقت کے ساتھ ساتھ نئے رجحانات فروغ پا رہے ہیں۔موجودہ جتنی بھی ادبی و سماجی تنظیمیں ہیں انھیں چاہیے کہ اپنی سرگرمیوں میں وسعت پیدا کریں اور لوگوں کا کام ہے ان تنظیموں کے ساتھ وابستگی پیدا کر کے ہر ممکن معاونت کریں۔