کرپشن فری پا کستان بنانے کا عزم 110

آئی ایم ایف کا بوجھ عوام پر نہ ڈالا جائے

آئی ایم ایف کا بوجھ عوام پر نہ ڈالا جائے

کالم نگار: تحریر :شاہد ندیم احمد

دنیا میںآئی ایم ایف ترقی پذیر ممالک کے لیے قرضوں کا جال بچھا کر انہیں پھانسنے کے حوالے سے عالمی شہرت رکھتا ہے، اس ادارے نے تجربہ کار ماہرین کی ایک بڑی ٹیم کواس کام پر لگایا ہوا ہے کہ دنیا بھر میں جا کر ترقی پذیر ممالک کو آمادہ کریں کہ اگر وہ ترقی واستحکام حاصل کرنا چاہتے ہیں تو انہیں آئی ایم ایف سے قرض پیکیج لینا چاہیے، اس کے لیے جیسے ہی کوئی ملک آمادگی ظاہر کرتا ہے تو اسے شرائط کے جال میں پھنسا لیا جاتا ہے اور یوں وہ ملک لمبے عرصے کے لیے آئی ایم ایف کا غلام بن جاتا ہے،

اس ملک کی معاشی پالیسیوں کی تشکیل اور دیگر اہم فیصلے آئی ایم ایف کے منتخب کردہ نمائندے کرتے ہیں ، پاکستان میں بھی ایک لمبے عرصے سے یہی کچھ چل رہا ہے، پا کستان مکمل طور پر آئی ایم ایف کے نرغے میں ہے ،یہاں بھی گورنر سٹیٹ بینک اور وفاقی وزیر خزانہ جیسے اہم عہدوں پر ایسے لوگ بٹھا دیے گئے ہیں جو ملک کی ترقی و استحکام کا نام لے کر آئی ایم ایف کی طرف سے آنے والی ہر پالیسی اور ہر اہم فیصلے کو ہم پر مسلط کرتے رہتے ہیں۔
یہ حقیقت ہے

کہ ہر دور اقتدار میں آئی ایم ایف سے نجات کے دعوئے توبہت کیے جاتے رہے ،مگر آئی ایم ایف سے نجات کی بجائے مزید قرضوں کا بوجھ ڈال کر ملک کو معاشی بدحالی کی جانب دھکیلا جاتا رہا ہے،موجودہ حکومت کے چوتھے وفاقی وزیر خزانہ شوکت ترین نے جب اپنے عہدے کا قلمدان سنبھالا تو قوم کو ایک بار پھر یقین دلایاگیاتھا کہ آئی ایم ایف کے حوالے سے معاملات میں بہتری لائیں گے ،

لیکن اب تک جو کچھ ہورہا ہے اور جس طرح کی پالیسیاں اور فیصلے کر وائے جارہے ہیں، اس سے تو ایسا ہی لگ رہا ہے کہ یہ بھی کم و بیش ویسا ہی کردار ادا کرنے کی کوشش کررہے ہیں ،جیساکہ اس سے قبل آئی ایم ایف کے نمائندے کے طور پر پہچان رکھنے والے وزرائے خزانہ ادا کرتے رہے ہیں۔
یہ انتہائی افسوس ناک امر ہے کہ حکومت کی جانب سے ایک طرف آئی ایم ایف کی طرف سے آنے والا ایجنڈا نافذ کیاجارہا ہے تو دوسری جانب اپنے بیانات کے ذریعے قوم کے اضطراب کو بڑھا یا جارہا ہے، وفاقی وزیر خزانہ کا کہنا ہے کہ اس بار آئی ایم ایف ہماری جانب بہت سختی سے دیکھ رہا ہے، ہمیں بہت کچھ مجبوراً کرنا پڑ رہا ہے، آئی ایم ایف کی جانب سے 17 فیصد ٹیکس عائد کرنے کا کہا جارہا ہے ،

آئی ایم ایف نے 700 ارب کی چیزیں کہیں تھیں، اس کے باوجودہم 343 ارب پر لے آئے ہیں، ہماری کوشش ہے کہ مختلف شرح سے ٹیکس عائد کیے جائیں، اس طرح ٹیکس وصولی جیسے بڑھتی جائے گی، ہم شرح ٹیکس میں کمی لاتے جائیں گے ۔
آئی ایم ایف سے قرض لینے کا کبھی عوام نے کہا نہ عوام چاہتے ہیں کہ آئی ایم کی چنگل میں پھنسا جائے ،حکومت کی ناقص پا لیسیوں کے باعث عوام ایک عرصے سے آئی ایم ایف کا بوجھ برداشت کرتے چلے آرہے ہیں،وزیر خزانہ کیلئے اب مخض تو جہات سے عوام کو بہلانا ممکن نہیں رہا ہے ،کیو نکہ عوام اچھی طرح جانتے ہیں کہ ا س وقت آئی ایم ایف پاکستان کی معیشت پر مکمل طور پر حاوی ہے،

حکومتوں کے قرضے لینے کی حد سے لے کر عوام سے بل وصول کرنے تک کے عمل میں آئی ایم ایف کی ڈکٹیشن شامل ہے ،یہ نام نہاد منی بجٹ بھی مکمل طور پر آئی ایم ایف کے مطالبے پر بنایا گیا ہے، اس کو پاس کروانا اور پھر اس کی رپورٹ آئی ایم ایف کے بورڈ کے سامنے رکھنے کی ذمہ داری بھی حکومت نے قرض کے حصول میںخود قبول کی ہے، حکومت منی بجٹ کے ساتھ خواہ مخواہ کی آنکھ مچولی کرکے جان چھڑا سکتی ہے

نہ ہی آئی ایم ایف کو کوئی غچہ دیا جا سکتا ہے اور نہ ہی مختلف تو جہات کے ذریعے عوام کو مزید بے وقوف بنایا جاسکتا ہے ۔اس میں شک نہیں کہ دنیا بھر میں عام روش رہی ہے کہ ترقی پذیر ممالک میں وزارتِ خزانہ کا قلمدان اعداد و شمار کے ایسے جادو گروں کے سپرد کیا جاتا ہے کہ جو بات کو یوں الجھا کر بیان کرتے ہیںکہ عوام کو اپنا نقصان بھی فائدہ نظر آنے لگتا ہے ،لیکن پاکستان میں اب حالات اس نہج پر آپہنچے ہیں کہ وزیر خزانہ کی لچھے دار باتیں بھی عوام کوناگوار گزرنے لگی ہیں ،عوام پر پہلے ہی حکمرانوں کی نااہلیوں کا بوجھ کم تھا کہ آئی ایم ایف کا اضافی در اضافی بوجھ بھی برداشت کرنا پڑ رہا ہے ،
عوامی بڑھتے مسائل اور پریشانیاں انتہا کو پہنچ چکی ہیں،پی ٹی آئی قیادت کے عوامی وعدوں میں ایک وعدہ آئی ایم ایف سے ملک کی جان چھڑانے کا بھی تھا، اگر کچھ مجبوریوں کی وجہ سے وعدے کو پوری طرح وفا کرنا ممکن نہیں ہے تو پھرآئی ایم ایف کابوجھ عوام پر نہ ڈالا جائے ، کیو نکہ عوام مزید بوجھ برداشت کرنے کی ساری سکت کھو چکے ہیں

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں