30 کروڑ بھارتیہ مسلمانوں کا سیاسی لیڈر کون؟
کالم نگار: تحریر : نقاش نائطی
۔ +966562677707
جب تک کسی قافلے یا قوم کا کوئی با اثر لیڈر نہیں ہوتا اس وقت تک اس قوم کو تاراج و نیست و نابود کرنے کے لئے، جنگل کے راجہ شیر جیسے بیرونی افواج کے ظالم و جابر جرنیل کی معیت میں دشمن افواج کی ضرورت نہیں پڑتی بلکہ اسے تو جنگلی بھیڑیے یا گاؤں قریہ کے آوارہ کتے ہی چھیڑ پھاڑ نوچ کھانے کے لئے کافی ہوتے ہیں۔
ابھی اس 7 سالہ سنگھی مودی دور اقتدار میں ہم نے ہزاروں سالہ امن وشانتی چین و آشتی والےمختلف المذہبی گنگا جمنی تہذیبی چمنستان بھارت میں, یکے بعد دیگرے مسلمانوں اور دلتوں کو بھیڑ موپ لنچنگ کے بہانے، گلی محلے کے آوارہ کتوں کی طرح چیڑ پھاڑ مارتے ہم نے دیکھا ہے، اور پورےبھارت میں کم وبیش 30 سے 35 کروڑ ہم مسلمان خاموش تماشائی بنے دیکھتے رہ جانے پر مجبور ہوکر رہ گئے ہیں۔
جبکہ کم وبیش ساڑھے تین کروڑ دیش کی اقلیت سکھ برادری اپنے باہم اتفاق و یگانت کی وجہ سے، بھارت کے کسی بھی علاقے کی پولیس کی بربریت پر اتنا موثر احتجاج درج کرواتے ہیں کہ اس سنگھی مودی یوگی راج میں بھی، شدت پسند ھندوؤں کو انہیں چھیڑنے کی ہمت نہیں ہوتی ہے۔ بعد آزادی ھند ان ساٹھ بہتر سالوں میں نیلی ، ممبئی گجرات، مظفر نگر اور اب سال بھر پہلے دہلی میں منظم فساد میں،
اب تک لاکھوں مسلمانوں کا نہایت بے دردی سے قتل کئے جانے کے باوجود، اور ہزاروں مسلم نساء کی عصمت دری کئے جانے کے باوجود، ہم پر کئے گئے مجرمانہ سنگھی ظلم و بربریت کو خاموشی سے ہم 30 کروڑ مسلمان سہتےاور مصلحتا برداشت کرتے آئے ہیں جبکہ 2 % آبادی والی سکھ قوم، سابق آنجہانی
وزیر اعظم محترمہ اندرا گاندھی کے، خود انکے سکھ محافظوں کے ہاتھوں دردناک انداز قتل کئے جانے کے بعد، اس وقت کے کانگریسیوں کی طرف سےبدلے کی کاروائی کے طور منظم انداز دہلی فساد میں مارے گئے کچھ ہزار سکھ بھائیوں کی موت کو، سکھ قوم آج تک بھلا نہیں پائی ہے۔ اور ہم بے حس مسلمانوں کی طرح بھلانا بھی نہیں چاہئیے
ابھی حال ہی میں یوپی چیف منسٹر یوگی مہاراج ہی کی بنائی ہندو یوا سینا کے زیر انتظام ہردوار دھرم سنسد میں ھندو مذہبی دھرم گروؤں کی طرف سے بھارت کے مسلمانوں کے خلاف قتل عام کی آواز دئیے جانے کے بعد اور خصوصا اس دھرم سنسد کے مسلم قتل عام کئے جانے کے اعلان پر بھی کانگریس، سماج وادی اور بہوجن سماج وادی پارٹیوں سمیت نام نہاد سبھی سیکیولر پارٹیوں کی طرف سے، چپی سادھ خاموش رہتے
پس منظر میں، بھارت کے 30 سے 35 کروڑ ہم مسلمانوں کو، بھارت میں اپنا مستقبل محفوظ بنائے رکھنے کے لئے اپنی سیاسی پارٹی بنانے کی کیا ضرورت نہیں ہے؟ ہم اس بات کو بھی تسلیم کرتے ہیں کہ آج کے اس منافرتی سنگھی دور میں ہم دیش کے 15% سے 20% مسلمان اپنے اتحاد کی بات کریں گے تو مسلمانوں کے اتحاد کا ڈر بتاکر یہ برہمن سنگھی لیڈران، تمام ذات پات کے ھندوؤں کومتحد کر سکتے ہیں،
جس کاخمیازہ ہم مسلمانوں ہی کو اٹھانا پڑسکتا ہے۔ لیکن اس دیش کے مختلف ذات برادری کے تمام ھندو بھی اتنے بے وقوف نہیں ہیں کہ ہر دفعہ اس سنگھی برہمنوں کے جھانسے میں آکر،انہیں اقتدار پر بٹھاتے رہیں اور دیش کو معشیتی طور برباد کرتے رہیں۔2014 میں “سب کا ساتھ اور سب کا وکاس” اور “اچھے دن آنے والے ہیں” مودی جی کے سہانے نعرے پر انہیں بھارت کا اقتدار دے کر دیکھ لیا ہے، 2014 کانگریسی پرائم منسٹر من موہن سنگھ کے دور اقتدار کے، تیز ترین ترقی پزیر معشیت کو،
ان سنگھی مودی جی کے 7 سالوں میں، ان کی ناعاقبت اندیشانہ معشیتی پالیسیز سے، بڑھتی بے روزگاری مہنگائی سے، بھارت واسیوں کا جینا محال ہوتے دیکھ لیا ہے۔ ایسے میں نہیں لگتا کہ دیش کی 138 کروڑ عام جنتا، اب بھی مودی جی کے، کسی بھی دل لبھاؤنے نعرے پر بھروسہ کرتے ہوئے، دوبارہ سنگھی مودی یوگی کو متحدہ طور ووٹ دینے کی غلطی دہرائے گی۔ ویسے بھی اس دیش کی 22% دلت عوام کو اچھی طرح معلوم ہے کہ اس دیش کے مسلمان اسکے دشمن ہیں یا برہمنی سماج انکی ترقی کی راہ کا سب سے بڑا روڑہ ہیں۔ یوپی میں ھندو دھرم کےمحافظ یوگی مہاراج کے دور اقتدار میں،
ہاتھرس کی دلت بیٹی پر ہوا ظلم و ستم 22% یوپی کے دلتوں، نے بخوبی دیکھا ہے، کہ کس طرح سے اونچی ذات ٹھاکروں نے، دلت کی بیٹی کی اجتماعی عصمت دری کرتے ہوئے، نہ صرف اسے قتل کردیا تھا بلکہ خود کے پکڑے جانے کے ڈر سے، پولیس اور انتظامیہ سے سانٹھ کانٹھ کر، اس کی لاش تک اسکے اپنے ماں باپ کے حوالے نہ کرتے ہوئے، پیٹرول چھڑک کر جلادیا تھا۔کیا ایسے پس منظر میں،
یوپی کے دلت پھر ایک مرتبہ اس برہمنی سنگھی پارٹی کو ووٹ دینگے؟ دوسرا اہم نکتہ اگر مسلم دلت اتحاد سے یوپی کے 22% دلتوں کے سامنے کوئی اچھا مضبوط اور پائیدار نعم البدل ان کے سامنے رکھیں گے تو یقینا 22% یوپی کےدلت، 19%ہم مسلمانوں کے ساتھ آسکتے ہیں ۔ اور ایسا ممکن ہوا تو یقین مانئیے،بھارت کی سیاست میں اس نئے دلت مسلم اتحاد سے، ایک ایسا نیا انقلاب آسکتا ہے جسکے بعد پورے بھارت کی سیاسی بساط ہی پلٹ سکتی ہے ۔اس سمت دلت قوم کو، مسلم قوم کے قریب لانے کے لئے،
مسلمانوں کے مذہبی رہنما المحترم مولانا خلیل الرحمن سجاد نعمانی مدظلہ، سرکردہ دلت لیڈران سے اپنی ذاتی تعلقات کی بنیاد پر، مسلم دلت مفاہمت گٹھ جوڑ قائم کرنے، نہایت اچھا رول ادا کرسکتے ہیں۔مسلمانوں کی طرف سے حیدر آباد کےبعدمہاراشٹرا اورنگ آباد اور آب بہار اترانچل میں اسدالدین والی آے آئی اے ایم پارٹی وہاں وہاں کے عوام کی بہتر نمائندگی پیش کرتے عملا” دیکھ اور پرکھ کر، یوپی کے عوام ان پر بھروسہ کرکے دیکھ سکتے ہیں۔
اب رہا اس حالیہ یوپی انتخاب میں، سیکیولر پارٹی کے بہروپ میں اکلیس یادؤ کا کردار، مسلمانوں دلتوں کے تئیں کتنا قابل بھروسہ ہے یہ ہم سے زیادہ، یوپی کے عوام بہتر جانتے ہیں۔اکلیس یادؤ کو انتخاب کے وقت مسلم دلت خوب یاد آتے ہیں۔ اور مسلمانوں کو بے وقوف بنا، انکے پالے میں مسلم ووٹ لانے کے لئے،
ان کے پاس زر خرید کافی تعداد میں مسلم چہرے بھی ہیں۔ لیکن انکے سابقہ اقتدار میں رہتے، مظفر نگر اونچی ذات ٹھاکروں کے ہاتھوں منظم مسلم کش فساد میں، اکلیش یادؤ کی مجرمانہ خاموشی اور مسلم دشمن یوگی جی کے اعظم خان کو محمد علی جوہر یونیورسٹی کے قیام کی پاداش میں، انتظامی ہیرا پھیری کا بہانہ بنا، بیوی بچوں سمیت جیل میں بند رکھنے کے باوجود اکلیش کی مجرمانہ خاموشی،
مسلمانوں کے تئیں وہ کتنے ہمدرد و مخلص ہیں یہ ثابت کرنے کے لئے کافی ہے۔ ان تمام پرانی باتوں کو اگر نظر انداز بھی کردیا جائے، تو حالیہ یوپی انتخاب میں، یوپی کی انتخابی رن بھومی جیتنے کے لئے، چھوٹی سیاسی پارٹیوں کا ساتھ حاصل کرنے کی ان کی کامیاب کوششوں کے پس منظر میں، یوپی انتخاب میں 100 سیٹوں پر پورے دم خم کے ساتھ اترنے والے، مسلمانوں کے قدآور لیڈر، اسدالدین کے
ساتھ سیاسی مفاہمت سے گریز کرتاانکا رویہ، کیا یہ ثابت کرنے کے لئے کافی نہیں ہے کہ وہ مسلمانوں کے بارے میں کس قدر سنجیدہ ہیں؟ یا تو انہیں مہان مودی جی کے مسلم ووٹوں کی پرواہ کئے بنا، دوسری چھوٹی ذات برادری والی سیاسی پارٹیوں کے ساتھ، اونچی ذات والے ٹھاکروں کے ان کے ساتھ درپردہ ہوئے سمجھوتے کے چلتے، ٹھاکر ووٹوں کے سنگھ کا ساتھ چھوڑ ان کے پالے میں آنے کا انہیں
یقین ہے یا بی جے پی یوگی مودی جی کے ڈرسے، ، بے وقوف مسلم ووٹروں کے، انکے پالے میں گرنے کا انہیں ہورا یقین ہے، اسلئے وہ اے آئی ایم آئی کے ساتھ انتخابی گٹھ جوڑ کر،اپنے سیکولر نقاب تلے چھپے آونچی ذات ہم بوائی کے چہرے کو، اویسی قربت سے، ٹھاکر ووٹ کھونا نہیں چاہتے ہیں، اس لئے وہ، بی جے پی یوگی کو شکشت فاش دینے کی اپنی کوششوں کے حصول کے لئے بھی، نہایت مفید و مددگار اویسی سے دوری بنائے رکھے ہوئے ہیں
30 کروڑ بھارتیہ مسلمانوں پر سدا لٹکتے رہنے والی بھگوا تلوار، این آر سی اور سی اے اے سے، ہمیشہ کے لئے نجات حاصل کرنا بھارتیہ مسلمان گر چاہتے ہیں تو راکیش ٹکیٹ نے جس طرح کسانوں کا متحدہ لیڈر بنتے ہوئے، کرشی قانون کی کھلم کھلا مخالفت و بی جے پی مودی یوگی حکومت کے
خلاف ڈٹ کر مقابلہ کیا تھا، اسی طرز ڈٹ کے، سی اےاے اور این سی آر کی مخالفت کرنے کے لئے بھارت گیر پیمانے پر، مشہور ترین شخصیت محترم محمود مدنی مدظلہ دیوبند جمیعت العلماء ھند والے اور محترم اسدالدین اویسی مدظلہ حیدر آباد آے ائی اے ایم والے، دو نامور لیڈران میں سے،کسی ایک کو بھارت گیر پیمانے کا اپنا اکلوتا لیڈر قبول کرتے ہوئے، ملک گیر سطح پر مودی حکومت کے خلاف احتجاج کرنا ہوگا
اگر بھارتیہ 30 کروڑ مسلمان وقتی راحت و سکون کے لئے، اپنا ووٹ مختلف سیاسی پارٹیوں کے درمیان بٹتے برباد کرتے رہینگے تو یاد رکھیں مظفر نگر یوپی اور ابھی حال ہی میں دہلی مسلم کش فساد دوران و بعد فساد خاموش تماشائی بن، یا اپنی سیکیولر امیج برقرار رکھتے مسلمانوں کی طرفداری سے کنی کاٹنے والے، کانگریس سمیت مختلف سیکولر مکھوٹے والی سپھا بھاسپا سیاسی پارٹیوں پر بھروسہ کئے جیتے رہینگے تو پارلیمنٹ راجیہ سبھا میں اپنی اکثریت نہ رہنے کے باوجود، بی جے پی اپنی جوڑ توڑ پالیسئز سے، مسلم نساء مخالف تین طلاق بل پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں سے پاس کراتے،
مسلم مخالف قانون بنائے جیسا، ان نام نہاد سیکیولر پارٹیوں سے درپردہ لین دین معاہدہ کرتے ہوئے یا انہیں سی بی آئی اورانکم ٹیکس چھاپوں کا ڈر دکھاتے ہوئے، سی اے اے اور این آرسی مسلم مخالف قانون بھی پاس کرتے ہوئے، یہ 3% سے 5% سنگھی برہمن سماج والے، بادشاہت رہتے ہوئے بھی بھارت پر 800 سال سیکیولر حکومت کئے ہم 30 سے 35 کروڑ مسلمانوں کو، تمام تر حکومتی مراعات سے ماورا، دوسرے درجے کا نیچ ملیچھ مسلمان بنتے جینے پر مجبور کر سکتے ہیں
اس لئے ہم مسلمانوں کو نہایت دور اندیشی سے کام لیتے ہوئے، مسلم دشمن سنگھی یوگی مہاراج کو، اب کی بار یوپی انتخاب میں شکشت فاش دیتے ہوئے، 2024 مسلم دشمن قاتل گجرات مودی جی کو شکشت فاش دینے کے بارے لاحیہ عمل ترتیب دینے کی کوشش کرنی چاہئیے۔ اب یوپی کے 19% مسلمان، سپھا سے منسلک مسلم لیڈران پر زور دیتے ہوئے، 19% مسلم ووٹ پورے کے پورے سپھا کے حق میں پڑتے دیکھنا اور دوہرائی اکثریت سے یوپی پر سپھا کا راج ہوتے،گر وہ دیکھنا چاہیں تو، کسی بھی صورت سپھا کو یوپی انتخاب کی حد تک، آئ آئی ایم آئی سے انتخابی سمجھوتہ کرنے پر مجبور کرنا پڑے گا
۔ 19% مسلم ووٹروں کے اس دباؤ کے باوجود، اکلیش یادؤ،اسدالدین سے انتخابی سمجھوتہ کرنے سے کنی کاٹتے نظر آتے ہیں تو اکلیش کے دل میں مسلمانوں کے تئیں کھوٹ پاتے ہوئے، اویسی کے مقابلے میں اترے 100 حلقوں میں سے کم و بیش 50 سے 60 مسلم اکثریتی حلقوں کے مسلمان، انتخابی ہار جیت کی پرواہ کئے بنا ہی،اپنے مسلم صد فیصد ووٹ اے آئی اے ایم کے حق میں ڈالتے ہوئے، زیادہ سے زیادہ حلقوں سے، اے آئی اے ایم کے امیدواروں کو جیت سے ہمکنار کرواتے ہوئے،
انتخاب بعد غیر واضح اکثریتی یوپی اسمبلی میں، سیکیولر پارٹی گٹھ جوڑ سے یوپی حکومت میں شریک بن مسلم مسائل حل کے لئے ، اے آئی ایم آئی والوں کو ایک موقع دے کر دیکھا اور انہیں بخوبی پرکھا جاسکتا ہے۔نہایت افسوس ہوتا ہےاللہ پر اور اپنی اور مسلم امہ کی تقدیر پر بھروسہ یقین و ایمان رکھنے کی دہائی دینے مسلم علماء کرام ہی، مسلمانوں کی تقدیر کو، بی جے پی مسلم دشمن ذہن سنگھیوں سے ڈر بتاکر،
مسلم ووٹوں کا استحصال کرنے والے سیکیولر پارٹیوں کی جھولی میں ہی، 19% مسلم ووٹوں کو دان میں ڈالنے کی ترغیب دیتے پائے جاتے ہیں اللہ ہی سے دعا ہے کہ وہ اس پرفتن دور میں، مسلم دشمن سنگھی یوگی مودی اور ہرودار و دہلی ھندو دھرم سنسد میں مسلمانوں کے خلاف زہر اگلتے شدت پسند ھندو لیڈروں، دھرم گروؤں کے شر سے، ہم 30 سے 35 کروڑ بھارتیہ مسلمانوں کو محفوظ رکھنے لائق سیاسی لاحیہ عمل ترتیب دینے،یوپی کے مسلمانوں کی تو بھرپور مدد فرما۔وما علینا الا البلاغ