انسانی تاریخ کی سب سے مہلک دریافت
چراغ ِ راہ / امیر ولی خان
اٹھارویں صدی سے قبل ، دنیا کے کسی بھی ملک کے شہریوں کو تعلیم دینا کسی بھی ریاست کی ذمہ داری نہیں تھی اور نہ ہی کسی ریاست نے اپنے شہریوں پر تعلیم کے حصول کو قانونی طور لازمی قرار دیا تھا۔ اس دوران جن لوگوں نے تعلیم حاصل کی انھوں نے ایسا رضاکارانہ یا شوقیہ ہی کیا ، اور جس نے بھی اسے حاصل کیا ، اس نے اسے انسانیت کے شعور کی ترقی کے لئے استعمال کیا۔ ان میں عظیم چینی اساتذہ کنفیوشس اور لاؤزو، یونان کے عظیم ماہر تعلیم سقراط ، ارسطو ، ساتویں سے تیرہویں صدی کے مسلم معلمین، اور یورپ کو اندھیروں سے روشنیوں کی طرف لانے والے عظیم اساتذہ سرفہرست ہیں۔
اٹھارہویں صدی کی نپولین جنگوں کے بعد ، پرشیا (پندرہویں صدی کے دوران کی جرمن ریاست) اور ڈچ شہنشاہ نے تعلیم کو اپنے عوام کے ذہنوں پر قابو پانے اور انہیں محکوم بنانے کے لئے ایک مہلک آلے کے طور پر استعمال کرنا شروع کیا۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ نپولین جنگوں کے دوران جرمن اور ڈچ عوام نے اپنے شہنشاہوں کی طرف سے نپولین کے خلاف لڑنے میں کوئی دلچسپی ظاہر نہیں کی ،
کیونکہ ایک تو وہ اپنے بادشاہوں کے ظلم سے تنگ آچکے تھے ،دوسرا اتنا باشعور ہوچکے تھے کہ سلطنت اور بادشاہت کے غیر انسانی نظام کی اصلیت کو جان گئے۔ تاہم ایسے انسانی صفات والے رعایا بادشاہوں کو کیونکر گوارا ہوتے؟ ان کو تو سوال کرنے کی صفت سے عاری ایسے محکوم و غلام لوگ درکار تھے
جو ان کے ہر فرمان کو آنکھیں بند کر کے قانون مان لیں اور بلاچون وچراہ انسان نما جانوروں کی طرح ان فرامین کی پاسداری میں جت جائیں ۔اس لئے جب نپولین کے زوال کے بعد ، ان ریاستوں کے سابق حکمرانوں کو ان کی سلطنتیں واپس مل گئیں تو انھوں نے اپنے لوگوں کے اس طرز عمل اور شعور و آگاہی کا گہرائی سے مطالعہ کیا کہ جس کی بدولت انھوں نے محکومی کی زندگی پر لعنت بھیج دی تھی
،گہرے مطالعے کی بدولت یہ حکمران اس نتیجے پر پہنچے کہ لوگوں کی ذہنوں میں بادشاہ اور اسکے کے اختیار ات، غیر مشروط وفاداری ، ریاست اور بادشاہ کی طرف سے دوسروں سے جنگ ، انسانی حقوق ، اور شخصی آزادی کے بارے میں کئی بنیادی و فلسفیانہ سوالات کیساتھ تنقیدی و شعوری سوچ جنم لی چکی تھی ۔ ان تبدیلیوں کی وجوہات میں انقلاب فرانس ، یورپ میں انسانی حقوق کی دیگر تحریکیں
اور بنی نوع انسان کی آزاد زندگی بسر کرنے کی فطرت نمایاں تھیں ۔ یہ صورتحال ان مطلق العنان بادشاہوں کے لئے بہت پریشان کن تھی ،اپنی بقا کو لاحق ان خطرات کو محسوس کرتے ہوئے انھوں نے کسی ایسے آلے کی تلاش شروع کی جسے استعمال کر کے وہ لوگوں کی سوچنے سمجھنے کی طاقت کو مفلوج کرسکیں
اور اپنے نام نہاد حق حکمرانی کو مزید دوام بخش سکیں ۔کافی غور وفکر کے بدولت ان حکمرانوں کے شیطانی دماغوں نے “تعلیم” میں وہ طاقت ڈھونڈ لی جس کے منفی استعمال سے وہ مطلوبہ نتائج حاصل کرسکتے تھے ۔ اس کے بعد ہی اس دریافت شدہ طاقت کے منظم استعمال کے لئے “ماس اسکولنگ ” کے تباہ کن منصوبے کا آغاز ہوا جو بالآخر انسانی تہذیب ،شعور،تنقیدی سوچ ، تخلیقی صلاحیتوں کے خاتمے اور انسانوں کو ربوٹ بنانے کا فارمولہ ثابت ہوا ۔
عام طور پر ایٹم بم کی دریافت کو پورے کرہ ارضی کے لیے تباہ کن سمجھا جاتا ہے مگر میرے نزدیک تعلیم کی منفی طاقت کی دریافت انسانی تاریخ کی سب سے مہلک دریافت تھی جسکو ” ام لمہلکات” کہیں تو بے جا نہ ہوگا !!یہی وہ فارمولہ تھا جو پہلی اور دوری جنگ عظیم میں لاکھوں انسانوں کی ہلاکت اور دنیا کے کئی دیگر گھمبیر مسائل کا موجب بنا اور آج بھی اسی کی بدولت ہی دنیا کو کئی قسم کے شدید خطرات لاحق ہیں ۔
ان “چین آف سکولز ” کے قیام کے پیچھے انسانیت کے لئے کوئی بھلائی مقصود نہیں تھی بلکہ پالیسی ساز یہ چاہتے تھے کہ ان کی مدد سے ایسے انسان نما روبورٹ تیار کئے جائیں جن کے سوچنے سمجھنے کی صلاحیت محدود ہو،جن کے ذہنوں میں بادشاہ یا ریاست کا خوف نمایاں ہو اور جو بغیر کسی سو چ سمجھ کے بلاچون چراہ بادشاہ اور ریاست کے لئے اپنی جانیں پیش کرسکیں ۔ ان سکولوں کی مدد سے دوسرا ظلم یہ کیا گیا کہ طلباء و طالبات کو غلط اعداد وشمار اور تاریخ کے جعلی حوالوں کی مدد سے ایسا نصاب پڑھایا گیا جس سے وہ اپنی قوم کو اعلیٰ و برتر اور دیگر اقوام کو نیچ و کمتر سمجھنے لگے ۔
یہ وہ دور تھا جب دنیا صنعتی انقلاب کی لپیٹ میں آرہی تھی ،سرمایہ داروں کو اپنے کارخانوں میں کام کرنے کے لئے بڑی تعداد میں ہیومن ریسورس درکار تھی ،یہ کمی پوری کرنے کے لئےبھی ان ہی سکولوں سے استفادہ کیا گیا،نتیجتاََ یہ سکول کارخانوں کی ضروریات پیدا کرنے کے لئے دھڑا دھڑ مشین نما انسان تیار کرنے لگ گئے ۔ تب سے اب تک یہی نظام تعلیم ہماری دنیا میں رائج چلا آرہا ہے ۔ آج کوئی ایسی ریاست نہیں جو تعلیم کو اپنے سیاسی مقاصد یا سوشل انجینئرنگ کے لئے استعمال نہ کر رہی ہو !!
اٹھارویں صدی میں جنم لینے والا یہ تعلیمی نظام انسانیت کے مزاج اور اخلاقیات کے بالکل برعکس ہے ، یہی وجہ ہے کہ ہمارے بچے جتناذیادہ وقت سکول میں گزارتے ہیں اتنا ہی اس جگہ سے نفرت کرنے لگتے ہیں ۔ صرف پاکستان کے ہی اعدادو شمارنکال کر دیکھ لیں تو معلوم ہوگا کہ ایسے لاکھوں بچے ہیں جو صرف سکول کے قابل نفرت ماحول کی بدولت ابتدائی کلاسوں میں ہی تعلیم کو خیر آباد کہہ گئے ۔اگر یہ نظام تعلیمی اتنا ہی اچھا ہے تو بچوں کو خوشی خوشی سکول جانا چاہے تھا جبکہ ہمارے ہاں صبح اٹھ کر بچوں کو سکول بھیجنا بہت سے والدین کے لئے ایک سخت آزمائش ہوتی ہے ۔۔
یہ اسی “نظام تعلیم ” کی کارستانی ہی ہے کہ آج عوام کہیں بادشاہت کے زیر سایہ بھیڑ بکریاں بن کر زندگیاں گزار رہے ہیں اور کہیں نام نہاد جموریت کے طوق گلے میں ڈال کر ننگے بھوکے ایڑیاں رگڑ رہے ہیں ۔ یہی انسان کہیں کسی ڈکٹیٹر کے جوتوں تلے رینگنے کی کوشش کر رہے ہیں تو کہیں کسی مذہبی شعبدہ باز کے ہاتھوں یرغمال بنے ہوئے ہیں ۔
آج دنیا جس حال میں ہی اس میں ایک بڑا حصہ اسی تعلیمی نظام کا ہے ! آج ہمارے تعلیمی اداروں میں جو نسل پروان چڑھ رہی ہے اس کی مثال لیبارٹری کے پنجروں میں رکھے چوہوں جیسی ہے یا پھر ان روبورٹس جیسی جنھیں گاہکوں (سرمایہ داروں ،صنعتکاروں) کی ڈیمانڈ کے مطابق تراشا خراشا کیا گیا ہو ۔
گزشتہ کچھ صدیوں میں اس نظام تعلیم کے خلاف کہیں کہیں بغاوت کی چنگاریاں بھی نظر آتی ہیں لیکن وہ اتنی کمزور رہیں کہ ان سے حقیقی علم و تربیت کے چراغ نہ جلائے جاسکے ۔ اس عرصے میں جن اساتذہ نے انسانیت کو ریاستی تعلیمی نظام کے اس چنگل سے آزاد کرانے کی کوشش کی ،ان میں پولو فیرری ،ایوان الیچ ،مائیل ایپل اور اقبال شامل ہیں ،اب نومچومسکی اپنے چونچ سے نفرت کے اس آلائو کو بجھانے کی کوشش کر رہے ہیں لیکن شاید انہیں بھی معلوم ہے کہ اسکا کوئی فائدہ نہیں ہونے والا ۔۔
اگر چہ گزشتہ اب کچھ ممال میں تعلیم کے مثبت استعمال پر بحث شروع ہوگئی ہے لیکن بدقسمتی سے پاکستان کا شمار ان میں نہیں ہوتا ۔پاکستان میں اب بھی جو تعلیمی نظام رائج ہے وہ نئی نسل میں مثبت ،تعمیری ،جمہوری ،تخلیقی و سائنسی اور رواداری جیسی خوبیاں پروان چڑھانے سے قاصر ہے بلکہ یہ نظام ایک ایسی نسل تیار کر رہا ہے جن کے اذہان میں اپنے متعلق احساس برتری ،دیگر اقوام سے نفرت ،فرقہ واریت اور سائنسی و تخلیقی سوچ سے خوف شامل ہے۔ہمارے ہاں روس افغان جنگ کے دوران نئی نسل کو ایک منظم سوشل انجینرئنگ کے ذریعے مجاہدین کے روپ میں ڈھالا گیا ،
اس دور میں مدرسوں ،سکولوں کالجوں ،یونیورسٹیوں سے یا تو روبوٹ مجاہدین نکلے یا پھر ان کے حمایتی ۔۔ منظم طریقے سے پیڈ لکھاریوں ( Paid Writers) کے ذریعے تاریخ کے علم کو افسانوی رنگ دےکر لکھوایا گیا اور اس کے ذریعے سے جعلی فاتحین تخلیق کئے گئے ۔ہماری درسی کتب مولویوں نے اپنے اپنے مسلک کے مطابق لکھیں ، انھوں نے معاشرتی علوم ،ریاضی و کمسٹری حتی کے امور خانہ داری جیسے مضامین میں بھی مذہب کی اپنی خاص تشریح ٹھوس کر نئی نسل کو گھول کر پلا دی ۔
اس منظم پروگرامنگ کا نتیجہ یہ نکلا کہ افغان جنگ کے خاتمے پر یہی روبورٹ مجاہدین ہالی ووڑ فلموں کے باغی روبوٹ” مونسٹر جنگجوں ” کی طرح پلٹ کر اپنے ہی موجدوں کے گلے کاٹنے لگے،اس دوران لاکھوں انسان ناحق مارے گئے ۔
نائن الیون کے بعد منظر بدل گیا ، خطے میں عالمی استعماری قوتوں کی نئی ضروریات پیدا ہوگئیں ۔ پہلے والے روبورٹ ناکارہ قرار دیکر ان سے جان چھڑائی جانے لگی ۔ اسی تناظر میں ہمارے ارباب اختیار نے بھی ان روبورٹس کی “ری پروگرامنگ ” کے لئے ایک بار پھر مغربی ماہرین کی خدمات حاصل کیں ۔
ان ماہرین کے اشاروں پر ہمارے نصاب تعلیم سے مذہبی عنصر نکال کے اسےروشن خیال اور معتدل (Enlightenment & Moderate ) بناے کا آغاز ہوا جو اب تک جاری ہے اور جس کے نت نئے مظاہرے ہم آجکل اپنے سوشل میڈیا پر دیکھتے رہتے ہیں ۔ اب تو خیر سے چینی ماڈل پر بھی کام شروع ہے ۔۔
یہ ڈرامہ دکھائے گا کیا سین ؟ ۔
پردہ اٹھنے کی منتظر ہے نگاہ !!
آج کے معاشرے کو دیکھ کر تو میرے دل میں حسرت پیدا ہوتی ہے کہ کاش ہم پھر سے ناخواندہ ہوجائیں ۔۔ ہم میں سے کوئی بھی سنی ،شعیہ ،دیوبندی ،وہابی میں تقسیم مذہبی لٹریچر نہ پڑھ سکتا ۔ ہم نسیم حجازی کے تاریخی ناولوں سے نابلد ہوتے اور اپنے اذہان میں جعلی فاتحین کا جھوٹا تصور یوں راسخ نہ ہوتا !کاش ہمارے ہاں تعلیم و تربیت کا شعبہ ریاستی ایجنڈوں کے ہاتھوں سے نکل کر پھر سے کبنہ و معاشرے کے محفوظ ہاتھوں میں لوٹ آئے !