قانونی بلادستی کیلئے عملی اقدام ضروری
کالم نگار: تحریر :شاہد ندیم احمد
معاشرے میں امن اور ملکی استحکام کیلئے قانون کی بالادستی بہت ضروری ہے ،لیکن جہاں قانون کی بالادستی نہ رہے ،وہاں پھر ظلم پنپنے لگتاہے،ناانصافی عام ہو جاتی ہے،اس بے نصافی کو انصاف کی فراہمی سے ہی لگام ڈالی جاسکتی ہے ،جبکہ انصاف کی فراہمی قانون کی بلادستی کے بغیر ممکن نہیں ہے ،اس لیے ایک طرف شہریوں کے کچھ حقوق ہیں تو دوسری جانب قانون نافذ کرنے والے اہلکاروں کے بھی کچھ فرائض ہیں ،اگردونوں ہی اپنے دائروں میں رہتے ہوئے ذمہ داری اور فرائض ادا کریں
تو ہی معاشرہ درست سمت کی طرف گامزن ہوسکتاہے،اس کے برعکس قانون شکنی کی جائے گی،معاشرتی اصولوں کو سبوتاژ کیاجارتا رہے گا تو انصاف کی فراہمی ہو گی نہ معاشرے میں بہتری آئے گی ، بلکہ تباہی و بربادی قوم کامقدر بن جائے گی۔اس میں شک نہیں کہ معاشرے میں قانون ہی واحد ذریعہ ہے کہ جس کی پاسداری کے نتیجے میں عوام اور خواص دونوں ایک دوسرے کے حقوق کا خیال رکھنے پر مجبور ہوتے ہیں، لہذا قانون سب کے لیے برابر ہوناچاہیے،
قانون کی نظر میں کوئی چھوٹایابڑا نہیں ، کوئی طاقتور یا کمزار نہیں ہے ،قانوں سب کو یکساں نظر سے دیکھتا ہے ،اگرقانون کی پاسداری سب کو یقین دلانے میں کامیاب ہو جائے کہ معاشرے کا ہر فردقانون کی خلاف ورزی کی صورت میں گرفت میں آسکتاہے تو جرائم کم ہونے کے ساتھ انصاف کا بھی بول بالا ہو جائے گا
،لیکن اگرقانون کے محافظ ہی قانون توڑناشروع کردیں،انصاف سے دور ہوجائیں اور صحیح اور غلط کے بجائے من پسندطریقے اپنانے لگیں تو پھر معاشرہ زوال کی طرف بڑھتاہے اورقانون پر سے لوگوں کااعتماد اٹھنے لگتاہے۔
یہ حقیقت ہے کہ قانون کی عملداری کسی بھی ملک، کسی بھی معاشرے میں ہر طرح کے انسانی حقوق کی پاسداری کو یقینی بنائے جانے کی بنیادی شرط ہے،اس پر وزیراعظم عمران خان بھی بار بار زور دیتے رہتے ہیںکہ مراعات یافتہ طبقے اور عام شہری پر قانون کا یکساں اطلاق ہونا چاہئے ، لیکن عملی طور پرصورتحال یہ ہے کہ اشرافیہ اپنے اثر و رسوخ اور مال و دولت کے بل پر قانون کی ناک جب اور جہاں سے چاہے مروڑ کر انصاف کا ترازو اپنے حق میں جھکا لیتے ہیں، جبکہ عام شہری قصور وار ہے یا نہیں،
ذلت و رسوائی سہنے پر مجبور ہے، وہ وکلاء کی بھاری بھر کم فیسیں ادا کرنے کے قابل ہے نہ انصاف کا دروازہ کھٹکھٹا نے کی طاقت رکھتا ہے اور نہ ہی دولت کے بل پر اپنی عزت بچاسکتا ہے ،غریب کے نصیب میں تو ذلت ورسوائی کے ساتھ دھکے کھانہ لکھ دیے گئے ہیں ،اس لیے غریب کی عام زندگی کے ساتھ کوٹ کچہری میں بھی کوئی سنوائی نہیں ہوتی ہے۔پاکستان میں قانون و انصاف میں بلا کی تفریق ہے ،یہاں پر طاقتور اور کمزور کیلئے الگ قانونی تقاضے ہیں،یہاں پر غریب شکایت پر سلاخوں کے پیچھے ،جبکہ اُمراء بڑے جرائم میں ملوث ہونے کے باوجود قانون کی گرفت سے دور ہیں
،یہ توجہ طلب پہلو ہے کہ اگر یہ مگر مچھ قانون سے بالا رہتے ہیں توسسٹم کی ناکامی کا ذمہ دار کون ہے؟ ملک کی اشرافیہ پراربوں روپے کی لوٹ کھسوٹ کے مقدمات ہیں،ان کا سالہ سال عدالتی کارروائی کے علاوہ میڈیا ٹرائل بھی ہوتا رہتا ہے، مگر یہ مگرمچھ مکھن سے بال کی طرح بچ نکلتے ہیں ،اس میں قصوروار کون ہے ؟ اگر ٹھوس ثبوت کے باوجود محض تیکنیکی بنیادوں پر قومی مجرم چھوٹ جاتے ہیں
یا ضمانتوں پر رہائی حاصل کرکے دندانتے پھرتے قانونی اداروں کو ہی حرف تنقید بناتے ہیں تو یہ اس نظام کے ساتھ اداروں کیلئے بھی لمحہ فکریہ ہے۔ہمارے ہاں ریاست مدینہ کی زبانی کلامی بہت باتیں بہت کی جاتی ہیں ،مگر عملی طور پر سارے دعوئوں کے باوجود
ریاست مدینہ کا کہیں کوئی عکس دکھائی نہیں دیتا ہے ، ریاست مدینہ میں تو بھرے مجمعے میں ایک بدو کے اعتراض پر خلیفہ وقت اپنے تمام تر جاہ و جلال کے باوجود اپنی صفائی پیش کرنے لگتا تھا، آج کا دور ہوتا تو سیکورٹی گارڈز غریب بدو کو پکڑ کر لاپتہ ہی کر دیتے اور خلیفہ کو اپنی بیگناہی ثابت کرنے کی زحمت سے صاف بچا لیاجاتا،ریاست مدینہ کا تصور پیش کرنا بہت آسان کام ہے ، مگرریاست مدینہ بنا نے کیلئے
خود کو مثال بنانا پڑتا ہے،اگر پاکستان کو ریاست مدینہ کے مثیل بنانا ہے تو سب سے پہلے قانون سب کیلئے یکساں بنانے کی غرض سے عملی اقدامات کرنا ہوں گے، تاکہ کوئی جاہ و منصب کے زور سے کسی پر ظلم وزیادتی کر سکے نہ دولت کے زور پر اپنے حق میں فیصلے کرواسکے، قانون میںسب کیلئے ایک لا ٹھی ہونی چاہے ،اس سے بلا امتیاز سب کو ہانکا جائے تو ہی قانون کی بالا دستی کو بھی یقینی بنایا جاسکتا ہے۔
بلا شبہ معاشرے میںقانون کی بالادستی نا گزیر ہے ،کیو نکہ لوگ بھوکے رہ سکتے ہیں، اپنے دیگر حقوق پر سمجھوتا بھی کرسکتے ہیں ،لیکن بلا امتیاز انصاف کی فراہمی کے بغیررہنا انتہائی مشکل ہے ،اگر معاشرے میں بلا امتیاز انصاف نہیں ہو گاتو بدامنی پھیلے گی، انصاف نہیں ہوگا تو اضطراب ہوگا،انصاف نہیں ہوگا تو طبقاتی تقسیم ہوگی، انصاف نہیں ہوگا تو حکمران اشرافی طبقے استحصال کریں گے
اور استحصالی طبقے عوام کا خون چوسیں گے، اس لیے انصاف کی فراہمی سب سے بنیادی چیز ہے،اس وقت پی ٹی آئی کی حکومت کے پاس انصاف کا شفاف نظام لانے کا بہترین موقع ہے،اس موقع کو اقتدار کا تسلسل برقرار رکھنے کی کائوشوں میں ضائع نہیں کرنا چاہئے ، اس مقصد کیلئے حکومت کو فوری طور پر عملی اقدامات کرنا ہوں گے ، ریاست مدینہ کے زبانی کلامی دعوئوں سے قانون کی بلادستی اور ا نصاف کی فراہمی کا مقصد کبھی حاصل نہیں ہو سکے گا۔