پاک افغان سر حد باڑ حل طلب تنازعہ
کالم نگار: تحریر :شاہد ندیم احمد
پاکستان کے قانون نافذ کرنے والے ادارے اس امر پر متفق ہیں کہ پاکستان میں ہونے والی تمام کارروائیوں میں افغان سرزمین استعمال ہوتی رہی ہے،اشرف غنی دور میں پاکستانی سرحد کے قریب بھارتی خفیہ ایجنسی (را) کے بے شمار خفیہ ٹھکانے اور دہشت گردوں کو ٹریننگ دینے کے سنٹر موجود تھے،افغانستان سے دہشت گرد پا کستان میںحملے کرتے تھے،پاکستان نے ان حملوں کی روک تھام کے لئے 2400کلو میٹر پر مشتمل طویل پاک افغان سرحد پر باڑ لگانے کا فیصلہ کیا،اس کا مقصد ما سوا ئے کچھ نہیں
کہ سرحد پار سے آنے والے دہشت گردوں کو روکا جائے ،مگر افغانستان کی جانب سے سر حد باڑکو بار بار اُکھاڑا جارہا ہے ،تاہم پاک فوج کے ترجمان نے واضح کردیا ہے کہ پاک افغان سرحدباڑ لگانے میں شہدا کا خون شامل ہے ،یہ کام پایہٗ تکمیل کو ضرور پہنچے گا۔اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ بھارت دہشت گردی کیلئے افغان سر زمین استعمال کرتا آرہاہے ،اس کے باوجود اشرف غنی اور حامد کرزئی پاکستان پر الزام لگاتے رہے کہ پاکستان سے دہشت گرد افغانستان میں داخل ہوتے ہیں،
جب کہ پاکستان کا موقف رہا ہے کہ افغانستان سے دہشت گرد پاکستان میں داخل ہوتے ہیں، تحریک طالبان پاکستان کو بھی افغانستان میں محفوظ پناہ گاہیں حاصل رہی ہیں، آج بھی تحریک طالبان پاکستان کی کارروائیوں میں افغانستان کی سرزمین استعما ل ہو رہی ہے،اس تناظر میں پاک افغان سرحد پر باڑ پاکستان کی سلامتی اور امن وامان کے لیے ناگزیر ہے ،پاک افغان سرحد آمد و رفت پرجب تک سرکاری کنٹرول نہیں ہوگا، تب تک پاکستان میں دہشت گردی اور دیگر جرائم کا خاتمہ ممکن نہیں ہے ۔
پاک افغان باڑ کا مقصد ہی دونوں ممالک کے درمیان امن کے قیام کو یقینی بنانا ہے ، یہ سر حد باڑ پاکستانیوں کے خون پسینے کی کمائی سے لگائی جارہی ہے، اس لیے باڑ کی حفاظت بھی پاک فورسز پر لازم ہے،تاہم طالبان حکومت کی جانب سے باڑ اُخھاڑنے کا معاملہ سمجھ سے بالا تر ہے ،جبکہ طالبان کے حوالے سے باور کروایا جاتا رہا ہے
کہ طالبان ہمارے دوست ہیں،بھارت کے ایجنٹ نہیں ہیں،طالبان کے آنے سے پاکستان میں امن آئے گا،طالبان دہشت گرد وں کو نہ صرف ہمارے حوالے کر یںگے،بلکہ افغان سر زمین کو پا کستان کے خلاف استعمال بھی نہیں ہو نے دیں گے ، لیکن طالبان حکومت قائم ہونے کے بعد ایسا کچھ بھی نہیں ہوا ہے ،بلکہ ا س کے برعکس انھوں نے ہمیں تحریک طالبان پاکستان کے ساتھ مذاکرات پر مجبور کیا ،
بعدازاں اس کا بھی پاکستان کو کوئی فائدہ نہیں ہوا ہے۔سوال یہ ہے کہ افغان طالبا کا پا کستان کی بجائے ٹی ٹی پی کے لیے اتنانرم گوشہ کیوں ہے ،جبکہ پا کستان نے ہمیشہ ہر معاملے پر طالبان کی مدد کی ہے اور اب بھی لگاتار کررہا ہے ،اس کے باوجود طالبان کی جانب سے سر حدی جارحیت ناقابل فہم ہے ،اگر کوئی بھی ہماری سرحد پر جارحیت کرتا ہے تو ہمارا کیا جواب ہونا چاہیے؟اس کا جواب ہے
کہ ہمیں اس جارحیت کا منہ توڑ جواب دینا چاہیے ،پا کستان نے سرحد سے کافی اندر آکر اپنے علاقے پر باڑ لگائی ہے، اگر اس باڑ کو کوئی نقصان پہنچانے کی کوشش کرے گا تو پھردشمن ہو یا دوست کسی کیلئے بھی نرم گوشہ نہیں رکھا جانا چاہئے،کیو نکہ یہ نرم گوشہ مخالفین کیلئے مزید حوصلہ افزائی کا باعث بھی بن سکتا ہے۔
اس حوالے سے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کا کہنا ہے کہ افغانستان کے ساتھ حکومتی سطح پر معاملہ اٹھایا جارہا ہے ،افغانستان کیلئے پا کستان کی قربانیاں کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہیں ،پا کستان علاقائی اور عالمی سطح پر افغان حکومت کیلئے مسلسل جدوجہد میں مصروف ہے ،پا کستان کی کوشش ہے
کہ افغانستان میں معاشی و انتظامی استحکام پیدا ہو جائے ،لیکن یہ سر حدی انتظامات کی بہتری کے بغیر ممکن نہیں ،اگر سر حدیں محفوظ نہیں ہوں گی تو افغانستان سے پا کستان میں در اندازی اور سمگلنگ نہیں روکے گی اور جب تک یہ سلسلہ جاری رہتا ہے تو دونوں ملکوں کے درمیان اچھے ہمسائیوں والا اعتماد پیدا نہیں ہو سکتا ہے۔
اس میں شک نہیں کہ پا کستان خطے میں قیام امن کیلئے کو شاں ہے اور کسی اپنے سخت طرز عمل سے حالات میں بگاڑ پیدا کرنا نہیں چاہتا ہے ، تاہم افغان طالبان قیادت کوبھی سنجیدگی کے ساتھ اس معاملے کا نوٹس لینا چاہیے کیونکہ نچلی سطح پر طالبان کی صفوں میں کچھ ایسے افراد موجود ہیں جو کہ پاک افغان تعلقات میں دراڑ ڈالنے کی کوشش میں لگے ہیں،پاک افغان باڑ کو ئی بڑا تنازعہ نہیں ،یہ دونوں ممالک کے مفاد میں ہے،
اگر طالبان لیڈر شپ فوری طور پر غلط فہمیوں کا ازالہ کرتے ہوئے مسئلے کا قابل عمل حل تلاش کرنے کی کوشش کرے تو معاملہ سلجھ سکتاہے ،لیکن کچھ شرپسند عناصرایسے واقعا ت کو بڑھا چڑھا کر پیش کر کے اپنے مقاصد حاصل کرنا چاہتے ہیں،لہٰذا جتنی جلدی ممکن ہو سکے افغان طالبان قیادت مذاکرات کے ذریعے مسئلے کا حل نکالے ،تاکہ دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات مثالی ہی رہیں،پاکستان دوستی اور ہمدرسی میں سب کچھ کرسکتا ہے ،مگر اپنی سرحدوں کے تقدس و حفاطت پر کوئی سمجھوتہ نہیں کرسکتا ہے۔