آئی ایم ایف کے ضمنی بجٹ کا کھیل! 112

اپوزیشن لانگ مارچ اور عوام کی بدلتی سوچ

اپوزیشن لانگ مارچ اور عوام کی بدلتی سوچ

کالم نگار: تحریر :شاہد ندیم احمد

تحریک انصاف حکومت اپنی مقررہ مدت پوری کرنے کی دعوئیدار ہے ،جبکہ اپوزیشن یقین دالانے میں کوشاں ہے کہ حکومت بہت جلد گھر جانے والی ہے ،ایک طرف پی ڈی ایم نے حکومت کے خلاف لانگ مارچ کا اعلان کر رکھا ہے تو دوسر ی جانب بلاول بھٹو زرداری بھی اپنے لانگ مارچ کی تیاریوں میں لگے ہوئے ہیں ، یہ دونوں لانگ مارچ کراچی سے شروع ہوں گے اور دونوں کا مقصد ایک ہی ہے کہ حکومت ہٹا نا ہے ، اگر اپوزیشن مل کر لانگ مارچ کرتی تو اس سے دبائو بڑھنا تھا

،لیکن دوالگ لا نگ مارچ سے صاف لگ رہا ہے کہ سب کچھ سیاسی پوائنٹ سکورنگ کے لئے کیا جا رہا ہے، اس کا مقصد حکومت گرنا نہیں ،بلکہ عوام کو اپنے ہونے کا احساس دلانا ہے۔یہ امر واضح ہے کہ اپوزیشن کے لانگ مارچ کے ذریعے حکومت گرانے کے دعوائے میں کوئی وزن نہیں رہا ہے ،کیو نکہ اس سے قبل ایک لانگ مارچ انہیںدعوئوں کے ساتھ ناکام ہو چکا ہے ،اپوزیشن ایک طرف لانگ مارچ کے اعلانات کرتی ہے تو دوسری جانب نئے انتخابات کا مطالبہ دہراتی نظر آتی ہے ،اگر دیکھا جائے تو اپوزیشن جماعتیں لانگ مارچ کیلئے متحد ہیں نہ فوری انتخابات کے لئے تیار ہیں،

اپوزیشن جماعتیں صرف زبانی کلامی نئے انتخابات کا مطالبہ ضرور کرتی ہیں ، جبکہ اس مطالبے کے حق آج تک مل کر ایک پریس کانفرنس بھی نہیں کر سکیں ہیں،اس سے ایسا لگتا ہے کہ یہ سب حکومت کی بجائے ایک دوسرے سے خوفزدہ ہیں کہ کہیں کوئی مقتدر قوتوں سے چپکے سے ڈیل نہ کرجائے،اپوزیشن قیادت بظاہر اتحاد کی باتیںکرتے ہیں،مگر اندر خانے ایک دوسرے پر اعتماد کرنے کیلئے تیار نہیں ہیں۔اس حوالے سے پی ٹی آئی حکومت خوش قسمت رہی ہے کہ انہیں ایسی اپوزیشن ملی کہ جو اپنے اندر متحد نہیں ہے ،اس کا بظاہرایک ہدف نطر آتا ہے،

لیکن سب کے راستے جدا ہیں، اس لیے حکومت کو ان ساڑھے تین برسوں میں کبھی کسی ایسی صورتِ حال کا سامنا نہیں کرنا پڑا کہ جو اس کے لئے واقعی کسی خطرے کا باعث بن سکے،حکومت کیلئے ایک وقت ایسا ضرور آیا تھا کہ جب پی ڈی ایم اپنے مقصد کے قریب پہنچ گئی تھی،لیکن اس وقت پیپلزپارٹی نے چلتی ٹرین سے چھلانگ لگا دی، یہ اپوزیشن کیلئے بہت بڑا جھٹکا تھا ،اس جھٹکے کے بعدسے اپوزیشن ابھی تک سنبھل نہیں سکی ہے۔
اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جاسکتا

کہ پی ڈی ایم سے اچانک انخلا کے بعد پیپلزپارٹی کی ساکھ کو بہت نقصان پہنچا ہے، اس پر ڈیل کے الزامات لگے، آصف علی زرداری کے نوازشریف کے خلاف بیانات نے بھی ڈیل کے تاثر کو مضبوط کیا،ایک وقت تو ایسا بھی آیاکہ جب پی ڈی ایم اور پیپلزپارٹی ایک دوسرے کے مد مقابل آ کھڑی ہوئیں اور پیپلزپارٹی کو حکومت کی بی ٹیم قرار دیا جانے لگا،اس وقت کچھ عرصے کے لئے تو واقعی پیپلزپارٹی منظر سے بطور اپوزیشن پارٹی غائب ہو گئی تھی،اس ڈیل میں پیپلز پارٹی نے کتنا پایا اور کیا کچھ کھویا ،اس سے قطع نظر پیپلز پارٹی ایک بار پھر بحیثیت اپوزیشن پارٹیلانگ مارچ کے ذریعے خود کو منوانے کیلئے کوشاں ہے ۔
اس میں کوئی دورائے نہیں کہ اس وقت اپوزیشن کی جانب سے لانگ مارچ اور احتجاجی ریلیوں کا مقصد حکومت گرانا نہیں ،بلکہ اپنے ہونے کا احساس دلاتے ہوئے آئند انتخابات کیلئے تیاری ہے ،کیو نکہ اگلا سال ہر صورت انتخابات کا ہے، اس لئے کوئی سیاسی جماعت خاموش ہو کر بیٹھے رہنا نہیں چاہتی ہے، پی ڈی ایم کے لانگ مارچ کے اعلان کے بعد پیپلزپارٹی بھی لنگر لنگوٹ کس کے میدان میں آ گئی ہے،دونوں ہی[ بڑھتی مہنگائی کا فائدہ اُ تھا تے ہوئے

حکومت مخالف عوام کو متحرک کرنا چاہتے ہیں،اس وقت پیپلزپارٹی کو کم از کم پنجاب کی حد تک ویسے بھی ایک بڑے سیاسی شو کی ضرورت ہے،حکومت مخالف لانگ مارچ کے بڑے قافلے سندھ سے پنجاب میں داخل ہوں گے تو لاہور تک آتے لانگ مارچ کے شرکاء کی تعداد اتنی ضرور ہو جائے گی کہ پیپلزپارٹی کی کچھ نہ کچھ لاج باقی رہ جائے گی۔
تحریک انصاف حکومت پر اپوزیشن لانگ مارچ اور تحریکوں کا پہلے کوئی اثر پڑا ہے نہ آئندہ کوئی اثر پڑنے والا ہے ،اگر پی ڈی ایم اور پیپلز پارٹی اسلام آباد میں متحدد ہونے کی کوشش کرتے ہیں تو حکومت پرکچھ دبائو ضرور آسکتا ہے ،مگر اس کا کوئی امکان نظرنہیں آرہا ہے ، اس لیے بے رنگ لانگ مارچ کے نتائج بھی بے رنگ ہی ہوں گے، پیپلزپارٹی تو ویسے بھی دھرنا سیاست کی قائل نہیں، وہ اسلام آباد پہنچ کر ایک جلسے کی بعد کارکنوں سمیت گھروں کو لوٹ جائے گی،

البتہ مولانا فضل الرحمن اپنی حکمت عملی کو خفیہ رکھے ہوئے ہیں، تاہم پی ڈی ایم میں شامل مسلم لیگ (ن) بالکل واضح ہے کہ دھرنا سیاست ان کا بھی شیوہ نہیںہے، اس لیے مسلم لیگ (ن) کے رہنما ابھی سے کہہ رہے ہیں، لانگ مارچ کا حتمی فیصلہ نہیں ہواہے، اس بارے میں پی ڈی ایم کے پلیٹ فارم سے جلد کوئی فیصلہ کیا جائے گا،یہ اپوزیشن کی ساری باتیں حکومت گرانے کے لیے نہیں ،بلکہ سیاسی ریلیف دینے کے مترادف ہیں، تاہم اس صورت حال میں اب عوام نے سوچنا ہے کہ انہوں نے ایک بار پھر آزمائے کو دوبارہ آزمانہ ہے یا دوسری نئی متبادل قیادت سے ایک بار پھر اُمیدیں لگانی ہیں!

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں