سوچیے گاضرور 125

سوچیے گاضرور

سوچیے گاضرور

کالم۔ثناء اللہ گھمن۔

ہرآنے والے بجٹ سے عوام کی امیدیں وابستہ ہوتی ہیں،مہنگائی،غربت اوربے روزگاری کی دلدل میں دھنسی عوام کی منی بجٹ سے بھی بہت سی توقعات تھیں،جواس وقت دم توڑ گئیں،جب حکومت کی طرف سے 144 اشیاء ضروریہ پرٹیکس نافذکرنے کی تجویز پیش کی گئی،منی بجٹ سے حکومت کو فقط 343ارب روپے ریونیوحاصل ہوگا،لیکن اس کے مقابلہ میں کئی حدتک غربت میں بھی اضافہ ہوگا، اگران کی جگہ فقط بیماریوں کی وجہ بننے والے عوامل تمباکواورمیٹھے مشروبات پرٹیکس میں اضافہ کردیاجاتا،توسالانہ بنیادپرایک کھرب روپے سے زائد ہیلتھ برڈن کم ہوتا،بیماریوں سے چھٹکارہ ملتااوراربوں روپے ریونیوبھی حاصل کیاجاسکتاتھا۔

بجٹ ایک مخصوص مستقبل کی مدت میں آمدنی اور اخراجات کا تخمینہ ہے،جوعام طورپر متواتر بنیادوں پر مرتب اور دوبارہ جائزہ لینے کے بعداراکین پارلیمان کے روبرو پیش کیاجاتاہے،ریاست بجٹ ریونیوکے حصول کے ساتھ ساتھ اپنی عوام اوراداروں کی ضروریات،وسائل اورمسائل کومد نظررکھ کرتیارکرتی ہے،یاکرناچاہیے۔ایک اضافی بجٹ کا مطلب ہے کہ منافع متوقع ہے، ایک متوازن بجٹ کا مطلب ہے

کہ آمدنی سے اخراجات کے مساوی ہونے کی توقع ہے، اور خسارے والے بجٹ کا مطلب ہے کہ اخراجات آمدنی سے بڑھ جائیں گے،حالیہ منی بجٹ بھی کچھ ایسی ہی صورت حال کوپیش کرتادکھائی دے رہاہے،اگر144اشیاء پرلگائے جانے والے ٹیکس کی منظوری مل گئی توعمل درآمدکے بعد عوام کے اخراجات اپنی آمدن سے زائد ہوجائیں گے،جس کے نتیجے میں مہنگائی،غربت اوربے روزگاری میں مزید اضافہ کے امکانات روشن ہوجائیں گے۔

اس تمہیدکامقصد ہرگزآپ کویہ بتانانہیں کہ میرے معزز قارئین بجٹ کے معنی سے ناواقف ہیں،نہیں ہرگزنہیں،درحقیقت میں حالیہ پیش کیے جانے والے منی بجٹ اوراس کے اثرات کی طرف آپ کی ذراسی توجہ چاہوں گا۔

25اپریل 2021میں Pakistan Institute of Development Economics(پائیڈ) کی رپورٹ کے مطابق دنیا کے سب سے زیادہ تمباکو استعمال کرنے والے ممالک میں شامل پاکستان میں تمباکوصارفین کی تعداد 24 ملین ہے،جب کہ 2019 میں تمباکو نوشی کی وجہ سے پیداہونے والی بیماریوں اور اموات پر ہونے والے کل اخراجات 615.07 بلین روپے خرچ آئے،جن میں دوسال کی مدت گزرنے کے باعث یقینا اضافہ بھی ہواہے

،اوراس کے مقابلہ میں تمباکوصنعت فقط 120بلین روپے بطورٹیکس اداکرتی ہے،جوتمباکو نوشی کی کل لاگت کا صرف 20 فیصد تھا،ہرسال تمباکوانڈسٹری، تمباکو کی مصنوعات پر زیادہ ٹیکس نافذ کرنے کی تجویزکو تمباکو کی مصنوعات کی غیر قانونی تجارت میں اضافے سے منسوب کرتی ہے جوحقائق سے یکسرمختلف ہیں،تحقیق کے مطابق، تمباکو نوشی سے منسوب کینسر، قلبی اور سانس کی بیماریوں کی کل براہ راست اور بالواسطہ لاگت 437.76 بلین روپے ہے، جو تمباکو کی صنعت سے حاصل ہونے والی مجموعی ٹیکس آمدنی (2019 میں 120 ارب) سے 3.65 گنا زیادہ ہے،

درحقیقت میں تمباکو کے استعمال سے اس کے افراد کو براہ راست اور بالواسطہ بھاری قیمت ادا کرنی پڑتی ہے،ایک حقیقت یہ بھی ہے کہ تمباکو نوشی سے ہونے والے اخراجات کا بڑا حصہ (71 فیصد) کینسر، قلبی اور سانس کی بیماریوں کی وجہ سے آتا ہے،جوتمباکو نوشی سے متعلق کل لاگت جی ڈی پی کا 1.6 فیصد ہے، جب کہ کینسر، قلبی اور سانس کی بیماریوں کی سگریٹ نوشی سے منسوب لاگت جی ڈی پی کا 1.15 فیصد ہے۔

میرے پاکستانیوں کودل،ذیابیطس،موٹاپا،کینسر جیسے مہلک امراض کاسامناہے،پاکستان میں روزانہ 1100افراد ذیابیطس کی وجہ سے زندگی کی بازی ہارجاتے ہیں،اس کے ساتھ ذیابیطس سے جڑی بیماریوں پرحکومت کوسالانہ 2640ملین یوایس ڈالرہیلتھ برڈن کاسامناہے،مختلف ممالک کی 8اسڈیز ہمیں بتاتی ہیں

کہ میٹھے مشروبات کے استعمال سے 30فیصد ذیابیطس ہونے کاخطرہ بڑھ جاتاہے،اسی طرح موٹاپاغیرمواصلاتی امراض میں نہایت اہم مرض ہے،جودل،سانس اوردیگربیماریوں کی ایک بڑی وجہ ہے،2015میں موٹاپا سے جڑی بیماریوں پرحکومت کو428بلین یوایس ڈالر کے ہیلتھ برڈن کاسامناتھا،جس کی ایک بڑی وجہ میٹھے مشروبات کااستعمال سمجھی جاتی ہے۔

اگرہم دل،کینسر،ذیابیطس،موٹاپا،سانس سے جڑی بیماریوں پرآنے والے کل اخراجات کا جائزہ لیں تویہ ایک کھرب روپے سے تجاوز کرجاتے ہیں،اس کے مدمقابل حالیہ پارلیمنٹ میں پیش کیے جانے والے منی بجٹ میں ریونیوکاکل تخمینہ 343ارب روپے لگایاہے،جوعام افراد کی ضرورت کی اشیاء پرٹیکس میں اضافہ کرکے حاصل کیاجائے گا،جس سے غربت،مہنگائی اوربے روزگاری میں بتدریج اضافہ ہوگا،

جب کہ فقط مذکورہ بیماریوں کی وجہ بننے والے عوامل پراگر ٹیکس میں اضافہ کردیاجائے تونہ صرف بیماریوں پرقابوپالیاجائے گا،بلکہ بیرونی ملک سے حاصل کیے جانے والے قرضہ جات سے نجات ملے گی،اور اربوں روپے ریونیوکے حصول کا ذریعہ بھی ثابت ہوگا۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں