انسانیت نہیں تھی 144

انسانیت نہیں تھی

انسانیت نہیں تھی

جمہور کی آواز ایم سرور صدیقی

وہ خوشی سے اٹھلاتی پھررہی تھی ایک بارپھر اپنے بہن بھائیوںسے ساتھ دورکہیں دور سیرکوجانا تھا اسے جب بھی مری،ایوبیہ،نتھیاگلی جانے کا موقعہ ملتاوہ اسی طرح خوش اور شاماں ہوجاتی شبنم جب پہلی بارمری گئی تو دودن تو اسے یوں لگتارہاکہ اچانک پہاڑوں سے کوئی پری آواردہوگی اور اسے اپنے پروںپربٹھاکردورکہیں دور سیرکیلئے اپنے ساتھ لے جائے گی شبنم کیلئے پہاڑوں میں جانا ہمیشہ خوابناک رہاہے

وہ خوابوں اور خیالوںمیں کھوئی ہوئی تھی کہ ماما کی آواز گونجی میںصبح سے کئی بارکہہ چکی تھی کہ جلدی تیارہوجائو لیکن کوئی سنتاہی نہیں۔‘‘چلو بیگم کوئی بات نہیں سکندرصاحب نے مسکراتے ہوئے کہا بچے ہرسال اسی طرح تیاری کرتے ہیں’’ پاپا آپ گاڑی نکالیں۔۔عمرکمرے سے ہی اونچی آوازمیں بولا۔۔میں کوٹ لے کر آیا
’’بس میں نے صرف جوتے پہننے ہیں علی نے کہا بس ابھی آیا۔میںنے اپنی ڈول لے لی ہے۔۔پریہ نے توتلے اندازمیں کہا توسکندرصاحب کو بے اختیاراس پر پیار آگیاوہ اس کے گال تھپتھپاکرکہنے لگے تم تو خود ایک پیاری سی ڈول ہو۔تھوڑی ہی دیر میں وہ اپنی گاڑی میںمری کی جانب رواں دواں تھے۔مری کے پہاڑ بہت خوبصورت ہیں اعجازنے کارڈرائیوکرتے ہوئے کہا جس طرح لاہورلوگوںکو مسحورکردیتاہے مری کی فضا میں بھی ایک جادوہے
’’اسی لئے تو اسے ملکہ کہسارکا خطاب دیاگیاسیمی نے جواب دیاجوواقعی اس پر جچتاہے۔اعجازنے اپنے بیٹے بیٹی کی طرف دیکھ کر کہامیرے لئے توتمہاری ماں بھی کسی ملکہ سے کم نہیں۔
بس سکون سے گاڑی چلائو۔۔سیمی نے سرہٹاکر اپنے شوہرکودیکھا جو اسے چوری چوری محبت بھری نگاہوں سے دیکھ رہے تھے رات سے پہلے پہلے اپنے ہوٹل پہنچ جائیں سردی بھی بڑھتی جارہی ہے
گرم کپڑے اور دو کمبل میں نے رات ہی کو گاڑی میں رکھ دئیے تھے اعجاز نے بل کھاتی سڑک پر نگاہیں جماتے ہوئے اونچی آوازمیں کہا یار۔۔سلیم تم توکوئی سیلفی بنالو یا ویڈیوبنالوبابا سلیم تو کب سے ویڈیوبنارہاہے نیلم نے بتایاہے اسے تو مووی بنانے کا خبط ہے۔
یہی تو یادیں ہوتی ہیں سیمی نے کہا سنہری یادیں جب دیکھ لو ماضی فلم بن کر آنکھوںکے سامنے آجاتاہے۔
لگتاہے پورا پاکستان مری آگیاہے راجہ ریاض بڑبڑایا اف خدایا اتنا رش ۔۔اتنی گاڑیاں’’دیکھنااب ہوٹلوں والے انھی ڈال دیں چیزیں مہنگی سے بھی مہنگی کردیں گے جاوید نے غصے سے کہایہ پاکستانی تاجرموقعہ سے خوب فائدہ اٹھانا جانتے ہیں’’کم بخت نمازیں بھی پڑھتے ہیں اور حج پربھی جاتے ہیں اقبال نے لقمہ دیالیکن عوام کا ذرا خیال نہیں کرتے’’کیونکہ ان کا خیال ہے عبادت الگ چیزہے کاروبار الگ چیز شاہدرحمانی نے فلسفہ بھگارتے وئے جواب دیا’’ ان لوگوںکو ذرا خداکا خوف نہیں ہے ملک عارف بولا۔
یار آج اتنارش دیکھ کر نہ جانے کیوںراجہ ریاض نے بڑی یاسیت سے آہ بھرکرکہا مجھے خوف سا آرہاہے۔’’یار ہم ہرسال یہاں آتے ہیں اقبال بولا کاہے کا ڈر اور خوف ہم نے ہمیشہ یہاں آکرانجوائے کیاہے’’خداخیرکرے سردی بھی بڑھتی جارہی ہے ملک عارف نے کپکپاتے ہوئے کہا لگتاہے موسم خراب ہورہاہے۔
’’ جناب موسم خراب نہیں ہورہاہے شاہدرحمانی نے دیدے گھماکرکہا موسم خراب ہوگیاہے لیکن سنو فال دیکھنے کااپناہی مزاہےاتنے زیادہ سیاح۔ حکومت کا کہنا تھا اس سال ایک لاکھ سے زیادہ گاڑوںمیں سیاح مری میں آئے ہیں جس کے باعث پورے علاقہ میںمختلف گاڑیوںکا اژدھام، ہوٹل،سڑکوں،دکانوںپررش ہی رش تاجروںنے ہر چیزکی قیمت بڑھادی وہ زیادہ سے زیادہ منافع کماناچاہتے تھے

ایک گاہک جاتاتو کئی اور آجاتے شدید سردی کے باوجودمری میں خاصی چہل پہل تھی رنگ برنگے کپڑوں میںملبوس خواتین اور بچے عجب بہاردکھارہے تھے سنو فال دیکھنے والے قدرتی حسین مناظر پرمبہوت ہوکررہ گئے فلک پوش پہاڑ، سڑکیں،درخت،ہوٹلوںکی چھتیںاور دکانیں برف سے ڈھک گئیں ماحول پر سردی غالب آنے لگی یوںلگ رہاتھا جیسے ہرچیزنے چاندنی اوڑھ لی ہو ۔ ہوٹلوں سے کھاپی کرسیاح سیرکو نکل کھڑے ہوئے

ان کی منزل گلیات،مری، نتھیا گلی،ایوبیہ،گھوڑا گلی،ھیکا گلی سے لوئر ٹوپہ ایکسپریس ہائی وے، جھیکا گلی یاپھر لارنس کالج تھی لوگ اپنے دوستوں،عزیزو اقارب اور بیوی بچوںکے ساتھ انجوائے کررہے تھے کہ سنوفال کی بجائے آسمان سے برف گرنے لگی لگتا تھا جیسے برف کاایک خوفناک طوفان آگیاہو ملک کے طول و عرض سے آئے ہوئے لاکھوں سیاح کے دل خوف سے لرزاٹھے برف کا طوفان بڑھتاہی جارہاتھا

دلوںمیں اندیشے،وسوسے،خوف و ہراس کے سائے منڈلانے لگے برفباری سے سڑکیں بندہونے لگیں،بوڑھے درخت زمین بوس ہوگئے گاڑیوںپر برف کی تہہ جمنے لگی اب لوگ سردی سے کپکپانے لگے گاڑیاں برف میں پھنس کررہ گئیںکچھ سیاحوں ڈورکر قریبی ہوٹلوںکارخ کیا ہوٹل انتظامیہ نے اچانک قیمتوںمیں ہوشربا اضافہ کردیا فیملیز سے ایک رات کے کمرے کا کرایہ50000طلب کیا ایک سیاح نے ان کی منتیں،ترلے بھی کئے کہ سردی سے ان کی بچوںکی حالت خراب ہے لیکن کسی کو ذرا ترس نہیں آیا

ایک ابلا ہوا انڈہ500کا فروخت ہونے لگا مصیبت کے ماروں سے مقامی لوگ برف میں پھنسی چھوٹی گاڑی کا دھکہ لگانے کا3000 اور بڑی گاڑی کا5000وصول کرنے لگے مری میں برفانی طوفان کے دوران انسانیت روتی، تڑپتی اور سسکتی رہی، لیکن اسی دوران منافع خوروں کی چاندی ہوگئی اور انہوں نے آنکھیں بند کرکے صرف منافع کمایا کسی کااحساس نہیں کیا۔سکندرصاحب نے برف کا طوفان دیکھاجو وقت کے ساتھ ساتھ بڑھتاہی چلاجارہاتھاان کی گاڑی بھی برف میں پھنس گئی سردی سے ان کے بچوںکودانت بجنے لگے

وہ اس وقت کو کوسنے لگے جب وہ اپنی فیملی کے ساتھ یہاں آئے تھے ان کی بیگم نے کہا جناب کچھ کریں ورنہ یہاں ہماری قبریں بن جائیں گی ۔’’گرم کپڑے نکال کربچوںکوان میں لپیٹ دوسکندرصاحب نے کہا میں گاڑی کا ہیٹر آن کرتاہوں تھوڑی دیر بعد انہیں سردی کااحساس کم ہوگیا لیکن برف متواتر گررہی تھی پھر یوںہوا ان پر نیندغالب آتی چلی گئی اب وہ گہری نیندمیں تھے انہیں پتہ بھی نہیں

چلاکہ وہ کب موت کی گہری نیندمیں چلے گئے ہیں۔اعجاز اچانک موسم خراب ہونے کے باعث سخت پریشان ہوگیا تھا کبھی اس کو ایسی صورت ِحال سے پالہ نہیں پڑا تھا اس نے سردی کا مقابلہ کرنے کے لئے گاڑی کا ہیٹرآن کررکھا تھا پھر اسے ایک خیال آیا اور وہ کانپ کررہ گیابہت عرصہ قبل اس کے ایک کار مکینک دوست نے بتایا تھا کہ گاڑی کا انجن آن ہو اور اس کا ایگزاسٹ سائیلنسر پائپ برف میں دھنسا یاکسی وجہ سے بند ہوجائے

تو کاربن مونوآکسائیڈ گیس باہر جانے کے بجائے گاڑی کے اندر جمع ہوجاتی ہے جس کا مطلب ہے یقینی موت ۔۔ اعجاز نے اپنے گھروالوںکو کچھ بتائے بغیر دل ہی دل میں اس صورت ِ حال کا مقابلہ کرنے کا فیصلہ کرلیا صبح ہوئی تو اسے یقین ہی نہیں آیا وہ زندہ ہیں شاید اس کی وجہ اس کی حکمت ِ عملی تھی

جس کے تحت وہ کار میں موجود ہونے کے باوجود شاید اس لیے بچ گئے کیونکہ وہ بار بار گاڑی کے شیشے نیچے کرتے رہے ہیں، گاڑی سے باہر نکلتے رہے، صبح مقامی افراد نے مدد کی کھانا دیا۔ طوفان اتنا شدید تھا کہ کچھ نظر نہیں آیا، کوئی مدد کو نہیں آیا، موٹر وے پولیس اور ہیلپ لائن سے رابطہ نہیں ہوسکا اس کے قریبی دو کارسوار فیملیز موسم کی بے رحمی کی بھینٹ چڑھ گئی تھیں۔
راجہ ریاض نے شاہدرحمانی سے کہا یار میرے باپ کی بھی توبہ میں آئندہ یہاں کبھی نہیں آئوں گا اتنے ظالم موسم اور اتنے بے رحم تاجر اللہ کسی دشمن کوبھی نہ دے ملک عارف اور اقبال بھی پریشان تھے وہ سوچ رہے تھے

اتنی خراب صورت ِ حال میں انتظامیہ نہ جانے کہاں سوئی مری پڑی ہے وہ دل ہی دل میں دعائیں مانگتے رہے لیکن کسی طرف سے کوئی مددنہ ملی چاروں جانب برف ہی برف تھی اوپر سے افتاد آن پڑی کہ مری میں اچانک بجلی بندہوگئی چہارسو اندھیرا،برف،سردی سڑکیں بندمری کی شاہراہوں پر ٹریفک بند ہونے کے باعث برف ہٹانے والی مشینری کے ڈرائیورز بھی بروقت موقع پر نہ پہنچ سکے سردی سے بچنے کے لئے

انہوں نے گاڑی کا ہیٹر آن کردیا پھرکچھ دیربعدوہ نیم بے ہوش ہوگئے کاربن مونوآکسائیڈ گیس ان کی سانسوںمیں شامل ہوگئے کیونکہ فقط ڈیرھ منٹ میں کاربن مونوآکسائیڈ گیس سے انسان بے ہوش ہو جاتاہے اس کے بعد 20-15منٹ میں موت واقع ہو جاتی ہے صبح چاروں دوستوںکی لاشیں دیکھ کر ایک کہرام مچ گیا مری کے مختلف علاقوں میں بجلی نہ ہونے،تاجروں کے ناروا رویہ،مہنگائی اور موسم بارے

زیادہ آگہی نہ ہونے کے باعث سیاحوں نے ہوٹلز چھوڑ کر گاڑیوں میں رہنے کو ترجیح دی مری سانحہ میں راولپنڈی کا 6افرادپر مشتمل پورا گھرانہ ہی موت کی وادی میں چلا گیا سوشل میڈیا کی ایک پوسٹ میں ایک دلخراش واقعہ درج ہے ایک شخص نے کمرہ لینے کے لئے ایک ہوٹل والے کے آگے ہاتھ جوڑ دئیے لیکن وہ کم پیسوںمیں کمرہ دینے پر راضی نہیں ہوا وہ لوگ سخت سردی میں ٹھٹھرکرجاں بحق ہوگئے

اب پنجاب حکومت کو سانحہ مری کے حوالے سے ابتدائی تحقیقاتی رپورٹ میں کہا گیاہے کہ مری اور گرد و نواح میں موجود سڑکو ں کی گزشتہ دو برس سے جامع مرمت نہیں کی گئی تھی اور گڑھوں میں پڑنے والی برف سخت ہونے کے باعث ٹریفک کی روان میں رکاوٹ پیدا ہوئی جبکہ مری میں موجود ایک نجی کیفے کے باہر پھسلن ہونے کے باوجود کوئی حکومتی مشینری موجود نہیں تھی، اور اسی پھسلن والے

مقام پر مری سے نکلنے والوں کا مرکزی خارجی راستہ تھا، سیاحوں کے مری سے خارجی راستے پر برف ہٹانے کے لیے ہائی وے کی مشینری موجود نہیں تھی مری میں ایسا کوئی پارکنگ پلازہ موجود نہیں جہاں گاڑیاں پارک کی جا سکتیں، مری میں برف میں پھنسے ہوئے خاندانوں کو اہلیان مری پانچ سو روپے کا ایک انڈہ فروخت کر رہے تھے، ہوٹل کمرے کا کرایہ تیس ہزار سے پچاس ہزار مانگ رہے تھے

اور پانی کی بوتل پانچ سو کی بیچ رہے تھے۔ چھوٹی گاڑی کو دھکا لگانے کا تین ہزار اور بڑی گاڑی کو دھکا لگانے کا پانچ ہزار لے رہے تھے۔ آج سارے مددگار بنے ہوئے ہیں ہوٹل مالکان بھی نیک بن گئے منافق قوم کسے کہتے ہیں سانحہ ٔ مری نے ان تمام چہروںکو بے نقاب کرکے رکھ دیاہے ۔حکومتی اقدامات،انتظامیہ کے دعوے ،

ریسکیو کیمپ اب دنیا جہاں کے اخبارات میں سستی شہرت حاصل کرنے والے بیان بازی کررہے ہیں شاید اسے ہی مگرمچھ کے آنسو کہاجاسکتاہے شنیدہے مری میں وسیع و عریض گورنرہائوس خالی تھا،وزیر ِ اعلیٰ ہائوس بھی موجودہے ،آرمی کے 20 ریسٹ ہائوس بھی تھے،ہوٹلوںمیں بھی جگہ تھی ایک نہیں تھی تو کسی میں انسانیت نہیں تھی۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں