154

سانحہ مری المیہ بھی، قومی سانحہ بھی

سانحہ مری المیہ بھی، قومی سانحہ بھی

تحریر: ایس ایم طیب

عالمی سطح پر سانحہ مری پر اظہار افسوس کیا گیا اگر ہم اس سانحے کے تلخ پہلوؤں کا جائزہ لیں تو رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں میزبان مہمان نوازی کرتا ہے تاہم مری کے مکینوں نے بالخصوص ہوٹل مالکان نے مہمانوں کو لوٹنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی- صبح و شام حرام حلال کی رٹ لگانے والوں کو شائد یہ معلوم نہیں کہ کسی کی مجبوری سے ناجائز فائدہ اٹھانا بھی حرام کے زمرے میں آتا ہے لیکن المیہ یہ ہے کہ ہمارے معاشرے میں حرام کو حرام سمجھا ہی نہیں جاتا جن قوموں نے حرام کی کثرت کررکھی تھی

مثلاً ناپ تول میں کمی یعنی اللٰہ کے واضع احکامات کی روگردانی کی تو مالک کل نے ایسی قوموں پر عذاب نازل کیے اور وہ اقوام اپنی بستیوں سمیت دنیا سے مٹ گئیں ان میں سے بعض جگہوں پر وسیع و عریض سمندر تو موجود لیکن انسانی بستی آج بھی بننا ناممکن ہے۔ خدا نے اپنے کلام پاک میں بار بار اپنی نشانیوں کے بارے میں اشارے فرمائے اس کے باوجود ہم بے حس اور بے بہرہ ہیں شائد ہم ہدائت کے طلبگار نہیں۔

سانحہ مری صرف ایک سانحہ ہی نہیں بلکہ ہمارا قومی المیہ ہے۔ قومی المیہ اسلئے کہ نہ صرف مری بلکہ دیگر سیاحتی مقامات پر بھی کبھی قانون گرانفروشی، ناجائز فروشی، غیرمعیاری مصنوعات، ہوٹل کے مہنگے ترین کرایوں اور مجبوری کی بنا پر ناجائز رقم کی وصولیوں پر حرکت میں نہیں آیا بلکہ ہمارے پورے ملک میں حال اس سے مختلف نہیں- آپ خود تجزیہ کرلیں کہ ملک بھر کی میونسپل کمیٹییز کے علاقوں اور کنٹونمنٹ کے علاقوں میں اشیائے خوردونوش کی قیمتوں میں زمین و آسمان کا فرق ہوتا ہے

اور ہم صاف چلی شفاف چلی کی بات کرتے ہیں اور اس ترانے کے الاپ پر بھنگڑے ڈالتے ہیں لیکن اس “صاف چلی شفاف چلی” کے اثرات تاحال قوم نہ دیکھ سکی جوکہ کسی المیہ سے کم نہیں ہے- گذشتہ حکومتوں کو صبح و شام لتاڑنے والے لیڈر بھول گئے کہ ان کےپانچ سالوں کے بعد پھر الیکشن ہوگا اور اسمیں کارکردگی کی بناء پر ترازو کا پلڑا دیکھنا پڑے گا، لیکن یہاں صاحب کل کس نے دیکھی آج ہی جتنا بٹور سکے بٹور لیا۔ خوف خدا سے بے بہرہ سابقہ قوموں کی طرح کا عذاب آج آنا بھی کوئی معیوب بات نہیں ہے

کیونکہ حکمرانوں کے کرتوتوں کی سزا رعایا کو بھگتنا پڑتی ہے جوکہ کسی انسان کا قول نہیں یہ تو خدائی فیصلے ہیں، یہ بھی تو خدائی فیصلہ ہے کہ جیسی رعایا ہو حکمران بھی ویسے ہی مسلط کردئیے جائیں گے۔ کیا یہ ہم بھول گئے کہ چند برس قبل انتہائی دل دہلادینے والا سانحہ مظفرآباد بھی ہمارے ہی ملک میں ہوا اور پورے ملک اشک باررہا اور تاحال جب بھی اسطرف دھیان جاتا ہے الامان الحفیظ کا ورد زبان پہ جاری ہوجاتا ہے

لیکن کیا ہم نے اس سانحہ سے بھی کوئی سبق سیکھا تھا؟؟؟ یقیناّ نہیں۔ خدائے لم یزل نے واضع فرمایا کہ جب تم میری حکم عدولی کرتے ہو تو تم پر غلہ و اناج کا قحط نازل کردیتا ہوں، گمراہیوں میں پڑجانے والوں کی بستیوں پر تیز ہواوں، طوفانوں، بارشوں اور زلزلوں سے عذاب مسلط کرتا ہوں اور کیا ہم نے کبھی سوچا کہ یہ سب ہورہا ہے اور ہم پھر بھی گمراہی کا شکار ہیں خوف خدا جاتا رہا تجوریوں کو بھرنا ہی مقصود زندگی رہ گیا

تو کیا ایسی سزاوں پر تعجب ہے ابھی بھی؟؟صاحب لوگ کہیں گے کہ صرف صاف چلی شفاف چلی کی بات کئے جارہے ہو- ارے صاحب۔۔۔ہرسیاسی جماعت نے نعرے لگائے، اپنے اپنے منشور پیش کئے لیکن سب سے زیادہ شہرت حاصل کرنے والے نعرے آپ کے ہی تھے جوکہ پوری دنیا تسلیم کرچکی تھی، سب سے زیادہ آپ کے ہی تبدیلی اور شفافیت کے نعروں کو مقبولیت ملی، وائرل ہوئے لیکن اب کیا ہوا کہ سب ہی تبدیلی کے نعرے عملی طور پر ہوا ہوگئے، بقول حبیب جالب

سرِمنبر وہ خوابوں کے محل تعمیر کرتے ہیں
علاجِ غم نہیں کرتے فقط تقریر کرتے ہیں

آپکی جماعت میں مقامی سطحوں پر سیاسی طور پر نوٹیفکیشنز حاصل کرنے والے رہنماوں کی بہت بڑی تعداد صرف فوٹوسیشنز کو ہی مقدم جانتی ہے، ضلعی و تحصیلی سطح پر اداروں کو یرغمال بنارکھا ہے جہاں سے تبدیلی کا آغاز ہونا تھا وہ تو خود ان نام نہاد آپکے سیاسی نوٹیفکیشنز کی بھینٹ چڑھ چکے،

کرپٹ محکموں کو تحفظ فراہم کرنے میں مصروف ہیں تو کیسی شفافیت اور کیسی تبدیلی۔۔۔۔ یہ تو پہلے بھی ہوتا رہا ہے نیا کیا ہے اور کہاں ہے نیا پاکستان۔۔۔۔۔؟؟ اور اس طرح عملی طور پر کارکردگی منفی صفر ہے- روٹی مہنگی، اشیائے خوردونوش، ضروریات زندگی کی اشیاء ہی نہیں بلکہ روزمرہ کی پٹرول مصنوعات بھی غریب کی پہنچ سے دور ہوچکے، بقول شاعر

شام ہونے کو ہے گھر جاتے ہیں
اب بلندی سے اُتر جاتے ہیں
زندگی سامنے مت آیا کر
ہم تجھے دیکھ کے ڈر جاتے ہیں

پھر کیسی تبدیلی، کیسے دعوے اور اب تو وقت ہی کم رہ گیا کیا کریں گے پانی تو آپ کے سر سے گذرتا جارہا ہے، حالیہ کنٹونمنٹ اور ضمنی انتخابات نے آپکی کارکردگی کا نتیجہ سامنے لاکے رکھ دیا ہے، بقیہ نتائج بلدیاتی انتخابات میں نظر آہی جائیں گے پھر بھی کسی خوش فہمی میں مبتلا ہیں، آپکے ملک میں ہر اچھے کئے ہوئے کام کو بھی اب خاص پذیرائی حاصل نہیں ہو رہی جوکہ حیرت کی بات ہے-

ان لاکھوں پاکستانیوں کا کیا قصور ہے جو آپکو کنٹینر میں تقریر کرتے دیکھ کر جذباتی آنسووں کیساتھ تبدیلی کی دعائیں مانگتے تھے اور میری آنکھوں نے وہ رقت انگیز مناظر دیکھے کہ جب ہماری بوڑھوں، جوانوں، مائیں، بہنیں اور بیٹیوں نے آپکے تقلید میں اسلام آباد کے لئے رخت سفر باندھا، دھاڑیں مار مار کر اس ملک کی حقیقی تبدیلی کے نعرے فرط جذبات کے ساتھ آنکھوں میں آنسو لئے لگائے تھے

تو کیا ان پاکستانیوں کے آنسو اور دعائیں رائیگاں گئیں۔۔۔۔۔۔؟؟ یا دعاوں میں اثر نہ رہا۔۔ صاحب یہ بات نہیں، بہرحال ملک کو ڈیلیور کرنے کا کام تو ان 22 کروڑ افراد کی اکثریت کے چنے ہوئے لیڈرز نے ہی کرنا تھا عوام نے اپنی قسمت کا فیصلہ آپکے ہاتھ پہ رکھ دیا۔۔۔آپکو یادہوگا کہ ایک جماعت تو آپ سے زیادہ افراد اپنے ساتھ لئے ہوئے تھی جنہوں نے آپکے ورکرز سے زیادہ قربانیاں دیں، سینہ سپر ہوئے،

آپکو اور آپکے ورکرز کو گولیوں کی بوچھاڑ کے درمیان تحفظ دیا، صرف یہی نہیں آپکو ملک بھر نہ صرف خود بلکہ اپنے اتحادیوں کے بھی ووٹ دیکر ملک کا وزیراعظم بنانے میں سب سے زیادہ کلیدی کردار ادا کیا اور آپ نے انہی کی قربانیوں کو فراموش کرتے ہوئے انہیں کے طلباء کو اسلام آباد میں انہی سڑکوں پر راتیں گذارنے پر مجبور کردیا جہاں آپ نے دھرنا دیا تھا جسکو احسان فراموشی نہ کہا جائے تو کیا نام دیں۔۔

۔۔ 2014 ء میں ہونے والے سانحہ ماڈل ٹاؤن کے ورثاء آنکھوں میں انصاف کی امید لئے 8 جنوری 2022ء کو انسداد دہشت گردی عدالت لاہور میں 490 ویں پیشی پر حاضر ہوئے…. 490 ویں پیشی پر…..491 ویں پیشی کی تاریخ 22 جنوری ہے، مٹ جائے گی مخلوق تو انصاف کرو گے؟ میں کس کے ہاتھ پر اپنا لہو تلاش کروں؟….

اپنی جماعت، سیاسی سپورٹرز اور ووٹرز و دیگر کی شب و روز انتھک محنت کے باعث آپکو وزارت عظمیٰ تو مل گئی، آپکا خواب تو پورا ہوگیا لیکن اس عوام کی خوشحالی کا خواب کون پورا کرے جو آپکی حکومتی مشینری کے لارے لپوں کی بھینٹ چڑھ چکی اور میرے محتاط تجزیہ کیمطابق آئندہ ایسی تعداد آپکے ساتھ قطعی نہیں ہوگی

۔ آخرمیں صرف اتنا کہوں گا کہ دنیا کی تاریخ گواہ ہے کہ آفتیں، مصائب، زلزلے، طوفان، قحط سالی، ناانصافی اور ایسے عوامل یا پھر خوشحالیوں کا دور دورہ، نعمتوں کی فراوانی وغیرہ صرف کسی بھی قوم کے اجتماعی اکثریتی عمل کا شاخسانہ ہوتا ہے جوکہ حکمرانوں کے کالے کرتوتوں کے باعث قوموں پر ہوتا ہے۔

اپنی تقاریر میں جذباتی انداز میں خلیفہ اسلام حضرت عمرفاروقؓ کے انصاف کے حوالے سے حیات مبارکہ کی مثالیں دینا، یورپی ملک میں رائج عمر لاء کی باتیں کرنا تو بے حد آسان ہے لیکن عملی طور پر ملک کو ویلفئیر سٹیٹ بنانے میں آپ تاحال ناکام رہے ہیں- اللٰہ تعالیٰ سانحہ مری کے جانبحق جملہ افراد کو اپنی جواررحمت میں جگہ دے اور لواحقین کو صبرجمیل عطا فرمائے۔ بقول شاعر

ہمارے زہن پہ چھائے نہیں حرص کے سائے
جوہم محسوس کرتے ہیں وہی تحریر کرتے ہیں

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں