انسانیت نہیں تھی 127

چودھویں صدی کے مجدد

چودھویں صدی کے مجدد

جمہورکی آواز
تحریر : ایم سرور صدیقی

سفینہ بڑی تیزی سے مسافت طے کررہاتھا یہ سفینہ حجازِمقدس کی طرف رواں دواںتھا اس لئے مسلمان بڑے جوش و جذبہ سے عبادت میں مصروف تھے ایک کونے میں نورانی صورت والے ایک مسافر اپنے کئی ساتھیوں کے ہمراہ دن رات اللہ کے حضور سجدہ ریز ہوکر گڑگڑاکرامت ِمسلمہ کیلئے دعائیں کرتے رہتے باقی وقت وہ نبی ٔ آخرالزماں ﷺ پردرود سلام پیش کرتے تو پورے سفینے پر ایک وجدسا طاری ہوجاتا یوں محسوس ہوتا جیسے کائنات کی ہر شے حضرت محمد ﷺ کی تعریف کررہی ہے نورانی صورت والے کو دیکھ کرمسافر ایک دوسرے کو کہا یار ان کو جب بھی دیکھتاہوں ایمان تازہ ہوجاتاہے ۔
’’اس کی باتیں سن کر دل کو عجب سکون ملتاہے دوسرے نے بڑی عقیدت سے بتایا’’میں تو کئی نمازیں ان کی اقتداء میں ادا کرچکاہوں پہلا بولا’’ایسا خوش الحان کہ سبحان اللہ۔۔۔ وہ کتنی ہی دیر نورانی والے کے بارے میں باتیں کرتے رہے۔ایک رات سمندرمیں طلاطم آگیا مسافر خوفزدہ ہوگئے سورج نکلنے تک سمندرکی موجیں سرکش ہوکر ایک دوسرے سے ٹکرانے لگیں سفینہ بری طرح لڑکھڑانے لگاعملے کے ارکان اورمسافر وںکی جان پر بن گئی وہ پریشان ہوکر سوالیہ نگاہوںسے ایک دوسرے سوال کررہے تھے

جس کا جواب کسی کے پاس نہیں تھا اسی پریشانی کے باوجود نورانی صورت والے کے چہرے پر کمال کا سکون تھا وہ اس صورت ِ حال سے قطعی خوفزدہ نہ تھا وہ اور ان کے ساتھی بڑی عقیدت و احترام سے درود وسلام پڑھ رہے تھے کئی مسافران کے پاس آئے اور اپنی پریشانی سے آگاہ کیا کہ سفینہ مسلسل ہچکولے کھارہاہے

خدارا کوئی دعافرمائیں کہ اللہ یہ مصیبت ٹال دے نورانی صورت والے نے مسکراکرکہا سب پرسکون ہوجائو کچھ بھی نہیں ہوگا ہم نبی پاک ﷺکے صدقے ان شا اللہ بحفاظت منزل ِ مقصودپر پہنچ جائیں گے۔آنے والے یقین بے یقینی کے عالم میںواپس چلے گئے ۔۔ کچھ دیر بعدوہی ہوا جس کادعویٰ نورانی صورت والے نے کیا تھااب سمندرپرسکون تھا ،سفینے نے ہچکولے کھانابندکردیا مسافر معمولات کی طرف لوٹ گئے

جو لوگ پریشان تھے اب خوش نظرآرہے تھے کچھ نورانی صورت والے کی خدمت میں حاضر ہوئے ایک دو نے عقیدت سے ان کے ہاتھ چومنا چاہے لیکن انہوں نے اپنے ہاتھ کھینچ کر انہیں ایسا کرنے سے منع کردیا ایک نے کہاحضرت آپ نے اتنے وثوق سے کیسے کہہ دیا کہ کچھ نہیں ہوگا؟ آپ کو کیسے معلوم تھا؟ نورانی صورت والے نے مسکراکرکہا جب میں سفینے پر سوار ہواتو نبی پاک ﷺ کی بتائی ہوئی دعا پڑھ لی تھی

جب آپ سب پریشان تھے لیکن مجھے یقین تھا کہ سفینہ کبھی نہیں ڈوب سکتا نبی ٔ رحمت کی ہر بات برحق ہے۔ یہ نورانی صورت والے عالم ِ اسلام کی عظیم شخصیت چودھویں صدی کے مجدد امام احمد رضاؒ خان بریلوی تھے جن کی بدولت مسلمانوںکے دل و دماغ اور سینوںمیں عشق ِ مصطفیٰ ﷺ ٹھاٹھیں مارتے ہوئے سمندرکی طرح موجزن ہے۔ دنیا میں شاید ہی کوئی ایسا مسلمان ہوگا جس نے مصطفیٰ جان ِرحمت پر لاکھوں سلام پڑھا یا سنا نہ ہو اس سلام کااعجاز یہ ہے کہ یہ دلوں میں عشق ِ رسالت مآب ﷺ کی شمع فروزاں کردیتاہے

اسے پڑھتے اور سنتے وقت دل کی عجب کیفیت ہوجاتی ہے یہ دنیا میں نبی ٔ اکرم کی ذات ِ بابرکات پر پڑھا جانے والا سب سے مشہور سلام ہے اسے لکھ کر امام احمد رضاؒ خان بریلوی نے حضورپاک ﷺ کے حضور عظیم الشان نذانہ ٔ عقیدت پیش کیا جو تاقیامت شمع ٔ رسالت کے پروانوںکی قلب و روح کو ضوفشانی بخشتارہے گا

شاعر مشرق علامہ اقبالؒ کا کہنا تھا ان کے مزاج میں شدت نہ ہوتی تو بلاشبہ امام احمد رضاؒ خان بریلوی اپنے دور کے امام ابو حنیفہؒ ہوتے یہ خیالات شاعر مشرق علامہ اقبالؒ کا امام ِ اہل ِسنت کو خراجِ تحسین پیش کرنے کاایک انداز تھا بلا مبالغہ برصغیر میں کوئی دوسرا حضرت احمد رضاؒ خان بریلوی جیسا ذہین ،فطین،علمی ،فکری اور روحانی پیشو اپیدا نہیں ہوا آپ بیسویں صدی عیسوی کے مجدد، نامور حنفی فقہیہ،

محدث، اصولی، نعت گو شاعر، علوم نقلیہ وعقلیہ کے ماہر، سلسلہ قادریہ کے شیخ، عربی، فارسی اور اردو کی1000 سے زائد کتابوں کے مصنف ہیں جن میں ان کا مشہور ترجمہ قرآن مجید کنزالایمان، اسلامی مسائل و الجھنوں کا شافی اور منطقی دلائل پر مشتمل فتاویٰ کا مجموعہ فتاویٰ رضویہ اور نعتیہ دیوان حدائق بخشش بہت اہمیت کے حامل ہیں۔ امام اہل ِ سنت اعلیٰ حضرت احمد رضاؒ خان بریلوی اسلامی اسکالر ، فقیہ ،

عالم دین ، مجددِ اہل سنت ، صوفی ، اردو شاعر ، اور اسلام میں چودہویں صدی کے عظیم مصلح تھے حضرت احمد رضاؒ خان بریلوی نے قانون ، مذہب ، فلسفہ،منطق ،ریاضی اور دیگر علوم پر لکھا اور خوب لکھاوہ جنوبی ایشیاء میں اہلسنت تحریک کے رہنما بنے اوراربوں لوگوں کو متاثر کیا۔ اعلیٰ حضرت امام اہلِسنت احمد رضا خان کی ولادت 14 جون 1856 کو بریلی ، شمالی مغربی صوبے میں ہوئی آپ کے والد ماجد نقی علی خان بھی ایک بلند پایہ عالم ِ دین تھے جبکہ والدو محترمہ کا نام حسینی خانم ہے

آپ کو دنیا کے بہت سے علوم اسلامی الہیات ، حدیث ، تفسیر ، فقہ،ریاضی ، اردو شاعری ، تصوف ، سائنس ، فلسفہ ، علمیاتیات ، فلکیات پر ناقابل ِ یقین حد تک عبور حاصل تھامکہ کے مفتی علی بن حسن مالکی نے احمدرضا خان بریلوی کو تمام دینی علوم کا انسائیکلوپیڈیا کہا جو ان کی قابلیت کا اعتراف ہے۔ اعلیٰ حضرت احمد رضاؒ خان بریلوی کے والد ، نقی علی خان ، رضا علی خان کے بیٹے تھے ان کا تعلق پشتونوں کے بریچ قبیلے سے تھا۔ بیریچ نے شمالی ہندوستان کے روہلا پشتونوں میں ایک قبائلی گروہ تشکیل دیا

جس نے ریاست روہیل کھنڈ کی بنیاد رکھی۔ مغلیہ دور حکومت کے دوران ان کے آباؤ اجداد قندھار سے ہجرت کر کے لاہور آکر آباد ہوگئے۔خان 14 جون 1856 کو شمال مغربی صوبوں ، بریلی کے ، محلہ جسولی میں پیدا ہوئے تھے۔ اس کی ولادت کے سال سے مطابقت رکھنے والا نام “المختار” تھا۔ اس کا ولادت نام محمد تھا۔

اعلیٰ حضرت نے خط میں اپنے نام پر دستخط کرنے سے پہلے “عبد مصطفی” لکھا کرتے تھے آپ کے اساتذہ کرام میں شاہ اے الرسول (متوقع 1297/1879)،نقی علی خان (وفات 1297/1880)،حسین بن صالح (وفات: 1302/1884)،ابوالحسن احمد النوری (وفات 1324/1906)اور’عبد العلی رامپوری (متوقع 1303/1885) شامل ہیں 1294 ہجری (1877ئ) میں ، 22 سال کی عمر میں ، امام احمد رضا خان بریلوی شاہ الرسول شاہ مہرہروی ، امام العصفیہ کے مرید بنے۔

ان کے مرشد نے اسے متعدد صوفی سلاسوں میں خلافت عطا کی بہت سے نامور اسلامی اسکالرز نے ان کی رہنمائی میں کام کرنے کی اجازت اس سے حاصل کی۔ جن میں آپ کے صاحبزادے حامد رضا خان (وفات 1875/1943) کو حجت الاسلام کے نام سے جانا جاتا ہے۔دوسرے صاحبزادے مصطفی رضا خان (وفات 1892/1981) برصغیر کے نامور عالم دین تھے جنہیں ہندوستان کے عظیم الشان مفتی کے نام سے جانا جاتا ہے جبکہ ان کے دیگر خلفاء میں امجد علی عظمی (متوقع 1882/1948)،ظفرالدین بہاری (وفات 1886/1962) – ملک العلماء کے نام سے جانا جاتا ہے اور آپ حیاتِ اعلیٰ حضرت کے مصنف بھی ہیں

ابوالمحمد اشرفی الجلانی (وفات 1894/1961) – محدث ِ اعظم ہند کے نام سے جانا جاتا ہے،حشمت علی خان ( 1901/1960) – شیر بیسہ اہلِ سنت کے نام سے جانا جاتا ہے جبکہ مولانا ضیاء الدین مدنی (وفات 1877/1981) جن کو قطب مدینہ کے نام سے جانا جاتا ہے ۔ اعلیٰ حضرت احمد رضاؒ خان بریلوی نے عربی ، فارسی اور اردو میں کتابیں لکھیں ، جس میں تیس جلدوں پرمشتمل تہلکہ خیز فتویٰ فتاویٰ رضویہ ،

اور کنزالا یمان (ترجمہ اور قرآن کی شرح) شامل ہیں آپ کی متعدد کتابوں کا یورپی اور جنوبی ایشیائی زبانوں میں ترجمہ ہوچکا ہے۔ اردو اور عربی میں قرآن مجید کا ترجمہ کنزالایمان 1910ء میں لکھا گیا جو برصغیر پاک و ہند میں سب سے پڑھا جانے والا اور وسیع پیمانے پر پڑھا ہوا ویژ ن ہے اس کا انگریزی ، ہندی ، بنگالی ، ڈچ ، ترکی ، سندھی ، گجراتی ، پشتو میں ترجمہ کیا جاچکا ہے اور حال ہی میں مفتی نذیر احمد قادری نے گوجری زبان میں ترجمہ کیا ہے جبکہ فتاویٰ رضویہ امام عطیہ نبویہ فتویٰ رضویہ ،

جو امام احمد رضا خان بریلوی کے دیئے گئے 30 جلدوں کے فیصلوں کا مشہور مجموعہ ہے۔ فتاویٰ رضویہ یا پورا نام التمایا فی نبویہ فتویٰ رضاویہ (نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی رحمت سے امام احمد رضا کے ورڈکٹ میں ترجمہ) ان کی تحریک کیمرکزی فتویٰ (مختلف امور پر اسلامی فیصلے) کتاب ہے یہ 30 جلدوں میں 22000 صفحات پرمشتمل اس میں مذہب سے لے کر کاروبار اور جنگ سے لیکر شادی تک روزانہ کے مسائل شامل ہیں اسے عالم ِ اسلام میں بہت مقبولیت حاصل ہوئی اور آج بھی اس کی

اہمیت مسلمہ سمجھی جاتی ہے ۔امام احمدرضا خان بریلویؒ کی شخصیت کا جائزہ لیا جائے تو محسوس ہوگا کو عالم ِ اسلام میں آپ جیسی نابغہ روزگار شخصیات انتہائی کم ہیں جنہوںنے مختلف علوم میں اپنی قابلیت کے جھنڈے گاڑ دئیے انہوں نے حضرت محمد ﷺ کی شان میں جو نعتیں تحریرکیں اس میں عقیدت کی انتہاہے ایک صدی بیشتر تحریرہونے کے باوجود وہ روایتی شاعری سے ہٹ کرہے اور یہ شاعری دلوںمیں عشق ِ و گداز پیدا کرتی ہے جس سے احمد مصطفیٰﷺ کی محبت میں مسلمانوںکے وجود میں ہلکی ہلکی

آنچ پر سرور و مستی رچ مچ جاتی ہے اور ہجر ووصال کی کیفیت دو آتشہ ہو جاتی ہے ان کی شاعری کا دیوان ’’ حدائق ِ بخشش‘‘ رہتی دنیا مومنین کے لئے ایک ایسا خزانہ ہے جس کی مثل اور مثال نہیں ملتی مصطفی جان رحمت پہ لاکھوں سلام کے بغیر اہل ِ سنت کا جمعہ ادھورا سمجھا جاتاہے۔مخالفین کا الزام ہے کہ اعلیٰ حضرت احمد رضاؒ خان بریلوی نے دین میں نئی اختراح شامل کردیں جس سے بدعت اور شرک کو فروغ ملا حالانکہ یہ ان پرایک ایسا الزام ہے جس کے وفاع میں مخالفین کوئی دلائل پیش کرنے سے قاصر ہیں

در حقیقت اعلیٰ حضرت احمد رضاؒ خان بریلوی نے ان عقائد و نظریات کو ازسرنوفروغ دیا جنہیں ایک سازش کے تحت اسلام دشمن طاقتوں نے منفی اندازمیں پیش کرکے مسلمانوںکو فرقہ پرستی میں دھکیل کر گروہوںمیں بانٹ دیا اعلیٰ حضرت احمد رضاؒ خان بریلوی کی تمام تعلیمات عشق ِ مصطفیٰ ﷺ سے شروع ہوکر عشق ِرسول ﷺ پر ختم ہوجاتی ہیں ان کا عقیدہ ہے کہ نبی ٔ محترم ﷺ کی محبت کے بغیر کسی مسلمان کا ایمان کامل اور اکمل نہیں ہو سکتا

زندگی کا ہر شعبہ پر محبت ِ رسول ﷺ حاوی کرناہی ایک مسلمان کے لئے ضروری ہے وہ اس میں کسی قسم کا کمپرو مائز کرنے کو تیارنہیں اعلیٰ حضرت احمد رضاؒ خان بریلوی ان عقائد و نظریات کا تحفظ نہ کرتے تو آج لادینی اور اسلام دشمن قوتیں مسلمانوںکے دل و دماغ میں عشق ِ رسالت ﷺ کا مفہوم ہی بدل دیتے ۔ اعلیٰ حضرت احمد رضاؒ خان بریلوی کے مخالفین ٹھنڈے دماغ سے غورکریں تو محسوس ہوگا

کہ تاجدار ِ بریلی مسلمانوںکے بہت بڑے محسن ہیں وہ صرف اتنی تحقیق کرلیں کہ نبی پاک ﷺ چاروںخلفاء راشدین اور اولیاء کرام کے عقائد و نظریات کیا تھے اورمخالفین کے اپنے عقائد و نظریات کیاہیں دودھ کا دودھ پانی کا پانی الگ ہو جائے گا اگر آج اہل ِ سنت میں کچھ لوگ اپنے مفادات کے لئے کچھ غیرشرعی رسوم کے مرتکب ہیں تو اس میں اعلیٰ حضرت احمد رضاؒ خان بریلوی کا کوئی قصورنہیں وہ ان کا اپنافعل ہے

ایک فرقہ دارالعلوم دیوبندکے قیام کے بعد وجودمیں آیا غیرمقلدین فرقہ کو ابھی100سال بھی نہیں ہوئے جبکہ بہت سارے فرقے اہل ِ سنت کی تقسیم در تقسیم کے نتیجہ میں وجود میں آئے جبکہ اعلیٰ حضرت احمد رضاؒ خان بریلوی نبی پاک ﷺ کے ظاہری وصال کے بعد چاروںخلفاء راشدین اوراہل ِ بیت عظام اور اولیاء کرام کے عقائد و نظریات کے وارث ہیں سوچیں غور کریں حضرت داتا عثمان ؒعلی ہجویری، حضرت مجدد الفؒ ثانی ،حضرت معین الدین ؒ چشتی،حضرت قطب الدین بختیار کاکیؒ،بابا فریدؒ جیسے مشاہیرکا عقیدہ کیا تھا انہی کا عقیدہ اسلام کی سچی اور کھری تصویرہے تحقیق شرط ہے کیونکہ غوروفکر کرنے والوںکیلئے بہت سی نشانیاں ہیں

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں