الحمد للہ علی کل حال 129

آپسی مل ملاپ، محبت، الفت کے ساتھ جینا، جینا ہوتا ہے

آپسی مل ملاپ، محبت، الفت کے ساتھ جینا، جینا ہوتا ہے

کالم نگار: تحریر : نقاش نائطی
۔ 966562677707+

آج بعد ظہر واٹس آپ کھولا تو محمد حسین گولٹے کی وفات کی خبر دیکھی۔ کچھ لمحوں میں ہم باد نسیم کے جھونکوں کے دوش اڑتے ہوئے،اپنے ساٹھ سال قبل ماضی کے طفل مکتب دور میں چلے گئے، محمد حسین مرحوم کی آمی کو، ہم ہماری چھوٹی خالہ کی حیثیت سے جانتے تھے۔ ہمارے محلے کے متصل ہی سلطانی محلہ کے شروعات میں رہا کرتی تھیں۔ گھر کے نچلے حصے میں بڑی خالہ اور اوپری حصہ میں چھوٹی خالہ رہتی تھیں

۔ گھر میں پکی کچھ چیزیں لئے،ہمارا اکثر انکے گھر آنا جانا رہتا تھا۔ چھوٹی خالہ کے شوہر صاحب حیثیت تھے اس لئے ان سے خاندانی لیں دین تعلق خاص تھا۔ جوان ہونے کے بعد پتہ چلا کہ وہ ہماری نانی اماں کی خلیری بہن تھی۔ لیکن آپسی تعلق خاص بہنوں جیسا ہی تھا ۔ نانی آمان کے انتقال کے بعد ان سے منسلک رشتے دور ہوتے چلے گئے اور خالہ جان کے انتقال کے بعد تو رشتہ گویا بیگانہ سا ہوکر رہ گیا۔ابھی کچھ سال قبل، بعد نماز جمعہ، خلیرے بھائی محمد حسین سے ملاقات ہوئی تھی، ہم سے مل کرخوشی کا اظہار بھی کیا تھا لیکن انکی یا ہماری اپنی اولاد کو اپنے رشتوں کی پہنچ کا احساس بھی شاید نہ ہو

ان ایام سواری کے نام پر بیل گاڑیاں جب ہوتی تھیں، ہمیں اچھی طرح یاد ہے انہی ایام معاشرے میں پہلی پہلی گھوڑا گاڑی بمبئی سے کسی کے گاؤں لائے جانےسے قبل، ڈاؤن ٹاؤن چوک بازار موجود مکتب جامعہ اسلامیہ کے سامنے، کسی گھر شادی میں، دلہن کو اسکی سسرال لیجانے، سجی سنوری بیل گاڑی لائی گئی تھی۔انہیں دنوں کی بات ہے، ایک اور ہماری دور کی پھوپی ہمارے گھر سے بہت دور نوائط کالونی میں رہتی تھیں۔ان ایام دوکلو میٹر کی آپسی مسافت رشتہ داری نبھانے والوں کے لئے ھیج تر تھیں۔

سال میں ایک مرتبہ ہماری پوری فیملی صبح سے عشاء تک ،انکے داماد کے گھر غریب خانہ اور انکے کاجو باغ سونا مکی (موجود مسجد عائشہ والی کولونی)، گویا پکنک منانے ہی کی نیت سے جاتے تھے۔اور سال میں ایک دو مرتبہ وہ لوگ پورے دن کے ہمارے مہمان رہتے تھے۔ تیس ایک سال قبل جب تک ہمارے والد محترم حیات سے تھے،

معاشرے کی قد آور شخصیت پھوپو مولوی خواجہ بہاءالدین اکرمی علیہ الرحمہ جمعہ ادا کرنے ڈاؤن ٹاؤن آتے تو بعد نماز جمعہ قبرستان زیارت ہوتے ہوئے، دوپہر کا کھانا ابو کے ساتھ ہی ہوتا تھا۔ لیکن اب ان کی اور اپنی آل،سب اپنے اپنے گھروں کی اور اپنے اپنے قریبی رشتہ داروں کے سے ہوکر رہ گئے ہیں

ویسے بھی زمانے کی جدت پسندی اور انگریزوں کی یہ عصری تعلیم نے، بھرے پھولے خاندانوں کو مایکرو فیملیز میں منتقل کرتے ہوئے، اپنے اور آپنی آل ہی کے لئے فقط جینے کی راہ سلیس و آسان کردی تھی لیکن 21ویں صدی کے دوسرے دہے کی یہ انسانیت ساختہ مہلک سقم کرونا نے اور اس کی روک تھام کے بہانے، بغیر محسوس مشرق کی در آید غلامی، گھروں میں قید و بند لاک ڈاؤن نے، آپسی رشتہ داری محبت الفت کو یکسر، بے موت مارنے کا کام کیا ہے۔ اب تو ایک ماں کی آل بیٹے بیٹیاں اور ان کی آل آپس میں خوشگوار تعلقات قائم رکھیں تو رب کائینات کا شکر بجا لانے کو دل کرتا ہے۔

پہلے معاشرے میں کسی نہ کسی کی شادی بیاہ کے موقع پر،پلنگ ہلوانے کے نام سے قریبی رشتہ داروں کو خصوصی طور، پکائے گئے عام سے مچھلی کڑی چاول (مھاورا سانمبار شیت یا رس لوخا) کھانے کی دعوت سے، شادی کی رسومات شروع ہوتی تھیں۔ عموما تین پانچ دنوں تک، زنانہ و مردانہ دعوت عام ولیمہ جدا جدا تو، کبھی سمبندھیوں کی پرتکلف دعوت(سوستا جون) تو کبھی بہو یا داماد کی بیٹھک (وھریتا یا وھکلئیے پٹنے) کے الگ الگ نام سے، دعوتوں کا سلسلہ ختم نہ ہوتا تو قریبی رشتہ داروں کے یہان نئے شادی شدہ جوڑوں کی پرتکلف دعوت کا سلسلہ ہفتہ دس دن تک چلتا ہی رہتا تھا۔

عموما ہر شادی کے بعد پوری آل کے ساتھ ساحل سمندر پکنک بھی منائی جاتی تھی جس میں، شادی کی مصروفیات میں بھولے بسرے یا نادانستہ طور نظر انداز کئے گئے، رشتہ داروں کو خصوصی طور بلاکر،ان کی خاص تواضع سے معافی تلافی بھی ہوتی تھیں، آجکل کی شادی ھال کی شادی خانہ آبادی کسی خاص تقریب میں کچھ ساعتی مہمان بن گئے جیسا لگتا ہے جہاں نکاح کی تقریب تو ٹھیک ورنہ دعوت ولیمہ پر بن بلائے مہمانوں کی کثرت سے ، اکثر پکوان ختم ہوتے ہوئے، “ابھی پکوان بن رہی ہے”

آوازوں کے بیچ اکثر شرفاء کو بغیر کھائے لوٹتے دیکھا گیا ہے۔ ہر چیز میں منفی و مثبت پہلو ہوتے ہی ہیں اور ہزاروں شادیاں ان عالیشان شادی گھروں میں ہو بھی جاتی ہیں ، لیکن شادی خانہ آبادی والے وہ سہانے دن یاد رہ جاتے ہیں۔ آجکل کے فلیٹو زندگی گزارنے والوں کی مجبوری تو سمجھ میں آتی ہے، لیکن عالیشان بنگلے والوں کے، آپنے گھر کی آرائش پراگندہ ہونے کی فکر میں، شادی ھال شادی تعجب خیز لگتی ہے۔ہماری بیٹی کی شادی بھی شادی ھال میں کرنے کا اسرار زنانے سے تھا لیکن اولا” ہمارا اپنا تخیل اپنائیت، ثانیا” ہمارے مربی استاد حضرت مولانا صادق اکرمی کی یہ بات کہ گھر کی شادی، انسیت ہی جدا ہوتی ہے

ہم نے اپنے گھر میں ہی شادی کو فوقیت دی تھی۔ ہم شادی ھال شادی کے مخالف نہیں ہیں۔ لیکن اپنی اولاد کی دائمی خوشیئاں سمیٹتے سمیٹتے گھر بنگلہ کی صفائی کی کیا قدر و منزلت۔ اس لئے سہولیات والے آل کو معاشرے میں اپنا اسٹیٹس جتاتے بتاتے،چند ساعتی شادی ھال شادی کے بجائے دو تین روزہ اپنے گھر کی شادی خانہ آبادی ہی کو ترجیح دیتے ہوئے، نزدیک و دور کے رشتہ داروں دوست احباب کو جمع ہونے اور خوشیاں سمیٹنے کا بھرپور موقع دیا جانا چاہئیے

۔ ویسے بھی آجکل کی مائکرو فیمیلز کے یہاں شادی ہونے لائق اولاد کی ایک لمبی لائن کہاں رہتی ہے؟ایک آدھ اولاد کی شادی تو اپنے ہی گھر اہتمام کرتے ہوئے اپنی اولاد کی شادی خانہ آبادی کو قریب و دور کے رشتہ داروں سے محبت الفت سے ملنے کاموقع دیتے، ایک یاد گار تقریب بنانا چاہئیے
زمانے کی جدت پسندی رشتہ داری و دوست احباب سے تعلقات نبھانے ہی سے صالح معاشرہ بنتا ہے۔ اس لئے رشتہ داری قائم رکھنے کے لئے، گاہے بگاہے، کم از کم سال میں ایک مرتبہ قریب و دور کے تمام رشتہ داروں پر مشتمل آؤٹنگ یا پکنک منائی جاتی رہنی چاہئیے۔ اس سے محبت نہ صرف قائم رہتی ہے بالکہ باقی بھی رہتی پے۔ یہ دنیوی زندگانی ساتھ ستر سال ہی کی تو ہے ۔ بعد الموت قبر و برزخ کی کئی سو ہزار لاکھ سال کی زندگانی اکیلے ہی تو بتانی پے پھر کیوں نہ ساٹھ ستر سالہ دنیوی زندگی آپس میں میل ملاپ رکھتے

، ایک دوسرے کے غم و خوشیوں میں شریک ہوتے،اور سب سے اہم، مفہوم حدیث،مخلوق کو راضی کرتے ہوئے اپنے خالق کائینات کو راضی کرتے جینے کی ہمیں توفیق دے اور جتنے بھی ہمارے اعزہ و اقارب و دوست احباب ہمیں چھوڑ قبر و برزخ والی اکلوتی زندگی جی رہے ہیں ان تمام کو اپنے جوار رحمت میں لیتے ہوئے عالم قبر و برزخ کو ان کے لئے خوشگوار بنادے یارب۔ وما علینا الا البلاغ

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں