حکومتی دعوئے اور عوامی غصہ!
کالم نگار: تحریر :شاہد ندیم احمد
تحریک انصاف کی حکومت دعویٰ کر رہی ہے کہ معیشت بہتری کی طرف گامزن ہے،گذشتہ ہفتے وزیر اعظم عمران کے ایک ٹویٹ کے بعد وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی سمیت حکومتی وزرا اور ترجمان اپنی معاشی کارکردگی کو حوصلہ افزا قرار دے رہے ہیں،وفاقی وزیر برائے توانائی حماد اظہر نے بھی دل خوش کن خبر دی ہے
کہ پاکستان کی معیشت نے پچھلے سال 5.37 فیصد کی شرح سے ترقی کے ساتھ زرِمبادلہ کے ذخائر میں اضافہ، گردشی قرضوں میں نمایاں کمی اور کرنٹ اکائونٹ خسارہ معمولی رہاہے ،حکومت نے معاشی استحکام کیلئے مشکل فیصلے کر کے معیشت کو دیوالیہ ہونے سے بچالیا ہے۔وفاقی وزیر کی طرف سے ملکی معیشت میں بہتری کے حوالے سے جو اعداد و شمار دئیے گئے ہیں، وہ بظاہر بڑے دل خوش کن اور حوصلہ افزاء ہیں ،اس سے اشارہ ملتا ہے کہ حکومت اقتصادی ترقی کے حوالے سے صحیح سمت سفر کر رہی ہے اور آنیوالے سالوں میںملک میں خوشحالی اور استحکام پیدا ہو گا، ترقی کی راہیں کھلیں گی
اور عوام کی اجیرن بنی زندگی میں خوشگوار انقلاب آ جائے گا، لیکن جب وفاقی وزیر کی مذکورہ خوشخبری کو ملک کے موجودہ حالات اور زمینی حقائق کے تناظر میں دیکھتے ہیںتو اس پر حیرت ہوتی ہے ،کیونکہ جس معاشی صورتِ حال کا پوری قوم کو سامنا ہے اور دن بدن ابتر ہوتی معیشت نے جس بُری طرح قوم کو جکڑ رکھا ہے،اس میں حکومت کے معاشی استحکام کے دعوئے خود فریبی کے سوا کچھ دکھائی نہیں دیتے ہیں۔
ایک طرف حکومت معیشت بہتر کر نے کے دعوئے کررہی ہے تو دوسری جانب ایک عام آدمی کیلئے بڑھتی مہنگائی، بے روزگاری، افراطِ زر، ذخیرہ اندوزی اور لوٹ مار نے جینے کے اسباب محدود کر دئیے ہیں،ایک عا آدمی کا پٹرولیم مصنوعات، بجلی اور گیس کے نرخوں میں آئے روز اضافہ نے گھریلو بجٹ تلپٹ کر کے رکھ دیا ہے
،ہر طلوع ہونیوالا سورج کسی خوشی و مسرت کامژدہ سنانے کے بجائے پریشانی اور تکلیف کی خبر دیتا ہے ،اس پریشان کن صورت حال میں ملک کی معیشت میں بہتری اور شرحِ نمو میں اضافے کی باتیں خوش گمانی سے زیادہ کچھ نہیں لگتی ہیں،کیونکہ اگر ملک کی معیشت واقعی بہتری کی طرف مائل ہے تو پھر اسکے اثرات عام آدمی تک کیوں نہیں پہنچ پا رہے ہیں ؟حکومت کے تمام تر خو ش کن دعوئوں کے باوجود عوام معاشی مشکلات کا شکار ہیں،حکومتی معیشت دانوں کی بحث ومباحث سے دور عوام اپنے مسائل کا تدارک چاہتے ہیں
،عوام صرف جاننا چاہتے ہیں کہ پی ٹی آئی حکومت اپنے وعدے اور دعوئوں کے مطابق لوگوں کو روز گارکب دے گی اور آئے روز بڑھتی مہنگائی میں کب کمی لائے گی ،عوام پی ٹی آئی کو بڑی اُمیدوں کے ساتھ ووٹ دیئے کر اقتدار میں لائے تھے ،عوام کا خیال تھا کہ پی ٹی آئی اُن کی زندگی میں کوئی تبدیلی لانے میں کا میاب ہو جائے گی ،مگر حکومت نے اپنے ساڑھے تین سالہ دور میں عوام کو سخت مایوس کیا ہے،
حکومت کی معاشی پا لیسیوں کے باعث کچی آبادیاں، مزدور بستیاں اور یہاں تک کہ متوسط طبقے سے تعلق رکھنے والے افراد بھی غم وغصے سے بھرے ہوئے ہیں، یہ عوام میں بڑھتا غم و غصہ کسی بھی وقت حکومت کیلئے بریشانی کا باعث بن سکتا ہے۔اپوزیشن کاکام ہی حکومت کی غلطیوں سے فائدہ اُٹھانا ہے ،اپوزیشن عوامی بے چینی کا فائدہ اُٹھانے کیلئے متحرک ہورہی ہے ،اپوزیشن نے حکومت کے خلاف احتجاج اور ریلیوں کا اعلان بھی کر دیا ہے ،حکومت کورونا کے ساتھ دہشت گردی کی نئی لہر کاشور مچا رہی ہے
،لیکن اپوزیشن کسی صورت بات ماننے کے لیے تیار نہیں، وہ عوام کی بے چینی کا فائدہ اُٹھانے کا سنہری موقع ضائع کرنا نہیںچاہتے ہیں، اس وقت حالات کے پیش نظر جس قومی اتفاق رائے کی ضرورت ہے، اس کا عندیہ سیاسی اپوزیشن سے ملتا ہے نہ ریاستی رٹ قائم رکھنے کے لیے حکومت بالمشافہ اعلیٰ سطح کے جمہوری مکالمہ کے لیے رضامند ہے، حکومت اور اپوزیشن میں بڑھتی محاذ آرائی ملکی مفاد میں نہیں ،
فریقین کو، ذاتی انا سے بالا تر ہو کر سیاسی مصالحت اور خیر سگالی سے سیاسی تناؤ کا خاتمہ کرنا چاہئے،اس نیک کام میں وزیر اعظم کا کر دار اہمیت کا حامل ہو سکتا ہے ،کیو نکہ تدبر اور دور اندیشی سے ایک سیاسی رہنما ہی کسی بھی سماج کی کایا پلٹ سکتاہے۔بلا شبہ سیاسی احتجاج اپوزیشن کا حق ہے ،مگر اس احتجاج کی آڑ میں انتشار بر پا کرنے کی اجازت نہیں ہو نی چاہئے،پاکستان کوئی بنانا ریپبلک نہیں،
ایک ایٹمی ریاست ہے، اس میں حکومت کی رٹ قائم ہونے میں دیر نہیں لگنی چاہیے، مفاہمانہ ماحول وقت کی اہم ضرورت ہے، جبکہ نیب کے کیسز قانونی عمل سے مشروط ہیں، عوام کو معاشی ثمرات دینے کے لیے ضد اور ہٹ دھرمی سے نہیں دوطرفہ پارلیمانی اور جمہوری اسپرٹ اور سیاسی فہم و فراست سے کام لینے کی ضرورت ہے،
اس میں تاخیر کی گنجائش نہیں، کیونکہ جب تک ملک میں امن وامان نہیں ہو گا اور ایک عام آدمی کو ریلیف نہیں ملے گا، اس کے معاشی مسائل و مشکلات حل نہیں ہو گی ،تب تک حکومت تمام تر دعوے اور اپوزیشن کا احتجاج سیاسی بیانات اور سیاسی پوائنٹ سکورننگ ہی تصور کیے جاتے رہیں گے۔