شکار اور شکاری 126

شکار اور شکاری

شکار اور شکاری

جمہور کی آواز
تحریر : ایم سرور صدیقی

موسم میں خنکی کے باوجوددرویش کی کٹیاپر خاصارش تھا کیونکہ ان کی علم ودانش سے بھرپور حکیمانہ باتوں سے لوگوںکا کہنا تھاکہ روح و قلب کا زنگ صاف ہوجاتا ہے درویش باتوں باتوںمیں دوستانہ انداز میں معرفت کے ایسے راز آشکارکردیتے کہ ان کی باتیں دل میں ترازو ہو جاتیں فرقہ واریت،لسانیت اور ہر قسم متنازعہ مسائل کو وہ کبھی زبان پر نہیں لاتے تھے اس دن درویش نے حاضرین پر ایک نظردوڑائی اور تبسم فرماکرکہا ہم سب کو ایک دوسرے کی دل آزاری سے گریزکرناچاہیے

کیونکہ دل آزاری کاشمار بڑے گناہوںمیں ہوتاہے اسی سے نفرتیں،کدورتیں اوررنجشیں جنم لیتی ہیں جو لڑائی جھگڑوںکاسبب ہے لیکن کچھ باتیں سمجھاناضروری ہوتو اس کے اظہارکا مناسب طریقہ اختیارکیا جائے تو دل و دماغ کو حاضرکرکے یہ باتیں سن کر گرہ لگالیں کہ ان میں کوئی نہ کوئی پوشیدہ ہوسکتی ہے ایک دن شہرسے ایک شکاری نے کْنڈی میں گوشت کی بوٹی لگا کر دریا میں پھینکی ایک چھوٹی سی مچھلی ترنت اْسے کھانے دوڑی وہیں ایک بڑی مچھلی نے اْسے روکا،پیار سے سمجھایاکہ اِسے منہ نہ لگانا

اِس کے اندر ایک چھپا ہو کانٹا ہے جو تجھے نظر نہیں آرہا بوٹی کھاتے ہی وہ کانٹا تیرے حلق میں پیوست ہو جائے گا جو تمہاری ہزار کوششوں کے بعد بھی نہیں نکلے گا تیرے تڑپنے سے باہر بیٹھے شکاری کو اِس باریک ڈوری سے خبر ہوجائیگی تو تڑپے گی وہ خوش ہوگا کہ مچھلی پھنس گئی پھروہ اِس باریک ڈور کے ذریعے تجھے باہر نکالے گا چْھری سے تیرے ٹکڑے ٹکڑے کر مرچ مسالحہ لگا کر آگ پر ابلتے تیل میں تجھے پکا ئے گا جانتی ہو پھر 10، 10 انگلیوں والے،انسان 32، 32 دانتوں سے چبا چبا کر تجھے کھاجائیں گے

یہ تیرا انجام ہوگا میں تمہیں دل سے سمجھارہی ہوں یہ کینچوے کی بوٹی ایک چارہ ہے لالچ میں نہ آنا بڑی مچھلی یہ کہہ کر پانی میں ڈبکی لگائی اور تیزی سے تیرتی ہوئی آگے چلی گئی اب چھوٹی مچھلی نے غورکرناشروع کردیا اس نے دریا میں ریسرچ شروع کردی اسے کہیں نہ شکاری نظرآیا اس نے پانی سے سرباہرنکالا نہ آگ،نہ کہیں دھواںنہ کھولتا ہوا تیل نہ ہی مرچ مسالحہ اورنہ دس دس انگلیوں اور بتیس بتیس دانتوں والے انسان۔۔ ماحول میں ایساکچھ بھی نہیں تھا ۔چھوٹی مچھلی دل ہی دل میں کہنے لگی لگتاہے

یہ بڑی مچھلی انپڑھ جاہل تھی،پتھر کے زمانے کی باتیں کرنے والی یقینا اسکی باتوں میں کوئی حقیقت نہیں مَیں نے خود ریسرچ کی ہے حالات کا جائزہ لیاہے میں نے غور کیا،اْسکی بتائی ہوئی کسی بات میں بھی سچائی نہیں میرا ذاتی مشاہدہ ہے لگتاہے وہ ایسے ہی سنی سنائی کرکے چلتی بنی بھلامیں اس کی غیب کی باتوں پر کیونکر یقین کروں؟ میں خود سمجھ دار ہوگئی ہوں اچھے برے کااندازہ لگاسکتی ہوں آج کے اِس ماڈرن سائنسی دور میں پرانے فرسودہ نظریات کیسے پنپ سکتے ہیں ؟

چھوٹی مچھلی نے پھر غوروخوض کیا،حالات کاجائزہ لیا اور پھر کافی سوچ بچارکر اْس نے اپنے ذاتی مشاہدے کی بنیادپر تیزی سے گوشت کی بوٹی کو کھانے کے لئے منہ کھولا ہی تھا کہ اس کے گلپھڑوں میں کانٹا چبھا اور پیوست ہوگیا چھوٹی مچھلی اچھلی،کودی، تڑپی اس کی تمام تر دانش وری،تجربہ،ذہانت اور ریسرچ دھری کی دھری رہ گئی شکاری نے ڈور کھینچ کر باہر نکالاپھرآگے بڑی مچھلی کے بتائے ہوئے سارے حالات چھوٹی مچھلی کے سامنے آگئے ۔۔ درویش نے آہ بھرتے ہوئے کہا

بعینہ‘ انبیاء علیھم السلام نے انسانوں کو ” موت ” کا “کانٹا ” چبھنے کے بعد پیش آنے والے غیب کے سارے حالات و واقعات کھول کھول کربیان کر دیئے ان کے بعد اولیاء کرام نے رشدو ہدایت کاسلسلہ جاری رکھا بڑی مچھلی کی طرح کے عقلمند انسانوں نے انبیاء اکرام کی باتوں پرایمان لا کر زندگی گزارنی شروع کردی چھوٹی مچھلی والے نظریات رکھنے والے انبیاء اکرام کا رستہ چھوڑ کر اپنی ظاہری ریسرچ کے رستہ پر چل رہے “موت ” کا “کانٹا ” چبھنے کے بعد سارے حالات سامنے آجائیں گے

ان میں ایسے بھی ہیں جویہ تاویلیںپیش کرتے پھررہے ہیں کہ انبیاء علیھم السلامکون سا علم ِ غیب جانتے تھے حالانکہ ان کا علم عطائی ہوتاہے یہ بھی علم ہے جس طرح کچھ لوگوںکی پیش گوئیاں حرف بحرف پوری ہوجاتی ہیں حالانکہ وہ کوئی پیغمبریا ولی بھی نہیں ہوتے نادان یہ سمجھتے ہیں انبیاء کرام عام انسانوںکی طرح بے بس ہوتے ہیں یا وہ بھی ہمارے جیسے انسان ہیں جس طرح چھوٹی مچھلی پانی سے نکلی واپس نہ گئی

اسی طرح انسان دنیا سے گیا واپس نہ آیا لیکن انبیاء اکرام اوراولیاء کرام اپنے علم اور روشن ضمیرہونے کی بنیادپرجو باتیں کرتے ہیں ان میں سچائی ہوتی ہے یا درکھو ادھورا علم فتنہ اور علم کی زیادتی پراتراناجہالت ہے۔درویش نے اپنے چہارجانب نظردوڑائی اوران کے چہرے پرمسکراہت پھیل گئی انہوںنے کہا اللہ تبارک تعالیٰ نے تو آخری الہامی کتاب کے آغازمیں جو کچھ کہا ہم اسے ہر نماز میں دہراتے ہیں پھربھی شک ہے کہ جان ہی نہیں چھوڑتا اللہ تعالیٰ نے جس صراط ِ مستقیم پر رہنے کی بات کی ہے

وہ تو ان لوگوںکاراستہ ہے جن پر اللہ نے اپنا فضل و کرم کیا یہ راستہ بلاشبہ انبیاء اکرام اوراولیاء کرام کا ہی راستہ ہے غوروفکرکرنے والوںکے لئے بہت سی نشانیاں ہیں اب اگر کچھ لوگ شعبدہ بازوں کو ولی مان کران کے گردجمع ہوکر منتیں مرادوںکیلئے ان سے تعویزلیناشروع کردیں توان کا حال پرکیونکر تبصرہ کیا جاسکتاہے شعبدہ بازوں نے تو شکاری کی طرح کنڈیاں پھینک رکھی ہیں ایسے لوگوںکے حق میں دعاکیجئے کہ

اللہ ان کی اصلاح فرمائے اورہدایت سے نوازے ۔ یہ سب جان لیں کہ کمزور عقیدے والے ہمیشہ آسان شکار سمجھے جاتے ہیں اللہ کی ذات پرکامل ،اکمل اور مکمل اعتمادہرمسلمان کا عقیدہ ہونا چاہیے شریعت کی پیروی کرنے والے کی اتباع جائزہے انبیاء اکرام اوراولیاء کرام تو اللہ کے لاڈلے ہوتے ہیں وہ ہمارا تزکیہ نفس کرنے میں معاونت کرتے ہیں راز ِ حیات اور معرفت ان کی دانش و حکمت سے آشکارہوتے ہیں شکاریوں سے بچیں جو عقیدے خراب کرنے کے درپے رہتے ہیں۔ آسان لفظوں میں یہ جان لیجئے کہ جس کی تعلیمات اللہ اور اس کے رسول ﷺ کے قریب کریں وہی روشن ضمیرہے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں