کورونا کی بڑھتی ہلاکت خیزیاں!
کالم نگار: تحریر :شاہد ندیم احمد
دنیا بھر میں جو رجحان کورونا وائرس کی نئی لہراومیکرون کے پھیلائو کی صورت میں تیزی سے دیکھنے میں آرہا تھا ،وہ اب پورے پاکستان میں بھی جنگل کی آگ کی طرح پھیل رہا ہے ،اس نے متعلقہ اداروں کے ساتھ ساتھ شہریوں میں بھی خوف کی نئی لہر کو جنم دیا ہے ، اس وباء کی ہلاکت خیزی کا اندازہ اس امر سے لگایا جا سکتا ہے
کہ اس سے ملک بھر میں ہونے والی اموات کی تعداد 29 ہزار سے تجاوز کر چکی ہے، جبکہ صرف ایک دن میں 23 افراد جان کی بازی ہار گئے ہیں،اس وبا نے چند روز کے اندر جس تیزی کے ساتھ پھیلنا شروع کر دیا ہے، اس سے عوام کا تشویش میں مبتلا ہونا فطری امرہے ، تاہم اس سے حکومتی اور متعلقہ انتظامیہ کی طرف سے ٹھوس اقدامات کرنے میں تساہل اور غیر سنجیدگی کا بھی پتہ چلتا ہے۔
اس میں شک نہیں کہ عوام اپنی لاپروائی اور حکومتی بدانتظامی کی وجہ سے ہی کوروناکی نئی لہر کا شکار ہورہے ہیں ،اس وبا کاجس تیز رفتاری سے دوبارہ پھیلائو ہورہا ہے، وہ انتہائی پریشان کن ہے،سرکاری ادارے نیشنل کمانڈ اینڈ آپریشن سنٹر (این سی او سی) کے فراہم کردہ اعدادو شمار کے مطابق پورے ملک میں مثبت کیسز کی شرح 13 فیصد ہو گئی ہے،کراچی میں 48،لاہور میں 18 فیصد ریکارڈ کی گئی،
جبکہ چوبیس گھنٹوں میں 7678 کیسز سامنے آئے ہیں،اسلام آباد ہائیکورٹ کے جسٹس طارق محمود جہانگیری اور ڈسٹرکٹ عدالتوں کے 15 جج بھی متاثرین میں شامل ہیں، اس کے علاوہ وفاقی دارالحکومت کی ضلع کچہری کے 58 اہلکار بھی وباء کا شکار ہو گئے، جس کے بعد متعلقہ عدالتیں بند کر دی گئی ہیں،اگر کورونا کی نئی لہر کی شدت یونہی بڑھتی رہی تو ملک لا ک ڈائون کی طرف دوبارہ جاسکتا ہے۔
اگر چہ کورونا کی وبا نے ایک بار پھرچند روز کے اندر جس تیزی کے ساتھ پھیلنا شروع کر دیا ہے، ،تاہم اس کے باوجود ایک بار پھر سکول سے لے کر کاروباری حلقوں پر پابندیاں ناقابلے برداشت ہیں ،ایک طرف آئے روز بڑھتی مہنگائی اور بے روز گاری ہے تو دوسری طرف کورونا نے عوام کا جینا مشکل بنا دیا ہے ،اس میں جہاں حکومتی اور متعلقہ انتظامیہ کی غیر سنجیدگی کارفرما رہی ہے تو دوسری جانب عوام الناس کی طرف سے ابھی تک اس ضمن میں زیادہ احتیاطی تدابیر اختیار نہیں کی جا رہی ہیں،
عوام کی طرف سے لاپروائی اور غفلت مزید وبا کے پھیلائوکا سبب بنے لگی ہے،ضرورت اس امر کی ہے کہ اس جانب پوری سنجیدگی اور فکر مندی کے ساتھ توجہ دی جائے،حکومت زبانی کلامی کورونا سے بچائو کیلئے اقدامات کی باتیں تو بہت کرتی ہے ،مگر عملی طور پر زمینی حقائق با لکل برعکس نظر آتے ہیں، ملک بھر کے مختلف دفاتر، عدالتوں اور پبلک مقامات پر کوئی ڈِس انفیکشن سپرے کروایا جارہا ہے
نہ تعلیمی اداروں میں بڑے پیمانے پر کورونا ٹیسٹنگ اور ویکسی نیشن کروائی جارہی ہے اور جن ایس او پیز کو تحریری شکل دے کر دفاتر میں سرکولیٹ کیا گیا ،ان پر عمل بھی کہیں درآمدہوتا نظر نہیں آرہا ہے۔در حقیقت ہمارے یہاں آج بھی حکومتی اور عوامی سطح پر کورونا کو سنجیدگی سے نہیںلیاجارہا ہے،عوام کی ایک بڑی تعداد جہاں ماس تک کا استعمال نہیں کرہی ہے ،وہیں حکومت بھی ایس او پیز پر عملدرآمد کروانے میں ناکام نظر آتی ہے
،حکومت کا سکول اور انڈور تقریبات پر پا بندیاں عائد کر نا کافی نہیںہے ،کورونا کے بچائو کے دیگر اقدامات کے ساتھ ایس او پیز پر عملدرآمد کو یقینی بنانابھی ضروری ہے ، کورونا ایکسپرٹ کا کہنا ہے کہ کورونا کے تمام ویرئنٹس سے بچائو کا واحد حل اختیاطی تدابیر کے ساتھ ویکسینیشن کرواناہے،کورونا کی دوسری ڈوز لگوانے کے چھے ماہ بعد بوسٹر ڈوز لگواناضروری ہو گئے ہیں، امیکرون ویرئنٹ ویکسینیشن نہ کروانے والوں کے لئے انتہائی خطرناک ثابت ہورہاہے ۔
اس میں کوئی دورائے نہیں
کہ عوام کو صحت کی سہو لیات فراہم کرنا حکومت وقت کی ذمہ داری ہے ،تاہم عوام کا بھی فرض بنتا ہے کہ اس کورونا کی نئی لہر سے بچائو میں حکومت کا ساتھ دیں،کورونا کی نئی لہر سے بچائو کیلئے ملک بھر میں ویکسی نیشن کے بوسٹر شاٹس لگائے جا رہے ہیں، یہ بوسٹر شاٹس اومیکرون کیخلاف قوتِ مدافعت میں اضافہ کرتے ہیں، ہمارے ملک میں تاحال ایسے افراد آج بھی موجود ہیںکہ جنہوں نے ابھی تک کورونا ویکسی نیشن کی ایک ڈوز بھی نہیں لگوائی ہے،
ایسے افراد اپنے ساتھ دوسروں کی جان کے بھی دشمن بن رہے ہیں،لیکن انہیں اپنی صحت کی فکرہے نہ دوسروں کی زندگی کا احساس کررہے ہیں،حکومت اپنے تئیں اومیکرون پر قابو پانے کی ہر ممکن کوشش کر رہی ہے، عوام کو بھی ویکسین بوسٹر ڈوز لگوا کر اپنی حفاظت کی سعی کرنا ہو گی اورسب سے بڑھ کرکورونا ایس او پیزکو خود پر لازم کرنا ہو گا،تبھی کورونا کے ہلاکت خیز واروں سے بچا جاسکے گا۔