162

مسلم نوجوانوں کی منزل مقصود

مسلم نوجوانوں کی منزل مقصود

تحریر : صباء ناصر

کسی بھی قوم کے عروج و زوال میں نوجوانوں کا اہم کردار ہوتا ہے ناجوانی عمر کا قوی ترین دور ہوتا ہے ملک و معاشرے کی ترقی، مستقبل کو اپنی فکر و سوچ کے مطابق موڑنے کی صلاحیت اور وقت و حالات کو بدلنے کا جوش و جذبہ نوجوانوں میں موجود ہوتا ہے ان کی صلاحیتیں کسی بھی ملک کے لیے ریڑھ کی ہڈی کی مانند ہیں جس کی کمزوری اور طاقت پر پورے ملک کا مستقبل انحصار کرتا ہے

اگر مسلم نوجوان مثبت سوچ و فکر عقل و جذبات کے درمیان توازن برقرار رکھے تو پورا معاشرہ ملک و قوم مثبت دھارے کا رخ اختیار کر لیتا ہے اور اگر توازن برقرار نہ ہو تو ملک و قوم بربادی کے دہانے پر آجاتا ہے مسلم نوجوان معاشی استحکام غلبہ دین کی جدوجہد میں ایندھن کا کام کرتا ہے دین اسلام کی سنہری تاریخ میں اسلام کی خدمت اور اشاعت میں نوجوانوں کا بڑا کردار ہے قوتوں، صلاحیتوں،حوصلوں،

امنگوں،جفاکشی، بلند پروازی اور عزائم کا دوسرا نام نوجوانی ہے مگر افسوس ہائے افسوس کہ دور حاضر کا مسلم نوجوان اپنی تہذیب و ثقافت اور مذہب سے دور ہوکر اپنی صلاحیتیں کھو چکا ہے دور حاضر میں تعلیم کا مقصد صرف اور صرف پیشہ، مقام اور پیسہ اور سرمایہ بٹورنا رہ گیا ہے ہر نوجوان بس ڈاکٹر اور انجینئر بننے کی دوڑ میں لگا ہوا ہے جس کے باعث یہ ملک ترقی تعلیم یافتہ نہیں بلکہ صرف ڈگری یافتہ بن کر رہ گیا ہے یہی وجہ ہے کہ آج کا نوجوان بے شمار مسائل اور الجھنوں کا شکار ہے

ایک جانب غیر متوازن نظام تعلیم کی تباہ کاریاں تو دوسری جانب سے اقتصادی مسائل سے دوچار ہے ایک طرف اگر وقت پر نکاح نا ہونے کے مسائل تو جو دوسری جانب بے روزگاری کے مسائل،درست رہنمائی نہ ہونے کے باعث آج کا نوجوان اپنی شناخت کھو چکا ہے مسلم نوجوانوں کا مستقبل تابناک بنانا ہے تو ابھی بھی وقت ہے شہر کے معقول اور مخیر حضرات کو نوجوانوں کو سپورٹ کرنا چاہیے دو تین ماہ بعد نوجوانوں کے لئے کوئی اجلاس رکھیں انہیں ہر ممکن اپنے پیروں پر کھڑے ہونے کی تلقین کریں

علمی اور ادبی سائنسی میدان میں آگے بڑھنے میں ان کی مدد کریں انہیں بلند مقام حاصل کرنے کے گر بتائیں تعلیم اور ہنر کے حصول میں ان کی مدد کریں اگر کوئی نادار نوجوان جو علم سے رغبت رکھتا ہے تو اس کی ہر ممکن مدد کریں انہیں نئی نئی ایجادات کرنے کی رغبت دلائیں مستقبل کے مقاصد ان کے ذہن میں بٹھا دیں والدین کو چاہیے کہ بچپن ہی سے بچوں کو ان کے ٹارگٹ ان کو بتا دیں انہیں بتائیں

کہ بری صحبت کا برا آدمی بناتی ہے ہر دو تین ماہ بعد ان نوجوانوں کا جائزہ لیں اچھی کارکردگی دکھانے والوں کو انعام و اکرام سے نوازیں ان کو حوصلہ دیں کہ ہر ایک میں کوئی نہ کوئی صلاحیت موجود ہوتی ہے اور محنت کبھی رائیگاں نہیں جاتی تعلیم صرف اچھی نوکری کے حصول کے لیے ہی نہیں حاصل کرنی چاہیے بلکہ شعور اور آگاہی کے لیے بھی ہونی چاہیے آج کا نوجوان اپنے مذہب سے دور ہو گیا ہے

اس کی ترجیحات بدل چکی ہیں اب یہ ہم سب کا کام ہے کہ انہیں اپنی صحیح اور درست منزل سے آگاہ کریں اور درست سمت کا تعین کرنے میں ان کی بھرپور مدد کریں تاکہ وہ ملک و قوم اور معاشرے کے لیے ایک اچھا انسان بن سکے اور اسلامی تعلیمات سے واقفیت کے باعث دین اسلام کے شعائر اپنائے اور دین کی خدمت کرنے میں کبھی پیچھے نا ہٹے۔ تحریر :- صباء ناصر سیکریٹری جنرل و سربراہ شعبہ نفاذ اردو آوازِ خلق فاؤنڈیشن

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں