اہل مغرب کا دہرا معیار! 182

دہشت گردی کا نیا چیلنج !

دہشت گردی کا نیا چیلنج !

کالم نگار: تحریر :شاہد ندیم احمد

پا کستان میں ایک بار پھر دہشت گردی سر اُٹھانے لگی ہے ،ملک کے مختلف حصوں میں ایک بار پھر دہشت گردی کے واقعات بڑھنے لگے ہیں ،گزشتہ روز بلوچستان کے علاقے کیچ میں سیکورٹی فورسز کی چیک پوسٹ پر دہشت گردوں نے حملہ کرکے دس جوانوں کو شہید کر دیا ہے،وزیراعظم عمران خان کاسکیورٹی فورسز کی چیک پوسٹ پر دہشت گردوں کے حملے کی مذمت اور پاک فوج کے دس جوانوں کی شہادت پر گہرے افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہناہے کہ جوانوں کے خون کا ایک ایک قطرہ ملک کے تحفظ کا ضامن ہے، انہوں نے باور کرایا کہ بزدل دشمن کا ایک ایسی مضبوط قوم سے سامنا ہے

کہ جس نے پہلے بھی دہشت گردی کو شکست دی ہے۔یہ امر واضح ہے کہ ملک دشمن دہشت گر دانہ کاروائیوں سے قیام امن تباہ کرنا چاہتا ہے ،مگر عساکرپا کستان اپنی جانوں کا نذارانہ پیش کرکے قیام امن کیلئے کوشاں ہے ،مادر وطن کے لیے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کرنیوالے جوانوں کو قوم سلام پیش کرتی ہے کہ جنھوں نے ہمارے کل کے لیے اپنا آج قربان کر دیا ہے، ہم بحیثیت قوم بیتی دو دہائیوں سے دہشت گردی کے خلاف ایک طویل جنگ لڑ رہے ہیں ،اس میں ستر ہزار سے زائد جانوں کا نذرانہ شامل ہے،

اتنی قربانیوں اور مشقت کے بعد پاکستان کا جو پر امن چہرہ اُبھر کر سامنے آیا ہے، اس کے ایک بار پھر بدنما ہونے کے خطرات پیدا ہونے لگے ہیں۔اس میں شک نہیں کہ ملک دشمن قوتیں خاص طور پر بھارت اس بات کا خواہاں رہا ہے کہ پا کستان میں امن قائم نہ ہو سکے،جبکہ پاکستان کے سکیورٹی اداروں اور تمام شہریوں نے مل کر دہشت گردی کے خلاف جنگ میںہزار جانوں کی قربانی دی ہے،اس طویل بدامنی اور دہشت گردی کے خلاف جنگ کا سب سے تشویشناک پہلو یہ رہا ہے کہ ملک بھر میں کھیلوں کے میدان اور تفریح گاہیں ویران ہو گئے تھے

،کھیلوں کے بین الاقوامی کھلاڑی جونہی پاکستان آنے کا اعلان کرتے دہشت گردی کی المناک واردات ہو جاتی تھی ،حالیہ دنوں پاکستان سپر لیگ کرکٹ مقابلوں کا آغاز ہوا ہے،یہ مقابلے پرامن پاکستان کی صورت اجاگر کرنے میں کس قدر معاون ہیں، اس کا اندازہ وزیر اعظم عمران خان کی جانب سے خود تشہیری مہم کا حصہ بننے سے کیا جا سکتا ہے،پی ایس ایل میں کئی بیرونی ممالک کے نمایاں کھلاڑی حصہ لے رہے ہیں

،ان کھلاڑیوں کو انتہائی اعلیٰ سطح کی سکیورٹی فراہم کی گئی ہے ،تاہم ان کے قیام پاکستان کے دوران دہشت گردانہ وارداتیں پرامن ماحول کو گہنا سکتی ہیں۔اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ پا کستان میں دہشت گردانہ وارداتوں کا ایک سرا پی ایس ایل کے موقع پر فضا مکدر بنانے اور دوسرا افغانستان میں سکیورٹی کی صورت حال کو خطے میں بڑھتی ہوئی ہم آہنگی کی فضا کو خراب کرنے کے لئے استعمال کرنے سے بندھا ہے،اس سے قبل بھی پاک ایران سرحد پر کئی ایسے واقعات ہو چکے ہیںکہ

جن کی وجہ سے برادر ہمسایہ ممالک میں ناراضی پیدا ہوئی تھی ،تاہم دونوں جانب تحمل اور بردباری سے ایک دوسرے کا موقف سننے کے بعد مسائل حل کر لئے جاتے رہے ہیں،لیکن دہشت گردانہ واقعات کے تسلسل سے علاقے میں کسی وقت کشیدگی بڑھ سکتی ہے ،اس کے لیے ضروری ہے کہ مروجہ وجوہات تک پہنچ کر سد باب کیا جانا چاہئے ،اس بحث میں پڑے بغیر کہ حملے کون کر رہا ہے یا کون کروا رہا ہے، ماضی کی طرح اب بھی افغانستان میں بڑھتی بدامنی اور طالبان کے بڑھتے اثر و رسوخ کا براہ راست نہیں

تو بالواسطہ ان کارروائیوں سے تعلق ضرور ہے۔اس صورتحال میں طالبان کی باتوں پر اعتماد کر لینا کہ افغانستان کی سرزمین پاکستان کے خلاف استعمال نہیں ہوگی، ناکافی ہے، کیونکہ تاریخ ہمیں کچھ اور ہی رخ دکھارہی ہے،حالیہ واقعات نے افغان طالبان کی پالیسی سے متعلق شکوک و شبہات پیدا کر دیے ہیں،افغان طالبان کی طرف سے نرم گوشہ ظاہر کئے جانے کے بعد سے ہی ٹی ٹی پی کے حوصلے بڑھے ہیں،

اس حوالے سے رپورٹس ہیں کہ افغانستان میں ٹی ٹی پی کے رہنما محمد خراسانی اور خالد بلتی کی موت کے بعد اس تنظیم کے سرگرم افراد ٹھکانے بدل کرپنی موجودگی اور تنظیم کی قوت ظاہر کرنے کے لئے سکیورٹی فورسز اور عام شہریوں پر حملے کر رہے ہیں۔وطن عزیز کے دفاع کو ناقابل تسخیر بنانے کے لیے دہشت گردی کے عفریت کا سر کچلنا لازم ہو گیاہے، ہم سمجھتے ہیں کہ ان تمام واقعات اور عناصر کی سرگرمیوں کا باریک بینی سے جائزہ لینے کے بعد ایسی پالیسی مرتب کرنے کی ضرورت ہے

کہ ان واقعات کی روک تھام اور دہشت گردی کی تازہ لہر کا ابتداء ہی میں قلع قمع کیا جا سکے،اس کیلئے ان عناصر کو ابتداء ہی میں بھرپور جواب دینا بہت ضروری ہے، دہشت گردوں کے سلیپر سیلز اور ان تنظیموں کے نیٹ ورک کے خلاف جتنا جلد ممکن ہو سکے عملی اقدامات کرکے ان کا خاتمہ کیا جانا چاہئے،وزیر داخلہ دہشت گردی کی ہر واردات کے بعد خدشات کا اظہار کرکے اپنی ذمہ داری سے عہدہ برآ ہو جاتے ہیں،

ان کا کام صرف خدشات کا اظہار کرنا نہیں، بلکہ ایسی وارداتوں کو روکنا اور شہریوں کے جان و مال کو محفوظ بنانا ہے،امید کی جانی چاہیے کہ دہشت گردی کے خلا ف طویل جنگ لڑنے والی سکیورٹی فورسز ملک دشمن عناصر کی نئی دہشت گردانہ سر گرمیوں کا خاتمہ کرنے میں بھی جلد کامیاب ہو جائیں گی۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں