اہل مغرب کا دہرا معیار! 122

اہل مغرب کا دہرا معیار!

اہل مغرب کا دہرا معیار!

کالم نگار: تحریر :شاہد ندیم احمد

سنکیانگ چین کا مسلم اکثریتی علاقہ ہے، اس کی سرحد پاکستان اور افغانستان سے ملتی ہے،امریکا اور مغربی ممالک سنکیانگ کو لے کر چین کی کمیونسٹ حکومت پر تنقید کرتے رہتے ہیں ،لیکن مقبوضہ کشمیر میں جاری مظالم پر بات کرنی پڑے تو انھیں سانپ سونگھ جاتا ہے،اس دہرے معیار پر وزیراعظم پاکستان نے سخت تنقید کی ہے

،وزیراعظم نے مغرب کے دہرے معیار کو مسترد کرتے ہوئے واضح کیاہے کہ عالمی برادری نے کشمیراور سنکیانگ کے ایشوز پردہرا معیار اختیار کررکھا ہے،مغرب ایگر(ایغور) ایشو پرتو زمینی حقائق کے خلاف چین پر تنقید کرتا ہے، جب کہ کشمیر میں بھارتی مظالم پر خاموشی اختیار کر رکھی ہے۔
وزیر اعظم کا اہل مغرب سے مطالبہ درست ہے کہ مغرب90 لاکھ کشمیریوں کے مسئلے پر بھی بے چینی کا اظہار کرے اور بھارت پر دبائو ڈالے، معاشی مقاطہ کرے،معاشی پابندیاں عاید کرے، اسلحہ کی فروخت بند کرے، اہل مغرب سنکیانگ کے مسلمانوں پر ظلم وانسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کی بات کرتے ہیں،مگرمقبوضہ کشمیر کے مسلمانوں پربھارتی مظالم کے خلاف آواز بھی اٹھاتا ہے تو صرف تشویش کی حد تک ہی محدود رہتی ہے

،مقبوضہ وادی میں پون صدی سے بھارتی مظالم کا سلسلہ جاری ہے، مختلف کالے قوانین کے تحت غاصب سکیورٹی فورسز کشمیریوں کو ان کے گھروں سے اٹھا کرعقوبت خانوں میں ڈال کر مسلسل اذیت دیے رہے ہیں،مگر عالمی برادری سب کچھ جانتے بو جھتے ہو ئے بھی خاموش تماشائی بنی ہوئی ہے۔
در حقیقت اہل مغرب کو سنکیانگ کے مسلمانوں پر ظلم و ستم سے زیادہچین کی صنعتی ترقی نے پریشان کر رکھا ہے،چین کی ترقی اور بڑھتی ہوئی تجارت کا راستہ روکنے کے لیے امریکا اور اس کے اتحادی مغربی ممالک نے بھارت کے سر پر ہاتھ رکھا ہواہے،بھارت بھی خود کو امریکی سر پر ستی میںچین کا متبادل سمجھنے لگاہے،

لیکن چین کی ترقی کی رفتار اور زرمبادلہ کے ذخائر بھارت سے بہت زیادہ ہیں اور اس کا تجارتی حجم بھی بھارت کے مقابلے میں بہت زیادہ ہے،بھارت کوشش کے باوجود چین کا مقابلہ نہیں کر پائے گا ،مگر مغربی قوتوں کا آلہ کار بن کرخطے میں انتشار ضرور پر پا کرتا رہے گا،بھارت اسی پا لیسی پر گامزن دہشت گرانہ کا ر وائیوں کے ذریعے علاقے کا امن تباہ کرنے میں لگا ہوا ہے۔اہل مغرب ایک طرف انسانی حقوق کی باتیں کرتے ہیں ،سنکیانگ میں مسلمانوں پر مظالم کے خلاف آواز اُٹھاتے ہیں

،مگر دوسری جانب مقبوضہ کشمیر میں بھارتی مظالم پر کوئی سخت لائحہ عمل اختیار کرنے کیلئے تیار نہیںہیں ،کیو نکہ بھارت سے اہل مغرب کے مفادات جڑے ہیں ،یہ اہل مغرب کے مفادات کاہی نتیجہ ہے کہ بھارت میں اقلیتوں کو ظلم و ستم کا نشانہ بنا یا جارہاہے ہیں،بھارت میں ایسے واقعات کی خبریں مسلسل سامنے آتی رہتی ہیں

کہ جن میں یہ بھی بتایا جاتا ہے کہ ہندو انتہا پسندوں کی اقلیتوں کے خلاف کارروائیوں کے جواب میں قانون نافذ کرنے والے ادارے ایسی کوئی کارروائی نہیں کرتے کہ جس سے اقلیتوں کو تحفظ کا احساس ہو، لیکن بین الاقوامی برادری اور عالمی ادارے واضح ثبوتوں کے باوجود بھارت کے خلاف کوئی ٹھوس کارروائی کرنے کیلئے تیار نہیں ہیں۔
مغربی دنیا کی اس مبینہ خاموشی اور بے حسی کا نقصان سامنے آ کر رہے گا، کیونکہ پاکستان کسی صورت کشمیر سے دستبردار نہیں ہو گا، پاکستان کشمیریوں کے حقوق کی آواز بلند کرنے کے ساتھ اقوام متحدہ کو بھی اس کی قراردادیں یاد دلاتا رہے گا ،جو کہ اس نے کشمیر کے حوالے سے منظور کی تھیں،

تاہم ضرورت اس بات کی ہے مغربی دنیا اہل کشمیر کے درد کو سمجھتے ہوئے دو ٹوک مؤقف اپنائے، مغربی ممالک بھارت کی حمایت ترک کر دیں تو کوئی وجہ نہیں کہ بھارت کشمیریوں پر مظالم جاری رکھ سکے،لیکن عالمی برادری کے دہرے معیار کے سبب بھارت انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں جاری رکھے ہوئے ہے۔
دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت ہونے کے دعویدار ملک نے پون صدی سے کشمیریوں کے بنیادی انسانی حقوق غصب کررکھے ہیں اور ان حقوق کی بحالی کے لیے اقوام متحدہ اور اس کی سلامتی کونسل کی قراردادیں بھی موجود ہیں ،لیکن عالمی برادری کے بھارت کے لیے نرم رویے کی وجہ سے ان قراردادوں پر آج تک عمل درآمد نہیں ہوسکاہے، پاکستان اور بھارت دونوں جوہری قوت کے حامل ممالک ہیں،

اس لیے بھارت کے توسیع پسندانہ عزائم کبھی حقیقت میں تو نہیں ڈھل سکیں گے، لیکن اس کا جاریحانہ روئیہ خطے میں انتشار پر پا کرنے کے ساتھ دنیا ئے عالم کیلئے خطرہ ضرور بن سکتا ہے، بین الاقوامی برادری کو چاہیے

کہ اپنے مفادات کے ساتھ دنیائے عالم کے مفادات کا بھی خیال کرے،عالمی برادری سنکیانگ کے مسلمانوں کے حقوق کی آواز بلند کر نے کے ساتھ مسئلہ کشمیر کو اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق حل کرا کے خطے میں قیام امن کے لیے اپنا مواثر کردار ادا کر سکتی ہے ،تاہم اس کیلئے اپنے دہرے معیار میں نظر ثانی کرنے کی اشد ضرورت ہے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں