227

تعمیر سیرت میں تعلیم کاکردار

تعمیر سیرت میں تعلیم کاکردار

تحریر۔فخرالزمان سرحدی

پیارے قارئین کرام! عنوان اس قدر اہم ہے کہ جتنا بھی لکھا جائے تشنہ تکمیل ہی رہتا ہے۔سیرت کے ہم غلام ہیں کے مصداق موضوع توجہ طلب بھی ہے۔کردار اور سیرت انسان کا سب سے بڑا اثاثہ اور سرمایا ہوتا ہے۔اس کی نوک پلک سنوارنے میں تعلیم ہی کردار ادا کرتی ہے۔تعلیم ایسی دولت ہوتی ہے جو عرفان نفس اور تکمیل خودی کی صلاحیت پیدا کرتی ہے۔انسان کے رویہ وکردار میں بے پایاں تبدیلی پیدا کرتی ہے

۔حسن اخلاق کی رنگینی سے قلب وجگر میں رونق پیدا ہوتی ہے۔یہ حقیقت روزروشن کی طرح عیاں ہے کہ انسان کے کردار اور تعمیر سیرت میں تعلیم ہی مسلمہ کردار ادا کرتی ہے۔سیرت کے لفظی معنی ہیں رویہ و طریقہ اختیار کرنا۔عمل پیرا ہونا۔علم ایک وسیع سمندر ہوتا ہے جو روشنیوں کے اجالے پھیلاتا ہے۔رب کائنات کی قربت عطا کرتا ہے۔اس سے حسن زندگی میں اور بھی نکھار پیدا ہوتا ہے۔تعلیم ایک ایسا جوہر قیمتی ہے

جو انسان کے دل میں احساس اور قدرومنزلت پیدا کرتا ہے۔انسانی زندگی میں انقلاب تعلیم سے ہی پیدا ہوتا ہے۔ہمارا ملک پاکستان ایک نظریہ اور خیال پر قائم ہوا۔اس کی تعمیر وترقی اور اس میں بسنے والوں کی سیرت سازی میں تعلیم کامثالی کردار وقت کی ضرورت ہے۔جس ملک اور قوم کے افراد تعلیم یافتہ اور تہذیب یافتہ ہوں ان کی سیرت اور کردار قابل رشک ہوتی ہے۔اس ضمن میں تعلیمی اداروں کی بھاری ذمہ داریاں بنتی ہیں

کہ قوم کے نوجوانوں کوبامقصد تعلیم دیں۔صرف حصول ڈگری نہ ہو بلکہ قابل فخر سرمایہ کی تیاری ترجیحات میں شامل ہونی چاہییں۔اخوت اور محبت کے جذبہ سے سرشار نوجوانوں کی تیاری مقصود ہو۔نصاب تعلیم طلبہ کے سیرت وکردار میں اہم سنگ میل ثابت ہوتا ہے۔اس کی تشکیل میں ذمہ داری ہونی چاہیے تاکہ قوم کے نونہالوں کی شخصیت اور سیرت وہ کردار پر مثبت اثرات مرتب ہوں۔منفی رویئے پیدا نہ ہوں

۔حب الوطنی اور دینی شعور بیدارہو۔قوت عشق سے ہرپست کوبالاکر دے کے مفہوم کوسمجھ سکیں۔نگاہ بلند،سخن دلنواز،جاں پرسوز کے فلسفہ سے آگاہی حاصل کر سکیں۔اسلامی تعلیم تواور زیادہ ضروری ہے۔خود شناسی اور خدا شناسی کی صلاحیت تعلیم سے ہی حاصل ہوتی ہے۔عصر حاضرکے تقاضوں کے مطابق سیرت وہ کردار کی تعمیر میں تسلسل بہت ناگزیر ہے۔مذہبی لحاظ سے دینی تعلیم ہی واحد گوہر نایاب ہے

جو افراد کورب کریم کے قریب کرتا ہے۔گرنہ انسان تو جدت پسندی کے بھنور میں غرق ہو کر رہ جاتا ہے۔جو اقوام نئی نسل کی سیرت وہ کردار میں نکھار پیدا کرنا چاہتی ہیں انہیں تعلیم کے حسن عمل کی راہ اختیار کرنا ہے۔معلم انسانیت حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی آمد کے وقت سیرت وہ کردار کاکوئی نام ونشان نہ تھا

۔انسانیت حیوانیت کے لبادے میں لپٹی تھی۔وحی الہی کی روشنی میں ایسی تعلیم دی کہ پوری دنیا میں ایک تاریخ سازتبدیلی رونما ہوئی۔انسانی زندگی کے روپ میں ایک ایسی جھلک رونما ہوئی کہ قابل رشک ماحول پیدا ہوا۔اس کی روشنی میں آج بھی تعلیم وہ علم کی شمع روشن کرنے کی ضرورت ہے۔ا

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں