نئے چیف جسٹس اور عوامی توقعات ! 146

درویش اجمل خٹک کی یاد میں

درویش اجمل خٹک کی یاد میں

آج کی بات۔شاہ باباحبیب عارف کیساتھ

آپ شاید مجھ سے اتفاق کریں گے کہ پُر آشوب اور نفسا نفسی کے اس دور میں وہ افراد جو جوانی کی دہلیز پار کرتے ہوئے سن رسیدہ ہوتے جا رہے ہیں یعنی لڑکوں، نوجوانوں اور جوانوں کے ماسوا ایسی عمر کے حامل افراد جو، اب ان ادوار سے گزر چکے ہیں، سے جب بھی گفتگو کا سلسلہ دراز ہوتا ہے، تو حسرت و یاس سے ٹھنڈی آہ بھرتے ہوئے کبھی کبھی یہ ضرور کہا جاتا ہے ’’کیا اچھا زمانہ تھا،

لوگوں میں پیار، رواداری اور ایک دوسرے سے خیر خواہی کا جذبہ کس قدر بے کراں تھا ‘‘ یا یہ کہ پاکستان فلم انڈسٹری نے کیا شاہکار فلمیں تخلیق کیں، وہ بھی کیا دور تھا جب سینمائوں کے آگے لمبی لمبی قطاریں دلچسپ، پُرجوش تفریحی منظر پیش کرتی تھیں اور یہ کہ اُس وقت کے گیت آج بھی کانوں میں رس گھولتے رہتے ہیں‘‘

واقعتاً ایسا تھا بھی۔ طلبہ اور مزدور تنظیموں کے جلسے جلوس، فٹبال، والی بال، کبڈی اور دیگر کھیلوںکو دیکھنے والوں کا اژدہام، ریڈیو پر فرمائشی نغموں کے پروگرام اور ٹی وی سے پیش ہوتے شاہکار ڈرامے، جن کے لائیو ہوتے ہی سڑکوں اور گلیوں میں سناٹا چھا جاتا تھا ، نہ تو کسی کے پاس ہیروئن، منشیات استعمال کرنےکیلئے وقت باقی رہتا اور نہ ہی کلاشنکوف چلانے اور بم بنانے کیلئے 

پھر ضیاء الحق کا ’’جہادی‘‘ دور آیا جس نے ہماری ان سب شائستہ سرگرمیوں کو فتح کرلیا۔ جمہوریت میں جرنیلوں کی آمیزش ، زر پرست ، سیاسی،صحافتی اور مذہبی اشرافیہ کے ’’بے باک‘‘ کارناموں کے طفیل جو سیاسی طرز عمل ان دنوں بپا ہے، تو بے اختیار یہ بھی کہنا پڑتا ہے کہ کیا وہ دور تھا،

جب سیاست اور سیاست دانوں،یہاں تک کہ آمروں کے بھی ’’کچھ‘‘ اصول ہوتے تھے! ظاہر ہے کہ ان اصحاب کا قد اسی بات کا متقاضی تھا کہ جو بھی عمل کریں، لیکن لحاظ اس قد کا بہر صورت شرط اول ہو، بونوں سے ارفع اقدار کی توقع ہی کیونکر کی جا سکتی ہے!؟
طالب علم کو یہ خیال شاعر، افسانہ نگار، صحافی، مترجم، محقق، نقاد، ماہر لسانیات، ڈرامہ نگار، دانشور، سیاست دان، ہمہ جہت اجمل خٹک (بابا) کی برسی کے موقع پر ان کی یادوں کی سوغات لئے آیا۔ وہ نہ صرف ایسے درویش سیاستدان تھے، جنھوں نے کوچہ سیاست میں محض نیک نامی کے ماسوا کچھ نہیں کمایا،

بلکہ یہ اعجاز ان ہی کو حاصل ہے کہ وہ جس شعبے میں بھی گئے،داستاں چھوڑ آئے۔ 1938ء میں خوشحال خان خٹک کے مزار پر جب مشاعرہ پڑھنے کے لئے آئے تھے، تو اتنے چھوٹے تھے کہ آپ نے کرسی پر کھڑے ہو کر اپنی نظم سنائی ، پھر آپ کا قد آسمان کی بلندیوں کو چھونے لگا اورشاعری، ادب و تاریخ پرتقریباً 26 مایہ ناز تصانیف کے علاوہ مختلف موضوعات پرسیکڑوں مقالے اورمضامین لکھے

۔ جناب سلیم راز کے مطابق پشتو نظم میں ان سے بڑا شاعر آج تک پیدا نہیں ہوا۔ 1947ء میں پاکستان کا پشتو میں پہلا ملی ترانہ بھی آپ نے لکھا، جو اس وقت کے مقبول گلوکار استاد سبز علی خان کی آواز میں نشر ہوا۔ اجمل خٹک ترقی پسند تحریک کے زیر اثر ’’اولسی ادبی جرگہ‘‘ کے فعال ممبر اور فلسفہ مارکس ازم کے بہترین مبلغ تھے۔ آپ پر رجعت پسندوں نےکفر کے فتوے بھی لگائے،

لیکن ان کی پروا نہ کرتے ہوئے آپ نے صبر و استقلال سے قوم میں ڈکٹیٹروں اوراستحصالی قوتوںکے خلاف شعور اجاگرکرنے کیلئےسیاست،صحافت اور شاعری کو وسیلہ بنایا۔ پشاور میں اجمل خٹک اور راج کپور ایک ہی اسکول کے طالب تھے۔ راج کپور کے والد پرتھوی راج ان میںچھپی فنکارانہ صلاحیتوںکا اکثر ذکر کرتے۔ اجمل خٹک، خدائی خدمتگار تحریک کے بانی باچا خان سے متاثر تھے۔ 1943ء میں ’’ہندوستان چھوڑ دو‘‘ تحریک کی وجہ سے آپ کا تعلیمی سلسلہ وقتی طور پر موقوف ہوا

اور اسی سال محکمہ تعلیم میں 20 روپے ماہانہ تنخواہ پر معلم بھرتی ہوئے۔ اس دوران آپ نے پنجاب یونیورسٹی سے پشتو آنرز، منشی فاضل اور ادیب فاضل کے امتحانات امتیازی نمبروں سے پاس کئے اور فارسی میں ایم اے کیا۔ یکم اپریل 1948ء کو ریڈیو پاکستان پشاور میں بطور اسکرپٹ رائٹر ملازمت اختیار کی، جہاں احمد ندیم قاسمی، ن م راشد، ناصر انصاری، احمد فراز اور خاطر غزنوی جیسے شعراء و ادباء کی رفاقت نصیب ہوئی۔ 1953ء میں آپ نے شادی کی اور اسی سال اپریل میںگرفتار ہوئے،

چار مہینے بعد رہا ہوئے لیکن اکتوبر میں پھر گرفتار کرلئے گئے۔ آپ نیشنل عوامی پارٹی کے سیکرٹری جنرل رہے اور پشاور، ڈیرہ اسماعیل خان، ہری پور اور مچھ جیل میں کئی سال تک قید وبند کی صعوبتیں برداشت کیں۔ سیاسی نظریات پر سمجھوتے نہ کرنے کے باعث جب آپ ریڈیو سے فارغ کردیئے گئے تو اس کے بعد 1956ء میں روزنامہ بانگ حرم کے ایڈیٹر بن گئے۔آپ اپنے وقت کے مقبول اخبار انجام سمیت کئی اخباروں کے ایڈیٹر رہے۔آپ نے ہر محاذ پر عوامی حقوق کیلئے آواز اٹھائی، جس کی پاداش میں آپ کی زندگی ہمیشہ زیر عتاب رہی۔ ایک واقعہ جس کا ذکر کرتے کرتے اجمل خٹک صاحب رو دیا کرتے تھے،

بتاتے تھے کہ ایک مرتبہ انہیں پولیس نےگرفتارکیا اورہتھکڑیاں لگاکر تشدد کرتے ہوئے تلاشی کیلئے جب گھر لائے، تو میری والدہ نے یہ حالت دیکھ کر پولیس والوں کو بددعائیں دینا شروع کیں،جس پر ان ظالموں نے میری والدہ کو بالوں سے پکڑکر چارپائی سے نیچے گرایا اور زمین پر گھسیٹتے رہے۔ 1975ء میں لیاقت باغ میں نیپ کے جلسے پر فائرنگ ہوئی، جس میں خان عبدالولی خان بال بال بچ گئے تھے

، خون میں لت پت کئی نوجوانوں نے اجمل خٹک کی گود میںدم توڑ دیا،اور یوں دل برداشتہ ہو کر وہ افغانستان چلے گئے اور 13 سال کی جلاوطنی کے بعد 1988ء میں پاکستان چلے آئے۔ وہ 1988ء میںرکن قومی اسمبلی اور بعد ازاں ممبر سینیٹ بنے۔ وہ خان عبدالولی خان کی قیادت میں عوامی نیشنل پارٹی کے صدر رہے۔ ولی خان اور اجمل خٹک ایک دوسرے کا بے حد احترام کرتے تھے، اجمل خٹک اسٹیج پر تقریر کرنے آتے،

تو ابتداء میں کہتے،میرے رہبر،میرے یار ولی خان … پھر تقریر شروع کرتے۔ آپ یگانہ روزگار تھے۔ انگریزی، روسی، ہندی، فارسی، جرمن اور عربی پر عبور تھا۔ بنگلہ دیش کے ادیب قوی جیسم خان کے لئے آپ نے ایک فلم کی کہانی بھی لکھی تھی، جس میں یہ سوال اٹھایا تھا کہ سب لوگ تو حسن کے پیچھے مارے مارے پھرتے ہیں لیکن خود حُسن کس کی تلاش میں ہے!؟ شبانہ اعظمی کے والد کیفی اعظمی کے ساتھ ان کی دوستی تھی۔ نصیر الدین شاہ خصوصی طور پر ان سے ملاقات کیلئے کابل گئے تھے،

اگرچہ وہ کمیونسٹ پارٹی میں بھی رہے اور ان کے مجموعہ کلام ’’دَ غیرت چغہ‘‘ (غیرت کی پکار)کو جدید پشتو شاعری میں لوگ کارل مارکس کی کتاب ’’داس کپیٹل‘‘ سے مماثل بھی قراردیتے ہیں، لیکن آپ اشتراکیت کو ایسا فکری مجموعہ نہیں سمجھتے تھے،جس میں دین کی گنجائش نہ ہو۔ آپ قرآن مجید ترجمے سے پڑھنے کی تلقین کرتے اور فرماتے، اسی سے صراط مستقیم سمجھا اور اس پر چلا جا سکتا ہے۔

نامور صحافی مدثر مرزا صاحب نے راقم کوبتایا تھا کہ جب وہ حج کے موقع پر مسجد نبویؐ میں پاکستان کے علماء کے ساتھ بیٹھے تھے، تو ہمیں کسی کی ہچکیوں اور رونے کی آواز آئی، جب دیکھا تو اجمل خٹک نماز میں دنیا و مافیہا سے بے خبر رب العالمین کے حضور گڑگڑا رہےتھے۔ بلا مبالغہ اجمل خٹک جیسے صاحبِ کردار پاکستانی سیاست میں نایاب ہوتے جا رہے ہیں۔ ان کی زندگی کا اثاثہ وہ درد و غم ہیں

جو انہوں نے عوامی آدرشوں کی تکمیل کی خاطر سیاست میں پائے۔ وہ اپنے رب کے پاس ایسی حالت میں مراجعت فرما گئے، کہ نہ ان کا بینک بیلنس تھا اور نہ پختہ مکان! یہاں تک کہ ان کے تعلیم یافتہ، باصلاحیت اور اہل لیکن بیروزگارصاحبزادے ایمل خان خٹک کو نواز شریف صاحب نے جب اچھی ملازمت کی پیشکش کی تو اس درویش کا جواب تھا، ہاں جب قوم کے ہر بیٹے کو ملازمت مل جائےگی تو پھر اسے بھی دے دینا !

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں