108

اختلاف کی بجائے اتفاق رائے!

اختلاف کی بجائے اتفاق رائے!

تحریر :شاہد ندیم احمد

سیاست میں دوستیاں نہ دشمنیاں دائمی ہوتی ہیں، بلکہ اپنے مفادات کے پیش نظر حالات کے مطابق بدلتی رہتی ہیں، اسکی تازہ مثال یہ ہے کہ میاں شہباز کی رہائش گاہ پر آصف علی زرداری اور بلاول بھٹو کے اعزاز میں دئیے گئے ظہرانے کے موقع پر دونوں جماعتوں کی قیادت میں ماضی کے اختلافات بھلا کر حکومت کے خلاف پارلیمنٹ میں تحریک عدم اعتماداور تمام جمہوری، آئینی اور قانونی آپشنز استعمال کرنے پر اتفاق رائے ہوگیا ہے،تاہم یہ اتفاق رائے کب دوبارہ اختلاف رائے میں بدل جائے گا ، آئندہ آنے والا وقت ہی بتاسکتا ہے۔
اس میں شک نہیں کہ اپوزیشن کا پہلے دن سے ایک ہی ایجنڈا چلا آرہا ہے کہ حکومت کو رخصت کرنا ہے ،مگر اس ایجنڈے کی تکمیل میں خرابی کی صورتیں قدم بہ قدم پیدا ہوتی رہی ہیں،پیپلزپارٹی کا استدلال ہے کہ حکومت کو عدم اعتماد کی تحریک کے ذریعے رخصت کیا جائے ،جبکہ مسلم لیگ (ن) بشمول پی ڈی ایم کی دیگر جماعتیں بزور دھرنا و ریلی سے حکومت کوبھگانا چاہتی ہیں، اپوزیشن جماعتوں کا تمام تر کائوشوں کے باوجودکسی ایک ایجنڈے پر اتفاق رائے نہیں ہو پا رہا تھا ،لیکن کچھ دنوں سے ایسے پے در پے واقعات ضرور ہو رہے ہیں کہ جن سے ایسا لگتا ہے کہ پس بردہ کوئی کھچڑی کہیں نہ کہیں ضرور پک رہی ہے،جس کے باعث اختلاف رائے اتفاق رائے میں بد لنے لگا ہے۔
یہ امر واضح ہے کہ اپوزیشن پارٹیاں کسی نہ کسی طریقے سے اسٹبلشمنٹ کی اعانت سے اقتدار تک پہنچنا چاہتی ہیں ،لیکن یہ سب مل کر بھی کوئی ایسا سیاسی پلیٹ فارم فراہم کرنے میں ابھی تک ناکام رہی ہیں کہ جس کی بنیاد پر اسٹبلشمنٹ کسی بڑے سیاسی فساد کے بغیر موجودہ حکومت سے فاصلہ قائم کر لے اور ملک میں پارلیمان کے ذریعے سیاسی تبدیلی کی راہ ہموار ہو جائے، اپوزیشن کی تمام جماعتیں بدستور

خود کو مستقبل کی متبادل حکومت کے طور پر تو ضرورپیش کر رہی ہیں،مگر ان سب کے پاس بھی ملکی مسائل کے حل کا کوئی قابل عمل موثر فارمولا موجو ہے نہ ہی کوئی ایسا سیاسی جواز فراہم کیا جا سکا ہے کہ جس کی بنیاد پر مو جودہ حکومت کے خلاف عدم اعتماد کے بعد عبوری مدت کے لئے قابل عمل سمجھا جا سکے۔
اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ اپوزیشن کی تحریک عدم اعتماد اسٹبلشمنٹ کی اعانت کے بغیر ممکن نہیں ہے ، اس لیے اپوزیشن قیادت کی باہمی ملاقاتیں تاثر دینے کی کوشش کررہی ہیں کہ اپوزیشن اور اسٹیبلشمنٹ ایک پیج پر آچکے ہیں ، حکومت کے وزراء آج بھی اسٹبلشمنٹ کی سر پرستی کے دعویدار ہیں جبکہ، تر جمان افواج کا کہنا ہے کہ انہیں سیاست میں نہ گھسیٹا جائے ،لیکن اپوزیشن اور حکومت

دونوں ہی افواج کو سیاست میں ملوث کرنے کی کوششوں میں لگے ہیں، حکومت اور اپوزیشن دونوں ہی باتیں عوام کی کرتے ہیں ،ووٹ کو عزت دو کے نعرے بھی عوام کے ساتھ لگاتے ہیں ،مگر حصول اقتدار کیلئے عوام کی بجائے اسٹبلشمنٹ کی جانب دیکھنے لگتے ہیں۔شیخ رشید درست کہتے ہیں کہ سیاستدانوں کی اکثریت گیٹ نمبر چار سے اقتدار کے ایوانوں تک پہنچی ہے ،سیاسی قیادت مقتدر قوتوںکے سہارے ایوان اقتدار تک تو پہنچ گئی ہے ،مگر ان سب کے پاس ملکی مسائل کا کوئی حل موجود نہیں ہے ،

حکومت ملکی مسائل کے تدارک میں کا میاب ہوتی نظر آتی ہے نہ اپوزیشن کے پاس ہی کوئی متبادل حل موجودہے، حکومت اور اپوزیشن عوامی مسائل کے تدارک کی بجائے نعرے بازی اور ایک دوسرے کی ذات میں کیڑے نکالنے میں لگے ہوئے ہیں، اپوزیشن عمران خان کو نااہل کہہ کر یہ باور کروانا چاہتی ہے کہ ان کے خلاف عدم اعتماد ہی مسئلہ کا واحد حل ہے،جبکہ حکومت اپوزیشن لیڈروں کو لٹیرے قرار دے کر یہ ثابت کرنا چاہتی ہے کہ ملکی مسائل کی اصل وجہ سابقہ لیڈروں کی کرپشن ہے، ان سب کو جیلوں میں ہونا چاہیے،سیاست میں سیاسی اختلاف نے ذاتی اختلاف کی شکل اختیار کر تے جارہے ہیں ،اس سے جمہوریت خطرے سے دوچار ہو سکتی ہے۔

اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ آئین میں دیئے گئے آپشنز کا استعمال کرنا پارلیمنٹ میں موجود ہر پارٹی کا حق ہے،تاہم اس وقت پاکستان کو لاحق مسائل کا ادراک کرنا بھی ہر کسی پر لازم ہے، اپوزیشن حکومت کو ناکام ترین قرار دے رہی ہے تو کیا اس نے ان بحرانوں کا حل تلاش کر رکھا ہے،جنکے باعث بقول اسکے حکومت ناکام ہوئی ہے؟اس بات کی کیا ضمانت ہے کہ اپوزیشن میں پھر اختلافات پیدا نہیں ہونگے؟

حکومت گرانے کے عواقب کسی کے ذہن میں ہیں؟اپوزیشن کو اسکے آئینی حق سے کوئی نہیں روک سکتا ،لیکن اس کی خواہشات کے ایسے مضر اثرات بھی مرتب ہو سکتے ہیںکہ جن کا ملک متحمل نہیں ہو سکتاہے ،کیا یہ بہتر نہیں ہو گاکہ حکومت اور اپوزیشن ایک دوسرے کو گرانے کی بجائے مل کر ملک کو مشکلات سے نکالینے کی کوشش کریں،سیاست تو بعد میں بھی ہوتی رہے گی،تاہم اس ضمن میں پہل حکومت کو ہی کرنا پڑے گی۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں