مزاحمت کی علامت بنی مسکان!
تحریر :شاہد ندیم احمد
بھارت میں انتہا پسند ہندوئوں نے مسلمانوں پر عرصہ حیات کس قدر تنگ کر رکھا ہے، اِس کی ایک دل دہلا دینے والی مثال گزشتہ روز ریاست کرناٹک میں سامنے آئی، جہاں تعلیمی اداروں میں مسلمان طالبات کے حجاب پہننے پر پابندی عائد کر دی گئی ہے،اس پابندی کے بعدجب ایک طالبہ مسکان حجاب پہن کر آئی تو ہندو غنڈوں کے ایک ہجوم نے کالج کے احاطہ میں اسے گھیر لیا اور جے شری رام کے نعرے لگاتے ہوئے
اسے پکڑنے کیلئے آگے بڑھے،اس جرأت مند طالبہ نے ان سے ڈرنے کی بجائے نعرہ تکبیر بلند کیا اور مسلسل اللہ اکبر کی صدا بلند کرتے ہوئے کلاس کی طرف بڑھتی گئی،یہ اپنی نوعیت کا پہلا واقعہ نہیںہے ،ایک عرصے سے انتہا پسند ہندو کرناٹک سمیت کئی ریاستوں میں مسلمان طالبات کو مسلسل ہراساں کر رہے ہیں ،جبکہ بھارتی سر کار انتہا پسند ہندئوں کے خلاف سخت کاروائی کرنے کی بجائے ان کی پشت پناہی کررہی ہے۔
یہ امر واضح ہے کہ بھارت میں مسلمانوں کے ساتھ ہمیشہ سے امتیازی سلوک ہوتا رہا ہے ،تاہم مودی سر کارکے آنے کے بعد ہندوتوا مائنذ سیٹ وہاں پہلے سے بہت زیادہ پھیل گیاہے،اس کی وجہ سے بھارت میں رہنے والی اقلیتوں کے لیے عمومی طور پر اور مسلمانوں کے لیے خصوصی طور پر زندگی اجیرن بنا دی گئی ہے، آئے روز وہاں کسی ایک بہانے یا کسی دوسرے بہانے مسلمانوںپر ظلم و تشدت کیا جارہاہے،
ہندوتوا کے غنڈے آئے دن بیدردی سے ریاست کی حمایت کے ساتھ مسلمانوں کا قتل عام کررہے ہیں ،مگر انہیں کوئی روکنے کیلئے تیار نہیں ہے ،بھارت میں جہاں مسلمانوں کے لیے رہنا مشکل کر دیا گیا ہے، وہیںحکومتی پالیسیاں اور فیصلے بھی اس انداز میں کیے جا رہے ہیں کہ بھارت میں ماسوائے ہندووں کے کوئی دوسرا نہ رہ سکے۔
یہ بھارتی مسلمانوں کے لیے ایک مشکل ترین دور ہے ،لیکن اس مشکل دور میں سیکولر انڈیا کا چہرہ دنیا کے سامنے بے نقاب ہورہا ہے، بھارت ایک ایسے راستے پر چل نکلا ہے کہ جہاں انتشار بھڑنے کا شدید خطرہ دکھائی دیے رہاہے،بھارت میںمسلمانوں کے علاوہ دیگر اقلیتوں کے خلاف بھی نفرت کو ریاستی لیول پر اُبھارا جا رہا ہے،اس انتہا پسندانہ رویئے کے خلاف مسکان خان کی ہمت کو داد دینا چاہئے
کہ جس نے اکیلئے ایسا کام کر دکھایا ہے جو شاید لاکھو ں کا مجمع بھی نہیں کر سکتا تھا ،لیکن اس واقعے کے اثرات کیا ہوں گے ؟کیا اس سے مسلمانوں کیلئے بھارتی سر زمین پر اپنے مذہب و ثقافت کے مطابق زندگی گزارنے کی آسانی پیدا ہو سکے گی ؟
اس واقعے کے بعدبھارتی مسلمانوں کی زندگی میں تبدیلی آئے گی یا نہیں ،مگر دنیا بھر میں اس کے خلاف آوازیں ضرور اُٹھنے لگی ہیں ،بھارت میںجو ظلم وتشدت مسلمانوں کے ساتھ روا رکھا جارہا ہے اور جس بربریت کا سامنا مقبوضہ کشمیر ی عوام کررہے ہیں، اُس کو روکنے کے لیے عالمی دنیا کو اپنی بے حسی ختم کرنا پڑے گی اور اس کے لیے مسلمان ممالک کو بھی مل کر آواز اُٹھانا ہوگی ، اگرانتہا پسندی کے خلاف مسکان کے دلیرانہ رویئے کے باوجود مسلمان ممالک کے حکمرانوں کو شرم نہ آئی اور اُن کے سوئے ہوئے ضمیر نہ جاگے تو پھر ایک کے بعد ایک ایسے مزید واقعات رونماں ہوں گے
،یہ وارننگز پہلے سے ہی دی جا رہی ہے کہ بھارت تیزی سے ایسے حالات کی طرف بڑھ رہا ہے کہ جہاںبھارت میں باہمی انتشار بہت زیادہ بڑھنے کا خطرہ ہے۔یہ امر کسی حد تک حوصلہ افزا ہے کہ بھارت میں ہونے والے انتہا پسندانہ واقعات کے خلاف ملک کے اپنے اندر سے بھی مختلف گوشوں سے آوازیں بلند ہونے لگی ہیں،
لیکن حکومت کی سرپرستی کی وجہ سے کوئی سرکاری ادارہ ہندو انتہا پسند جتھوں کے خلاف کوئی ٹھوس کارروائی نہیں کر پارہا ہے ،اس صورت حال میںبھارت کی اقلیتیں بین الاقوامی برادری اور عالمی اداروں کی طرف دیکھ رہی ہیں کہ شاید ان کی طرف سے نوٹس لیتے ہوئے ایسی کارروائی کی جائے کہ جس کے نتیجے میں انتہا پسندانہ مظالم کا سلسلہ رک جائے، لیکن عالمی برادری بھارت کے خلاف کوئی ایسی کارروائی کرنے پر آمادہ دکھائی نہیں دیتی ، کیو نکہ دنیا ئے عالم کے معاشی مفادات بھارت سے جڑے ہیں۔
دنیائے عالم کب تک بھارتی مسلمانوں اور کشمیریوں پر ڈھائے جانے والے مظالم پر خاموش رہے گی ،یہ عالمی قوتوں کیلئے کڑا امتحان ہے کہ ایک نہتی مسلمان طالبہ کو ہراساں کرنے والے ہجوم اور اس کی سرپرستی کرنے والی حکومت کے خلاف کیا اقدام کرتے ہیں،اس وقت دنیا ئے عالم کو بھارتی انتہا پسندی کے واقعات غیر اہم دکھائی دے رہے ہیں ،لیکن جس دن ان واقعات کے باعث بڑے مسئلے جنم لیں گے ،
اس دن پوری عالمی برادری شور مچا رہی ہوگی ،بھارتی انتہا پسندی کے خلاف ایک نہتی مسلمان مسکان نے مزحمت کی علامت بنتے ہوئے عالمی ضمیر کو جھنجوڑا ہے، اقوام متحدہ اور دیگر اہم بین الاقوامی اداروں کو چاہئے کہ اس واقعے کا فوری نوٹس لیتے ہوئے بھارتی حکومت سے مطالبہ کریں کہ اقلیتوں کے حقوق کی حفاظت کرے اور ایسے انتہا پسند جتھوں کو شہ اور تحفظ نہ دے کہ جو دوسروں سے جینے کا حق بھی چھیننا چاہ رہے ہیں۔