حکومت اور اپوزیشن ایک پیج پر ہے!
تحریر :شاہد ندیم احمد
اپوزیشن عرصہ دراز سے حکومت کے خاتمے کیلئے مختلف حربے استعمال کرتی نظر آتی ہے ،حزب اختلاف قائدین صبح شام حکومت اور وزیر اعظم پر شدید تنقید کے تیر اور نشتر چلاتے نہیں تھکتے ہیں، اپوزیشن قیادت کی جانب سے کبھی اسلام آباد کی طرف لانگ مارچ کی تاریخیں دی جاتی ہیںتوکبھی اسلام آباد کے ڈی چوک پر حکومت کے خاتمے تک دھرنا دینے کی دھمکیاںسنائی دیتی ہیں اور اب وفاقی اور صوبائی حکومتوں کے خلاف تحریک عدم اعتماد لانے کے عزائم ظاہر کئے جا رہے ہیں ،
مگر یہ تحریک عدم اعتماد کب اور کیسے لائی جائے گی، کوئی بتانے کیلے تیار نہیں ہے۔
اس وقت ملک بھر میں بڑھتی مہنگائی ،بے روز گاری کے باعث عوام کا براحال ہے ،مگر حکومت اور اپوزیشن کی تر جیح عوام نہیں، حصول اقتدار ہے ،اس حصول اقتدار کی دوڑ میں عوام مسلسل نظر انداز ہورہے ہیں ، حکومت نے اپوزیشن کے شور شرابے میں اپنے چار سار مکمل کر لیے ہیں اور باقی ماندہ عرصہ بھی خوش اسلوبی سے پورا کرلے گی ،اپوزیشن کی تحریک عدم اعتماد کا میاب ہونے والی ہے
نہ حکومت کہیں جائے گی ،تاہم اپوزیشن قیادت کا اصرارہے کہ حکومت چند دن کی مہمان اور بہت جلد جانے والی ہے ،حزب اختلاف کے ایسے دعوئے سنتے سنتے عوام کے کان پک چکے ہیں ، اپوزیشن کوئی ٹھوس عملی اقدام تاحال سامنے لاسکی نہ تحریک عدم اعتماد کیلئے اپنی تعداد پوری کرپائی ہے،جبکہ حزب اختلاف کی گیدڑ بھبکیوں کی پرواہ کئے بغیر حکومت عوام پر آئی ایم ایف کے ایجنڈا کے مطابق مہنگائی اور بے روز گاری کا بوجھ لادے چلے جا رہی ہے ،اپوزیشن کسی بھی مرحلہ پر بھی حکومت کا راستہ روکنے میں سنجیدہ دکھائی نہیں دی ہے ،بلکہ ہر مشکل موقع پر حکومت کو راستہ دیتی اور تعاون کرتی چلی آ رہی ہے ۔
اگر دیکھا جائے تو ایوان بالا میں اپوزیشن کی اکثریت ہے ، اس کے باوجود حکومت اپنی من چاہی قانوسازی کرتی چلی جارہی ہے ،اگر اپوزیشن چاہئے تو حکومت کے لیے قانون سازی مشکل ہی نہیں، محال بھی بنا سکتی ہے،
مگر اپوزیشن کی جانب سے تمام تر دعوئوں کے باوجود ایسی کو ئی روکاوٹ پیدا کرنے کی کوشش نہیں کی جارہی ہے ،اپوزیشن قیادت نے بظاہر زبانی کلامی حکومت مخالف رویہ ضرور اپنارکھا ہے ،مگر عملی طور پر حکومت کا پارلیمان میں ساتھ دیا جارہا ہے، حکومت جب بھی کسی مشکل صورت حال سے دو چار ہوئی ہے ،،
حزب اختلاف نے ہمیشہ عملی طور پر سہولت کار کا ہی کردار ادا کیا ہے۔حکومت اور اپوزیشن کا پس پردہ پارلیمانی کردار کسی سے ڈھکا چھپا نہیں رہا ہے ،یہ ابھی ایک مہینہ پہلے کی بات ہے کہ حکومت آئی ایم ایف کی شرائط پوری کرنے کے حوالے اسٹیٹ بنک خو دمختاری بل منظوری کروانے کے سلسلے میں خاصی پریشان تھی، اس مشکل مرحلہ پر حزب اختلاف ہی حکومت کی سہولت کار بن کر سامنے آئی
اور ایوان بالا سے قانون منظور کروانے میں ایسے مدد فراہم کی گئی کہ بہت سے دیگر ارکان کے علاوہ خود ایوان بالا میں قائد حزب اختلاف ہی موجود نہیں تھے، یوں حکومت اکثریت نہ ہونے کے باوجود آئی ایم ایف کی مرضی کا اسٹیٹ بنک خود مختاری بل ایوان بالا سے منظور کرانے اور ایک ارب ڈالر کی قرض کی قسط حاصل کرنے میں کامیاب ہو گئی تھی۔اپوزیشن جس طرح پارلیمان میں قانون سازی میں روکاوٹ بننے کی دعوئیدار رہی ہے ،اسی طرح سیاسی امور میں ایسٹبلشمنٹ کی بڑھتی ہوئی
مداخلت پر بھی شدید شاکی چلی آ رہی ہے،مسلم لیگ( ن) قیادت تو بھرے جلسوں میں فوجی جرنیلوں کے نام لے کر زبان طعن دراز کرتے چلے آ رہے ہیں،مگر پھرپوری قوم نے دیکھا ہے کہ جب مسلح افواج کے سربراہ کی مدت ملازمت میں توسیع کا موقع آیا تو پیپلز پارٹی ہی نہیں( ن) لیگ کے ارکان اسمبلی نے بھی حکومت کا ساتھ دیا اور دونوں نے مل کرمسلح افواج کے سربراہ کی مدت ملازمت میں توسیع کردی
، یہ سب کچھ ارکارن پارلیمان نے اپنی مرضی سے نہیں،بلکہ اُن پارٹی قیادت کی باقاعدہ ہدایت پر کیاکہ جو ایسٹبلشمنٹ کو حرف تنقید بناتے نہیں تھکتے ہیں۔حکومت اور اپوزیشن کے قول وفعل کا تذاد عوام کے سامنے عیاں ہو چکا ہے ، حکومت اور اپوزیشن کی ایک دوسرے پر لفظوں کی گولہ باری محض عوام کو بے وقوف بنانے کے سوا کچھ بھی نہیں ہے،حکومت لٹیروں کا احتساب کرے گی نہ اپوزیشن کی تحریک عدم اعتماد کامیاب ہو گی
،دونوں بظاہر ایک دوسرے کے خلاف اور اندر سے مددگار ہی رہیں گے ،اپوزیشن تحریک عدم اعتماد اور احتجاجی ریلیوں کے سہارے حکومت کے خاتمے کے دعوئے کرتی رہے گی اور حکومت کڑے احتساب میںایک دھیلے کی کرپشن بھی ثابت نہیں کرپائے گی،یہ عوام کو بے وقوف بنانے کا کھیل تماشا پہلے بھی چلتا رہا اور آئندہ بھی ہونہی چلتا رہے گا ،کیو نکہ حکومت اور اپوزیشن ایک پیج پر جبکہ عوام اس پیج سے باہر ہیں ۔