119

مادری زبان اور عصر حاضر کے تقاضے

مادری زبان اور عصر حاضر کے تقاضے

تحریر :مدثر اقبال بٹ

21فروری،مادری زبان کے عالمی دن کے حوالے سے خصوصی تحقیقی مضمون

زبان ہزارہا سال کے سفر کے بعد آج جس مقام پر موجود ہے یہاں سے سفر آغاز ہوتے ہیں جن کی منزل انسانی فکر کی معراج ہے۔وہ سائنس ہویا فلسفے کی گتھیاں ،منطق یا طب کی جدت،مکان سے لامکاں تک کا سفر ہو یا شعروسخن کے وسیع تصوراتی جزیرے۔سب کرامات زبان ہی کے طفیل ممکن ہیں۔زبان تہذیب کی پہلی سیڑھی ہے،

جس کے ترتیب پانے سے معاشرے نے مہذب ہونے کی جانب قدم اٹھایا۔یہ ہزاروں سال کا سفر ہے جس میں زبان مسلسل آگے بڑھتی رہی اور معاشرتی تشکیل سیڑھیاں طے کرتے ہوئے تہذیبی دائرے کھینچتی گئی۔زبان کے ترتیب دینے میں کسی ایک فرد یا زمانے کا کردار نہیں ہوتا بلکہ یہ اجتماعی کوشش اور مسلسل ریاضت سے اپنی بہترین شکل تک پہنچتی ہے۔ایسا نہیں کہ زبان ایک ہی وقت میں تکمیل کے مراحل طے کر گئی یا اسے مذہب کی طرح عظیم اور مقرر کئے گئے

رب کے بندوں نے عام انسانوں کے لیے پیش کر دیا۔یہ ایسی ریاضت ہے جس میں امیر ، غریب یا طبقاتی تفریق کے بغیر ہر کسی نے برابر حصہ ڈالا۔کم از کم زبان ایسا معاملہ ہے کہ خواہ کسی فردیاگروہ کا تعلق کسی بھی خطے یا قبیلے سے ہو، یہ فیصلہ صادر نہیں کر سکتا کہ فلاں الفاظ خارج کر دیے جائیں کیوں کہ انہیں تخلیق کرنے والے چھوٹی ذات، دوسرے مذہب یا فرقے سے تعلق رکھتے تھے۔اگر یہ طے کر لیا جائے

کہ معاشرتی تشکیل اور انسانی ترقی کاسب سے بڑا ذریعہ آج بھی زبان ہی ہے تو ہر گز غلط نہیں ہوگا۔ہمیں زبان نے ایک دوسرے کے ساتھ جوڑ رکھا ہے۔ہمارے عقائد،خیالات،دانش اور دیگر معاملات زبان ہی کے زور پر سفر کر پائے ہیں۔

زبان کا پہلا سرا تلاش کرنا ،کہ یہ کب کہاں اور کس گروہ کی کوشش سے تشکیل پائی غیر ممکن سا دکھائی دیتا ہے۔ماہرین لسانیات اور انسانی رویوں پر تحقیق کرنے والوں کا خیال ہے کہ زبان کی ابتدا جاننے کے لیے ہمیں کم از کم چھے ہزار سال سے لے کر پانچ لاکھ سال پہلے تک کی تاریخ کھنگالنی پڑے گی،

جو یقینی طور پر معلوم کی دنیا سے بہت پرے ہے۔فی الحال ایسی کوئی تحقیق بھی دکھائی نہیں دیتی جو ہمیں چند ہزار سال سے پیچھے کے معاملات سے مکمل آگاہ کرے۔بہرحال اس ہزاروں سال پرانی تاریخ میں زبانیں مختلف رویے اختیار کرتیں ارتقاکا سفر طے کرتے ہوئے انسانی ترقی کا سفر طے کرتی گئیں۔


زبانوں کے اس ہزاروں سالہ سفر میں اگرچہ بہت سے ابہام ہوسکتے ہیں لیکن اس ایک نکتے سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ ہر شخص نے زبان اپنی ماں یا اُس گھر سے سیکھنا شروع کی جہاں اس کی پرورش ہوئی۔یہی مادری زبان انسان کے لاشعور میں رہتے ہوئے اس کی شعور ی بلوغت کرتی ہے۔

ماہرین لسانیات کے مطابق انسان کی پہلی سیکھی ہوئی زبان اس کے لیے کسی بھی دوسری زبان سے آسان ہوتی ہے۔ جذبات،ضروریات یا رویوں کا جو بانکپن مادری زبان میں سرایت کرتا ہے ،وہ بیگانی زبانوں میں ہو ہی نہیں سکتا۔یہی وجہ ہے کہ مہذب دنیا انسان کے بنیادی حقوق میں مادری زبان کا حق بھی شامل کرتی ہے۔ انسانوں کو حصول ِ علم سے لے کر معاشرتی مشینری چلانے تک ،ہر جگہ مادری زبان اختیار کرنے کا پورا حق دینا بھی بنیادی انسانی حقوق میں شامل ہے۔

کوئی بھی شخص اپنے علاقے،خطے یا ریاست میں رہتے ہوئے اپنی مادری زبان کو اختیار کرتے ہوئے ان تمام حقوق پر دعویٰ کر سکتا ہے ،جو اس سے دوسری زبانیں چھینتی ہوں۔ازاد ریاستوں کا بنیادی فرض بھی یہی ہے کہ وہ اپنے خطے کی زبان اور ثقافت کا مکمل تحفظ ممکن بنائیں۔
جن معاشروں نے اپنی زبان کو دیارِ غیر کی ثقافت کی بھینٹ چڑھا دیا، وقت کے ساتھ ساتھ ان کی شناخت بھی معدوم ہوتی چلی گئی۔

یوں کتنی ہی زبانیں اور ثقافتیں برباد ہوئیں اور آج محض تاریخ کی روایات ہی میں زندہ ملتی ہیں۔زبانوں یا ثقافتوں کے مٹ جانے کا یہ سلسلہ آج پہلے کی نسبت زیادہ تیزی سے پھیل رہا ہے۔ زبانیں کس تیزی کے ساتھ دم توڑ رہی ہیں اس کا اندازہ عالمی ادارے یونیسکو کی جانب سے جاری کی گئی اس رپورٹ سے کیا جا سکتا ہے کہ 1950سے 2010تک دنیا کی کم و بیش 250زبانیں ختم ہوگئیں۔یہ وہ زبانیں تھیں

جن کی صدیوں پرانی تہذیب ہونے کے ساتھ ساتھ اپنا ادبی خزانہ بھی موجود تھا۔اس کے باوجود یہ اپنا وجود برقرار نہ رکھ پائیں۔اب یہ اندازہ بھی لگایا جا رہا ہے کہ موجودہ صدی کے اختتام تک اس سے کئی گنا زیادہ زبانیں مر جائیں گی جس کی وجہ دنیا کا تیزی کے ساتھ ایک نکتے یا ایک تہذیب کی جانب سفر ہے۔تشویشناک معاملہ یہ ہے کہ اگر دنیا میںزبانیں اور تہذیبیں اسی تیزی کے ساتھ مرتی گئیں

تو پھر سے مشترک اقدار اور روایات پر اتفاق کا سفر صدیوں کی مسافت پر محیط ہوگا۔زبانیں اور تہذیبیں کیوں مر رہی ہیں ؟اس سوال یا فلسفے کو سمجھنے کے لیے ہمیںمرتی تہذیبوں یا زبانوں سے پہلے اُن معاشروں اور زبانوں کا جائزہ لینا ہوگا جن کے بولنے والے بڑھ رہے ہیں یا جن کی تہذیب دوسری تہذیبوں کو کھا رہی ہے۔مثال دی جائے تو ان زبانوں میں سب سے نمایاں انگریزی ہے جو دوسری زبانوں کے لیے سب سے بڑاخطرہ ثابت ہورہی ہے۔اب سوال یہ ہے کہ انگریزی کن زبانوں کے لیے خطرہ ہو سکتی ہے ؟

تو صاف سی بات ہے کہ اس خطرے سے دوچار بیشتر زبانیں وہی ہیں جن کی ریاستیں تیسری دنیا سے تعلق رکھتی ہیں یا پھر جہاں ترقی کا پہیہ بہت سست ہے۔ان میں افریقی اور ایشیائی ریاستوں کی تعداد نسبتاًزیادہ ہے۔ یہاں چونکہ روزگار کے مواقع کم ہونے کے ساتھ ساتھ دیگر مسائل کی بھی بھرمار ہوتی ہے، سو ان ریاستوں میں جنم لینے والے بہترین دماغوں کا رُخ ان ریاستوں کی جانب ہوجاتا ہے

جہاں وسائل آسانی سے میسر ہوں۔جب معاملہ معاش یا روزگار کا ہو تو یہ احساس ہی نہیں رہتا کہ کب آپ اپنے اصل سے کہاں اورکیسے کٹ گئے۔جب آپ اپنی تہذیب سے دور ہوں تو ایک ہی وقت میں ایک سے زائد زبانیں بولتے رہنے سے مادری زبان پر گرفت کمزور ہونے لگتی ہے جس سے دوسری اور تیسری نسل کا رشتہ مزید کمزور ہو جاتا ہے۔ ایک سے دوسری تہذیب میں ہجرت اس تعلق کو کمزور بنا دیتی ہے

جس سے معاشی رشتے نہ رہیں۔اس فلسفہ کوبھی رد نہیں کیا جا سکتا کہ بین التہذیبی ہجرت کوئی بھی ہو،سب سے پہلے وہ زبان ہی کو کمزور بناتی ہے،یوں کمزور معاشی حیثیت کے حامل ممالک کی زبانیں اور تہذیبیںتیزی کے ساتھ معدوم ہوتی چلی گئیں اور جو باقی بچی ہیں ان کا وجود بھی خطرے میں ہے۔ماہرین لسانیات کا کہنا ہے کہ ایسی تہذیبوں کی کم و بیش سات ہزار زبانیں اکیسویں صدی کے خاتمے تک معدوم ہو جائیں گی۔
زبانوں کی معدومیت کا احساس ہی آج اقوام عالم کو مادری زبان کا عالمی دن منانے کے نقطے پر لے آیا ہے۔آج دنیا بھر میں مادری زبانوں کے تحفظ کا دن منایا جارہا ہے،جس کی بنیادی وجہ ہی اپنی زبان سے محبت کرنا اور اسے محفوظ بنانے کے لیے کوشش کرنا ہے۔یہ دن بنگلہ دیش میں 21فروری 1952کو پولیس کی گولیوںکا نشانہ بننے والے ان طلبا کی یاد میں منایا جاتا ہے جن کا تقاضا تھا

کہ انہیں اپنی مادری زبان ترک کرنے پر مجبور نہ کیا جائے۔محققین کا کہنا ہے کہ سقوط ِ ڈھاکہ کی بنیاد بھی اپنی زبان ترک کرنے پر مجبور کرنے کا معاملہ ہی بنا تھا، جب قیام پاکستان کے محض چند ہی ماہ بعد بنگلہ زبان کو ڈاک ٹکٹوں اور سکوں سے ہٹا دیا گیا۔اس وقت جو زبانیں اختیار کی گئیں وہ انگریزی اور اردو تھیں،اس پر اہل دانش و فکر نے احتجاج شروع کیا اور بنگلہ ادب میں ایک بار پھر مزاحمت کا رنگ بھرتا دکھائی دیا۔اس حوالے سے روزنامہ ملت سب سے نمایاں رہا جس نے اپنے مقبول اداریے میں لکھا کہ اپنی مادری زبان کے علاوہ کسی دوسری زبان کو سرکاری تسلیم کرنا غلامی تسلیم کرنے کے مترادف ہے

۔اسی طرح روزنامہ آزادی نے اپنے اداریے میں لکھا کہ اگر اردو سرکاری زبان تسلیم کر لی جاتی ہے تو پھر جن لوگوں نے بنگلہ زبان میں تعلیم حاصل کی ہے وہ تو سرکاری ملازمت کے لیے کم اہل تصور کئے جائیں گے۔ایسے دیگر مضامین نے ایسی فضا بنا دی کہ مشرقی پاکستان میں مزاحمت کی فضابن گئی۔بنگالیوںکو خطرہ تھا کہ اگر اردو زبان کو نافذ کر دیا گیا تو ان کی آیندہ نسلیں اقلیت بن کر رہ جائیں گی

جبکہ خود بنگلہ زبان کی بقا بھی خطرے میں ہوگی۔اسی رد عمل میں جنوری 1948 کو راشٹرا واسا سنگرم پریساد نامی ایک تنظیم بنائی گئی جس کا مقصد بنگلہ زبان کا تحفظ تھا۔اگرچہ ابتدائی طور پر یہ تنظیم خفیہ رہی لیکن اس نے بنگلہ زبان کے حوالے سے تحریک کو منظم کیا۔یہ الگ بات ہے کہ اس تنظیم کو تشکیل دینے میں مخالف قوتیں کس حد تک فعال رہیں،اصل معاملہ اس بنیادی حق کا تھا جسے غصب کرنے میں بعض ایسی قوتیں متحرک تھیں جو پاکستان کو متحد نہیں دیکھنا چاہتی تھیں۔بعض مورخین کا خیال ہے

کہ قائد اعظم محمد علی جناح سے بھی یہ جملہ کہلوایا گیا تھا کہ پاکستان کی زبان صرف اور صرف اردو ہوگی۔جب وہ مشرقی پاکستان کے دورے پر تھے تو ان کی صحت بہت متاثر ہوچکی تھی۔بہرحال یہ الگ بحث ہے کہ جناح خود اردو زبان کے نفاذ بارے کیا رائے رکھتے تھے،اس حقیقت کو جھٹلایا نہیں جا سکتا کہ ان کے اس خطاب کے بعد بنگلہ زبان کے حق میں باقائدہ تحریک کا آغاز ہوا۔1948کے ابتدائی دنوں ہی میں بنگالی طلبا اور سول سوسائٹی نے احتجاج کی کال دی اور مظاہرے شروع کردیے

۔26جنوری 1952کو پاکستان کی اسمبلی میں اردو کو قومی زبان قرار دے دیا گیا۔اس فیصلے پر رد عمل کے طور پر جلوس نکالے گئے اور ہڑتالوں کا اعلان بھی ہوا۔21فروری 1952کو بھی عام ہڑتال کی کال دی گئی،حکومت کی جانب سے حالات قابو میں رکھنے کے لیے دفعہ 144نافذ کر دی گئی۔ڈھاکہ یونیورسٹی کے طلبا یہ پابندی توڑتے ہوئے سڑکوں پر نکل آئے۔پولیس نے ابتدا ً لاٹھی چارج کیا،پھر گولی چلا دی۔

کتنے لوگ مارے گئے اس بارے میں درست اعدادو شمار موجود نہیں لیکن تحریک چلانے والوں کا دعویٰ تھا کہ کل چالیس افراد مارے گئے جن میں بیشتر طلبا تھے۔اپنی زبان کے لیے لڑی جانے والی اس لڑائی نے ثابت کر دیا کہ دو قومیں جن کی ثقافت اور روایات الگ الگ ہوں انہیں کسی ایک ثقافت کے زور پر اکٹھا نہیں رکھا جا سکتا۔

یہی وہ چنگاری تھی جس کے انیس سال بعد مشرقی پاکستان بنگلہ دیش کے طور پر دنیا کے نقشے پر ابھرا۔آج اسی واقعے کی یاد میں مادری زبانوں کا دن منایا جاتا ہے۔اقوام متحدہ نے 2010میں جنرل اسمبلی سے قرارداد پاس کرنے کے بعد بنگالی طلبا کی برسی کو مادری زبانوں کے دن کے طور پر منانے کا اعلان کیا۔
آج ہم مادری زبان کا عالمی دن تو منا رہے ہیں لیکن سوال یہ ہے کہ آج حالات 1952سے کتنے مختلف ہیں؟کیا آج ہم وہیں ،اسی رویے کے ساتھ زندہ رہنے کی کوشش نہیں کر رہے جس میں مقامی زبانوں کوطبقاتی تفریق سے جوڑا جارہا ہے؟۔کیا ہماری بیوروکریسی اور مقتدر طبقہ احساس ِ برتری کے لیے محض انگریزی زبان کا مستقل فیشن اختیار نہیں کر چکا؟کیا ہمارے سرکاری دفاتر ،کچہری اور اسمبلی تک کی کارروائی انگریزی زبان میں قلم بند نہیں کی جاتی؟کیا تمام نوٹسز اور احکامات بھی انگریزی زبان ہی میں جاری نہیں ہوتے؟

اور تو اور ہمارے تعلیمی اداروں میں بھی مقامی زبانوں کو جہالت اور بد تہذیبی سے جوڑا جارہا ہے۔خاص طور پر اس خطے کی سب سے بڑی زبان پنجابی کے ساتھ ہونے والا سلوک انتہائی قابل ِ مذمت ہے۔دنیا بھر میں اس زبان کو بولنے اور سمجھنے والوں کی تعداد 20کروڑ کے لگ بھگ ہے۔اس زبان کی اپنی منفرد پہچان اور انتہائی شاندار تاریخی پس منظر ہے۔اب تو یہ رائے بھی دی جارہی ہے کہ ممکنہ طور پر ہڑپہ کی تہذیب میں پنجابی زبان ہی بولی جاتی تھی۔اس رائے سے اگر اختلاف کی گنجائش ہے

تو بس اتنی سی کہ ہزاروں سال پہلے کی پنجابی اور آج رائج زبان میں بہت تبدیلی آچکی لیکن یہ دعویٰ رد نہیں کیا جا سکتا کہ ہڑپہ تہذیب کی زبان کلی طور پر موجودہ پنجابی سے مختلف یا الگ تھی۔بہرحال اپنی بھرپور ثقافت کے باوجود پنجابی زبان اپنی بقا کی جنگ لڑ رہی ہے۔پنجاب کی صوبائی حکومت کا رویہ بھی دشمنی پر مبنی ہے۔سرکاری سطح پر پنجابی کو رائج کرنا تو دور کی بات اب اس زبان میں چھپنے والے رسائل و جرائد کی حوصلہ شکنی باقائدہ سرکار کی پالیسی کا حصہ ہے

۔پنجابی زبان کے لیے سرکاری اشتہارات کا انتہائی کم کوٹہ یعنی پانچ فیصد مختص ہے لیکن بیوروکریسی یہ بھی نہیں دیتی۔یوں پنجابی زبان میں چھپنے والے اخبارات اور رسائل دیگر زبانوں کے جرائد سے بہت پیچھے رہ گئے ہیں۔ ایسے رویے سندھی،بلوچی یا پشتو زبان کے ساتھ روا نہیں ہیں۔وہاں ان قومی زبانوں کو پروان چڑھانے میں صوبائی حکومتوں کا بڑا ہاتھ ہے جبکہ پنجاب میں آنے والی ہر حکومت جیسے یہی سمجھتی ہے

کہ پنجابی اس کی اپوزیشن کرنے والوں کی زبان ہو۔ہم نے ابتدا میں زبان کے آغاز پر بات کی،ماہرین لسانیات کے تجربے کی روشنی میں زبان کے آغاز اور تہذیبی پس منظر کے بارے میں جاننا چاہا اور اب گفتگو کے آخر میں زبانوں کی تباہی پر بات کرتے ہوئے اس موجودہ زمانے میں کھڑے ہیں جہاں بہت سی مقامی زبانوں ،بالخصوص پنجابی کے قتل کی سازشیں کی جارہی ہیں۔آج مادری زبانوں کے عالمی دن کے موقع پر ہم سب کو ان زبانوں کے حقوق کی بات کرنی چاہیے جن کا گلا گھونٹنے کی سازشیں کی جارہی ہیں

۔جن سے وابستہ تہذیب کو مٹانے کی کوشش کی جارہی ہے۔اس باربالخصوص پنجاب میں پنجابی زبان سے تعلق رکھنے والی تنظیمیں اور اہل دانش ایک پلیٹ فارم پر اکٹھے ہوکر باآوازِ بلند اپنی مادری زبان کے احتجاج کر رہے ہیں

۔21فروری کو دن 11بجے پنجاب اسمبلی کے سامنے مادری زبان پنجابی کے لیے مظاہرہ بھی کیا جائیگا جس میں سیاسی،سماجی،ادبی،ثقافتی حلقوں سمیت زندگی کے ہر شعبے سے تعلق رکھنے والی شخصیات شامل ہوکر اپنے حقوق کے لیے آواز اٹھائیں گی۔ یاد رکھیے اگر آپ کی زبان زندہ ہے تو آپ کی پہچان زندہ ہے ،ورنہ تاریخ آپ کو کسی اور کی تہذیبی پہچان سے یاد رکھے گی

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں