طنزو مزاح بھی قابل رشک ایک فن
نقاش نائطی
۔ +966562677707
طنز و مزاح وقت کی اہم صرورت
طنز و مزاح ہی کے طور کسی کی بھی عیب گوئی افشا کرنے والے معتوب نہیں، داد رسی کے لائق ٹہرائے جاتے ہیں۔ ہم اس رام راجیہ والے شاکھ شات بھگوان شری رام کے بھگت ہونے کو صدا ظاہر کرنے والے، عین انتخابات سے قبل، ڈھونگی مہا شکتی سالی بھگت کی طرح عموما” اپنا امیج بنائے رکھنے والے، اور پانچ ساڑھے پانچ سو سالوں کے قانونی کاغذ پتر والی و ملکیت قبضہ رکھنے والی، نہایت سکون و شانتی کے ساتھ انکے بھگوان کی پوجا ارچنا کرنے والی مسلمانوں کی، بابری مسجد کو، قانون و انصاف کی دھجیاں بکھیر کر، سنسد کی رکنیت کے وعدوں کے ساتھ، بہت کچھ رشوت میں دیتے ہوئے
،انصاف کے رکھوالوں ہی کو، انصاف کا گلا گھونٹنے پر مجبور کرتے ہوئے، اس دیش کی اقلیت 30 کروڑ ہم مسلمانوں کے مذہبی جذبات وعدلیہ پر اعتبار کی دھجیاں اڑاتے، یا اڑواتے، دیش کی اکثریت ھندو برادرای کو، “مودی جی ہیں تو سب کچھ ممکن ہے” ثابت کرتے ہوئے، انکے ووٹ ہتھیانے کی سعی کرتے،دیش واسیوں کے ساتھ ہی ساتھ، عالم کی عام جنتا کو بھی جھوٹ، وہ بھی دنکے کی چوٹ پر جھوٹ بولنے کا پاٹھ پڑھوانے والے، جو دیش کے سب سے شکتی سالی منصب پر متمکن رہتے ہوئے
بھی، ملک کے سب سے نیچ پائیدان والے، جھوٹے مکاروں والی دروغ گوئی، وہ بھی ڈنکے کی چوٹ پر جھوٹ بولنے کی سیکھ دیتے، دیش کے پی ایم، شری نریندر دامودر داس مودی جی کے گنوں (عیوب) کو، کچھ اس بہتر انداز اپنے فن طنز و مزاح،مشہور، ہست کلاکار شری سمپت شرل بتا رہے ہیں کہ مودی بھگت بھی اپنے ویر لیڈر کی کردار کشی پر چراغ پا ہونے کے بجائے، انکی حقیقی عکاسی کرنے پر،ہنس ہنس کر لوٹ پوٹ ہورہے ہیں
7 سالہ انکے سنگھی دور اقتدار میں، اچھا نہ رہتے ہوئے بھی، انکی ایک ماتر، اچھی کہاوت “سوچیہ بھارت” ابھیان، صدا بولتے رہنا ہے “سوچیہ بھارت ابھیان” کے مرکزی “لوگو” کے طور دکھایا گیا، پرم پوجیہ گاندھی جی کے، اپنے وقت پہنے جیسی شکل، گول شیشے والا چشمہ ہے، جس کے ایک شیشے پر تو “سوچیہ” اور دوسرے پر “ابھیان” لکھا ہوا ہے، جو بذات خود گاندھی جی کے سچ بولنے، سچائی عملا” کر دکھانے والے، قول و عمل کے بالکل خلاف ہوتے ہوئے بھی، حقیقت درشا جاتا ہے۔ کہ”سوچیہ” والے آئینہ سے دیکھا جائے تو اس میں “بھارت” کہیں نہیں دکھائی پڑتا اور “بھارت” والے حصےسے دیکھا جائے تو پورے بھارت میں کہیں “سوچیہ” نظر ہی نہیں آتا ہے
طنز ومزاح والے اس فن کو زندہ رکھنا ضروری ہے کہ عیب گوئی بھی ایک اچھے فن کی وجہ، آج کی دکھی انسانیت کو وقتی طور ہی شادمان کر جاتی ہے۔ اس چمنستان بھارت کی ہزاروں سالہ گنگا جمنی مختلف المذہنی سکیولر اثاث کے عین خلاف، ہزاروں سال سے امن و چین و سکون اور شانتی انتی کے ساتھ مل جل کر رہتے آئے،
بھارت کی سب سے بڑی اقلیت ہم 30 کروڑ مسلمانوں کو، اس دیش کے، مختلف الذات برادری والی ھندو اکثریت سے، قبرستان و شمشان، علی و بجرنگ بلی جیسی عوامی صداؤں سے، ھندو دھرم ہی کے نام، اپنے پرانے آقاء فرنگی انگریزوں کے طرز پر، ہمیں صدا لڑواتے ہوئے، ھندو اکثریت کو بے وقوف بنا،ہم ہی پر حکومت کرنے کی سعی ناتمام میں یہ سنگھی مودی یوگی امیت شاہ مصروف و مشغول پائے جاتے ہیں،
ایسے میں اور ان سنگھی لیڈروں کے، انکے اپنے زمام حکومت والے پرامن کرناٹک میں، مسلمانوں کے مذہبی آستھانساءطالبات، بےحجابی جیسے گھناؤنے اشتعال انگیز سازشی عمل باوجود، اب کی پنجاب یوپی سمیت، پانچ ریاستی انتخابات میں، ان پانچ صوبو والی عام جنتا نے، ھندو مسلمانوں کو لڑواتے، ہم ہی پر حکومت کرنے کے انکی منافرتی سازش کو نکارتے ہوئے، دیش کے ترقیاتی منصوبوں پر عمل پیرا سوا سو سالہ کانگریس، سپھا کو اقتدار حوالے کرنے کا رجحان اب تک جو بتایا ہے،
کاش کی دیش کے مختلف حصوں صوبوں کی عام ھندو مسلم جنتا بھی، انکی منافرتی سازش میں پھنسے، آپس میں لڑنے مرنے کے بجائے،اپنی ہزاروں سالہ گنگا جمنی مختلف المذہبی سیکولر آثاث دستور ھند کی بقاء کی خاطر،آئندہ کسی بھی صوبے میں ممنعقد ہونے والے انتخابات کے ساتھ ہی ساتھ، 2024 کے مرکزی عام انتخابات میں، اپنی دروغ گوئی مکر وفن نفرت آمیز سونامی چھتر چھاپہ میں، سونے کی چڑیا مشہور چمنستان بھارت کو ان سنگھی حکمرانوں کے ہاتھوں مزید تباہ وبرباد ہونے سے آمان میں رکھنے کی کوشش تیز تر کی جائیں گی۔ انشاءاللہ