ایک نیاء میثاق جمہوریت 103

نور مقدم کو انصاف مل گیا!

نور مقدم کو انصاف مل گیا!

تحریر :شاہد ندیم احمد

نور مقدم قتل کیس میںعدالت عظمٰی نے درندہ صفت مجرم ظاہر جعفر کو سزا ئے موت سنادی ہے،اس فیصلے پر نور مقدم کے والد کا کہنا ہے کہ نور مقدم کو انصاف مل گیا ہے، یہ معاملہ صرف ان کی بیٹی کا نہیں، پاکستان کی ہر بیٹی کے تحفظ کا معاملہ ہے، نور مقدم کیس میںعدالت کا فیصلہ عوام کی دلی کیفت کا تر جمان ہے ،اس کیس کے دوران مجرم ظاہر جعفر عدالت نے میں کتنے ہی ڈرامے کرتا رہا ہے،

مہنگے ترین وکلاء کی خدمات بھی حاصل کی جاتی رہی ہیں،لیکن عدالتی فیصلے کے بعد عوام پُر اُمید ہیں کہ یہ درندہ جلد ہی کیفر کردار تک ضرور پہنچے گا۔یہ امر واضح ہے کہ ظاہر جعفر نے نور مقدم کو بڑی بے دردی سے قتل کیا اور اْس کے ملازمین نے نور مقدم کو بچانے کی بجائے قتل میں ساتھ دیاہے ،تاہم پولیس کو موقعے سے نور مقدم کی سربریدہ لاش ہی ملی ، اس واقعہ کا عینی شاہد کوئی نہیں تھا، معاملہ سوشل میڈیا کے ذریعے اجاگر ہوا تو وزیراعظم نے نوٹس لیتے ہوئے وزارت داخلہ کو ہدایات جاری کیں

کہ اس واقعہ کو ایک ٹیسٹ کیس کے طور پر لیا جائے اور اس میں ملوث ملزموں کو عبرتناک سزا دلوائی جائے،وفاقی وزارت داخلہ نے ملزم ظاہر جعفر سمیت دیگر ملوث ملزموں کے نام بلیک لسٹ میں ڈال دیئے اور سب کی گرفتاری عمل میں لا کر کیس کا چالان مرتب کروایا ، اس مقدمے کی سماعت چار ماہ آٹھ دن جاری رہی اور بالآخر اس تاریخی مقدمے کا فیصلہ سنا دیا گیا ہے۔
اس میں شک نہیں کہ

یہ ایک پیچیدہ کیس تھا اور اس کے شواہد عام مقدمات کی طرح موجود نہیں تھے،کیونکہ ظایر جعفر نے قتل اپنے گھر میں کیا اور اس قتل کو ہوتے کسی نے نہیں دیکھا تھا، البتہ گھر میں لگے سی سی ٹی وی کیمروں میں سارے مناظر ریکارڈ ہو گئے تھے، پو لیس نے تمام کیمروں کو اپنی تحویل میں لیتے ہوئے

جدید ٹیکنالوجی سے حاصل شدہ شہادتیں محفوظ کرکے کیس کا حصہ بنایا، پو لیس نے صرف شہادتیں بنانے تک محدود نہیں رہی ہے ،بلکہ ان شہادتوں کو عدالت کے سامنے اس انداز سے رکھا کہ عدالت نے انہیں بطور مضبوط شہادت بھی مانا ہے۔یہ پہلا موقع ہے کہ اس کیس میں قتل کے عینی شاہدوں کی بجائے جدید ٹیکنالوجی سے اکٹھی کی گئی شہادوں پر ملزم کو سزا دی گئی ہے،اس بار پولیس کی تفتیشی اور پراسیکیوشن ٹیم نے اپنا کیس بڑی مہارت اور کامیابی سے ثابت کیا ہے، نور مقدم کا قاتل اپنے ابتدائی بیان میں قتل تسلیم کر چکا تھا،

مگرعدالت میں مْکر گیا اور خود بے قصور ثابت کرنے کی کوشش کر نے لگا،ملزم کے وکلاء بھی اسے ذہنی و اعصابی مریض ثابت کرنے کی بھر پورکوشش کرتے رہے ہیں، تاہم پولیس نے ہر موقع پر تماتر چالوں کو شواہد کے ذریعے ناکام بنایاہے،اس مقدمے کی سماعت کے دوران خدشات ظاہر کئے جا رہے تھے کہ ناکافی شہادتوں کی وجہ سے ملزم بچ نکلے گا ،لیکن اس مقدمے کا فیصلہ آنے پر ثابت ہو گیا کہ جدید ٹیکنالوجی سے حاصل ہونے والی مضبوط شہادتوں اور ثبوتوں پر بھی انحصار کیا جا سکتا ہے۔
یہ آمر خوش آئند ہے کہ نور مقدم کیس میں انصاف کی فتح ہوئی ہے ،نور مقدم کو جہاں انصاف مل گیا ،وہیں بے یقینی کی فضا میں عوام کو اپنے تحفظ کا یقین بھی ہونے لگا ہے ،عوام کو پتہ چل گیا ہے کہ ملک میں ابھی اتنی اندھیر نگری نہیں ہوئی ہے کہ عام آدمی کو انصاف نہ مل سکے ،لیکن اس کیلئے ضروری نہیں ہو نا چاہئے کہ عام آدمی کا کیس سوشل میڈیا کی زینت بنے تو ہی ملکی ادارے حرکت میں آئیں گے

اور انصاف کا بول بالا دیکھنے کو ملے گا ، اگرملک میں ہونے والی ہر قانون کی خلاف ورزی پر ادارے فوری حرکت میں آکرکاروائی کریں اور عدالتیں فوری انصاف کی فراہمی یقینی بنائیں تو معاشرے سے جرائم کا بڑی حد تک سد باب کیا جاسکتا ہے ۔
اس میں کوئی دورائے نہیں کہ نور مقدم کیس میں قانون نے اپنی برتری منوائی ہے ،تاہم جس طرح نور مقدم کیس تیزی سے چلایا گیا اور اس کا انصاف پر مبنی فیصلہ آیا ،اس طرح ہی دیگر مقدمات کے فیصلے بھی تیزی سے ہونے چاہئیں ،تاکہ ایک طرف مجرموں کو بروقت سزا ملے اور دوسری طرف مظلوموں کو بروقت انصاف بھی ملتا رہے ،امید ہے کہ نور مقدم کیس میں اپیل کے مراحل بھی اسی تیزی سے نمٹائے جائیں گے،

تاکہ یہ کیس عبرت کی مثال بن جائے گا،تاہم عوام کے اندر خدشات اپنی جگہ موجو ہیں کہ ملزم طاقتور ہوتے ہوئے سزائے موت کے فیصلے کو اعلیٰ عدالتوں میں نہ صرف چیلنج کر یگا ،بلکہ خودلٹکنے کے بجائے اپنے خلاف سنائی جانے والی سزا کو لٹکانے کی بھر پور کوشش کرتا رہے گا

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں