115

شعری مجموعہ کانچ اسلوبیاتی جائزہ

شعری مجموعہ کانچ اسلوبیاتی جائزہ

تحریر :نوید ملک

کانچ قیوم طاہر صاحب کا تازہ شعری مجموعہ ہے جو ایسی شاعری سے تعمیر ہوا ہے جس کی طلب سنجیدہ قارئین کو رہتی ہے۔تسلسل کے ساتھ ان کی کتابوں کی اشاعت، ان کے تخلیقی بھاؤ کی عکاس ہے۔ان کی شاعری کے مطالعہ سے یہ بات عیاں ہوتی ہے کہ یہ کسی ایک فریم میں اپنے فن کو قید کرنے کے قائل نہیں۔یہی وجہ ہے

کہ سماجی اکائیوں کے بیچ ان کے اشعار ہر سطح کے فکری و قلمی حلقوں میں اپنے نقوش کھینچنے کی پوری اہلیت رکھتے ہیں۔(چھاپ) بہت بری بیماری ہے اور جو شعراء اسی بیماری کی گرفت میں پوری طرح آ جاتے ہیں ان کی تخلیقات سے چھاپہ خانے بھر جاتے ہیں۔سوشل میڈیا کی ترقی نے ایسے ہی شعراء کے کلام پر چھاپہ مارنے میں آسانی بھی فراہم کر دی ہے۔جذبات کا نیا فارمیٹ جب قدیم دکھوں پر جدید عطر چھڑکتا ہے

تو تحیر جنم لیتا ہے۔یہ تحیر ہی تو ہے جس کی بدولت لاکھوں شاعروں کی قلمی کاوشوں سے سماج اکتاہٹ کی دلدل سے بچا ہوا ہے۔قیوم طاہر نے بھی تخلیقیت اور تحیر کے انسلاک سے شعری سفر میں ایسے راستے ہموار کیے ہیں جن پر چل کر نئے لکھنے والے بھی الفاظ سے نئے مفاہیم کشید کر سکتے ہیں۔
کسی بھی تخلیق کار کے قلمی سفر میں تین ادوار آتے ہیں۔پہلے دور میں فنی لوازمات کو سمجھنا ہوتا ہے، دوسرے دور میں انفرادیت پیدا کرنے کے لیے کوشش کی جاتی ہے جبکہ تیسرے دور میں ”رد” کرنے کے مرحلے سے گزرنا پڑتا ہے۔اپنی شاعری کی کانٹ چھانٹ جب نفسیات پر خراشیں ڈالتی ہے تو اسلوب کے تعمیر ہونے کا مرحلہ آتا ہے

۔قیوم طاہر ان ادوار سے گزر کر راولپنڈی تک آئے ہیں اور راولپنڈی ہی سے اپنی روشنی اندرون و بیرون ملک تک پھیلا رہے ہیں۔کوئی بھی شاعر ہو، کوئی نہ کوئی کردار اس کی شاعری میں ضرور ہوتا ہے جو اس کے خیالات کی عکاسی کرتا ہے، اقبالؒ کا مردِ مومن اور نطشے کا سپر مین ہمارے سامنے ہیں۔قیوم طاہر کی شاعری میں جو کردار ہے وہ عدم توازن کا شکار نہیں، وہ اپنے عہد میں آفاقی قدروں کی بات جدید لہجے میں کرتاہے

اور اسی خوبی نے آپ کے اسلوب کو انفرادیت سے آراستہ کیا ہے۔آپ کا کردار زندگی سے جڑا ہے اسی لیے”میتھیو آرنلڈ” کے فکری کینوس پر آپ کی شاعری ثبت کی جا سکتی ہے۔یاد رہے میتھیو آرنلڈ نے جس زندگی کا تصور پیش کیا وہ ظاہری زندگی تک محدود ہے جبکہ اقبالؒ نے ابدی زندگی کا ذکر کرتے ہوئے اس سے کہیں آگے کی بات کی ہے۔قیوم طاہر زندگی کے حوالے سے آگے کی بات کرتے ہیں۔

صبحِ ازل سے شامِ ابد تک کا یہ سفر
اک دائرے کی ڈور سے رستہ بندھا ہوا

صبحِ ازل اور شامِ ابد کا سفر جس رستے سے بندھا ہوا ہے اس کا تعلق غیر مادی کائناتوں کے ساتھ ہے۔کسی بھی تخلیق کار کی فکر، اندازِ نگارش، خدا او رکائنات کے حوالے سے تصورات، الفاظ کا چناؤ وغیرہ کا تعلق اسلوب کے ساتھ ہوتا ہے۔شعر دیکھیے!

آسماں تک زمیں کو لے جائیں
ہم لگائیں ذرا سی رونق ہی

بظاہر یہ ایک سیدھا سادا ساشعر محسوس ہوتا ہے مگر اس کی پرتیں کھولی جائیں تو معانی کی وسعت کا اندازہ ہو جائے گا۔اس شعر میں رونق کو علامت کے طور پر لیا جائے اور اقبالؒ کے ایک شعر سے استفادہ کیا جائے تو مفہوم واضح ہو گا۔

تھا تخیُّل جو ہم سفر میرا
آسماں پر ہُوا گزر میرا

زمیں کو آسماں تک لے جانے کے لیے خیال کی بلند پروازی ضروری ہے۔اب رونق میں وہ تمام سرگرمیاں جن سے عالمِ ناسوت میں کئی رنگ بکھرے ہوئے ہیں۔محبت، نفرت، کامیابی، ناکامی، عروج و زوال وغیرہ کا انسلاک رونق کے ساتھ ہی ہے۔اسی شعر کو اگر فرائیڈ کے تحلیلِ نفسی کے تصور کے سامنے رکھا جائے تو یہ بات آشکار ہوتی ہے کہ آپ اِنجماد کو توڑنے کے قائل ہیں۔بے مقصد سانسوں کے بکھراؤ سے نالاں ہیں۔ خواجہ حیدر علی آتش کا شعر دیکھیے!

ظہور ِآدم خاکی سے یہ ہم کو یقیں آیا
تماشا انجمن کا دیکھنے خلوت نشیں آیا

جبکہ قیوم طاہر تماشہ دیکھنے نہیں بلکہ رونق لگانے کی بات کرتے ہیں، رونق لگانے کے لیے زندگی کے مقاصد دریافت کرنے کی ضرورت ہے۔دریافت کا سفر ہی کسی تخلیق کار کو انہدام سے بچاتا ہے۔سید ضمیر جعفری آپ کے فن اور شخصیت کے حوالے سے لکھتے ہیں” جس طرح جرمنی کی سرزمین سے کئی ہٹلر اور اعلیٰ دماغ تو پیدا ہو سکتے ہیں لیکن کوئی گوئٹے پیدا نہیں ہو سکتا اس طرح تلہ گنگ چکوال کی مٹی جرنیل اور ائیر مارشل پیدا کرتی رہے گی لیکن کوئی اور قیوم طاہر نہیں آئے گا”
اس سے قبل ایک مضمون میں، میں نے اس اظہاریہ پر روشنی ڈالی ہے مگر یہاں اسی بات پر اکتفا کروں گا کہ آپ ذرخیز خیالات کے مالک ہیں اورآپ کے شاعری کے ارتقائی مراحل ہی میں بہت سے رجحان ساز شعراء نے ان کی نشاندہی کر لی تھی۔ آپ کی شاعری میں احساسات کا اظہار تو ہے مگر پیرائیہ اظہار کی تشکیل منفرد اور دلچسپ ہے۔شعر دیکھیے اور حظ اٹھائیے:پھولوں کی بیل لانے کو، ابر سے چھت سجانے کو
لمبا سا موڑ کاٹ کر،لوٹیں تو اپنا گھر نہ ہویہاں لمبا سا موڑ جس خوبصورتی سے برتا گیا ہے قابلِ رشک ہے اور یہ ترکیب عہدِ جدید کی تہذیب ا ور ترقی کا منظرنامہ بھی پیش کر رہی ہے۔تخلیق کار کی سب سے بڑی خوبی بھی یہی ہے کہ وہ اپنے ارد گرد کے ماحول کا تجزیہ کر کے اس ڈھب سے بات کرے کہ ہر سننے والا خیال کے ساتھ سماج کو بھی سمجھ سکے، نئی اصطلاحات شاعری کو لازوال بناتی ہیں

۔مجید امجد نے بھی اسی حکمتِ عملی کو اپناتے ہوئے دَیہات کی زندگی سے مختلف عناصر تلاش کیے اور ان کے ابدان میں اپنے جذبات بھر دیے۔قیوم طاہر اثر قبول نہیں کرتے بلکہ اثرات مرتب کرنے کے لیے تخلیقی تجربات سے گزرتے ہیں۔آپ کا تعلق کنسٹرکشن کے شعبے کے ساتھ بھی رہا اسی لیے آپ جانتے ہیں

کہ شاعری میں انجینیر کو نام پیدا کرنے کے لیے کون کون سے فنی لوازمات پورے کرنے پڑتے ہیں۔کئی مُحافِل میں ہم آپ کو سنتے رہے ہیں اور جب بھی سنا ہمیشہ نیا خوشگوار تاثر قائم ہوا۔ آپ کے کئی اشعار پر طویل مضامین لکھے جا سکتے ہیں۔امید کرتا ہوں کہ احباب ان کی شاعری پڑھ کر نئے زاویوں سے بات کریں گے

اور ان تصاویر کی شناخت کر کے قارئین کے سامنے رکھیں گے جنھیں بنانے کے لیے خارجی و باطنی عوامل سے گزرے۔میں شعری مجموعہ کانچ کی اشاعت پر دلی مبارک باد پیش کرتا ہوں اوران کا ایک شعر تمام احباب کی نذر کر کے اجازت چاہتا ہوں:

کوئی تور ات ہو ایسی کہ مرے ساتھ جلیں
ایک قصہ کہ ادھورا ہی سناتے ہیں چراغط

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں