گندی سیاست اور منہج اسلام
نقاش نائطی
۔ +966562677707
“عام سی معشیتی ذمہ داری ہی کو اصل زندگی سمجھ صرف اور صرف اپنے اور اپنی آل ہی کے لئے جینے والا انسان، عام جاتوروں والی زندگی گویا جی رہا ہوتا ہے۔جبکہ بارگاہ ایزدی نے ہمیں ایک دوسرے کے درد دکھ سمجھنے لائق، عقل و فہم والا، آشرف المخلوقات حضرت انسان بنایا ہوا ہے۔”عمران خان پرائم منسٹر پاکستان
خالق کائیبات نے ہزاروں لاکھوں اقسام کے، بری، بحری، مخلوقات درند، چرند، پرند، و ہزارہا اقسام کے کیڑے مکوڑے تخلیق کئے ہیں اور ان میں بھی ایک حد تک عقل و فہم ادراک عطا کرتے ہوئے انہیں، اپنے لئے جینے، رزق حاصل کرنے، موسمی تکالیف سے آمان، و دشمن سے بچاؤ کےطریقے اختیار کرنے کی، اور ایک حد تک اپنی آل اولاد کی پرورش کرنے کی تمام تر قوت و صلاحیت و استعداد دی ہوئی ہیں۔
لیکن ہم اشرف المخلوقات حضرت انسان کو،عقل سلیم سے نوازتے ہوئے، اپنے اور اپنی آل آولاد کے تفکر علاوہ، اپنے معاشرے، اپنے اطراف پائے جانے والی، خالق کائینات کی دیگر مخلوقات کی فکر کرنے کی استعداد و صلاحیت بھی عطا کرتے ہوئے، اپنے نبی آخر الزمان خاتم الانبیاء سرور کونین محمد مصطفی ﷺ کی عملی زندگی ہمارے سامنے رکھتےہوئے، یہ بات ہم تک پہنچائی ہے کہ خالق کائینات کی رضا و خوشنودی، مخلوق خدا کے ساتھ، ہمارے حسن سلوک ہی سے حاصل کی جاسکتی ہے
اسلام میں رہبانیت کے واسطے سے رب کائینات کو راضی کرنے کی مناہی ہے، تاوقت، متمکن تاجدار نبوت، خاتم الانبیاء محمد مصطفی ﷺ نے، لمبے 40 سالہ اپنی ازدواجی معاشرتی زندگی باوجود، اس وقت کے شرک و بدعات خبیثہ میں ملوث معصیت سے لبریز معاشرے میں، اپنے حسن اخلاق، ایمانت داری، دیانت داری، راست گوئی،وعدہ وفائی، کے ساتھ اپنے سے بڑوں کا احترام تو، چھوٹوں سے شفقت، مجبور و بے کس کی حتی الامکان مدد و نصرت کا جذبہ تو، آپس میں لڑتے ہوؤں کے بیچ مفاہمت کروانے والے،
اپنے اخلاق و کردار کو عملا پیش کرتے ہوئے،اپنے معاشرے میں،آمین و صادق و دیانت دار ، امانت دار ہونے کی، پہلے سے سند حاصل کی ہوئی تھی۔ اور آپﷺ کی عملی زندگی کے سئیات کو دیکھتے ہوئے، آپ پر ایمان لانے والوں نے،خصوصا آپ ﷺ کے بعد مسلم امہ کی نیابت و سرداری کرنےوالے خلیفہ المسلمین آولی و ثانی
حضرت ابوبکرصدیق اور عمر فاروق رضی اللہ عنہم نے، ہو بہو آپ ﷺ کی تعلیمات پر عمل پیرا ہوکر بتاتے ہوئے، رہتی انسانیت کے لئے جو عملی پیغام و نمونہ چھوڑا ہے کیا وہ آپﷺ کی اور انکے اصحاب خلفاء راشدین و صحابہ رضوان اللہ اجمعین کی عملی زبدگیاں تا قیامت کے ہم انسانوں کے لئے کافی نہیں ہیں؟
فی زمانہ مشرق و مغرب کے اس جدت پسند، ہر اقسام کے وسائل معاشرت فراوانی و بہتات والے دور میں بھی، ایک نساء کے ساتھ مستقل ازدواجی خانگی زندگی سکون و طمانیت کے ساتھ بتانے کو، ناممکنات والا عمل اور اپنے لئے ایک بوجھ سمجھا جاتا ہے، موجودہ تمدنی ترقی یافتہ تعلیم یافتہ دور جدید میں،اعلی عصری تعلیم یافتہ طبقہ مرد و زن کی حق خودارادیت و حق آزادانہ زندگی بتانے کی وکالت کے بہانے،
کسی نساء کے ساتھ ازدواجی بندھن میں بندھتے اسکی اور اسکے ساتھ ہوئے اپنے بچوں کی کفالت کی ذمہ داری سے پہلو تہی ہی لئے، ایک نساء کے ساتھ رشتہ ازدواج میں مقید رہنے پر، متعدد نساء سے، لیونگ ریلیشن شپ کے بہانے، متعدد نساء سے تعلق جسمانی رکھے، معاشرے میں، نساء کے ساتھ دانستا” ہونے والے استحصال کو جدت پسندانہ آزادی کا نام دئیے خود کو اور معاشرے بدنام ورسوا برباد کررہا ہوتا ہے
آج سے ساڑھے چودہ سو سال قبل والے، پیدل و جمل، گھڑسواری والے غیر ترقی یافتہ دور میں، منصب نبوت سے پہلے تک ایک بیوی حضرت خدیجہ الکبری سے، ایک لمبے عرصے تک ازدواجی و معاشرتی کامیاب زندگی بتانے والے، محمد مصطفی نے، بعد نبوت والی 23 سالہ زندگانی میں مختلف مراحل مختلف اوقات کثرت زواج کرتے ہوئے، ترسیل دعوت و تبلیغ کے اپنے مشن آگہی پر مستقلا” عمل پیرا رہتے ہوئے،
انہیں صفحہ ہستی سے مٹانے ان کے خلاف ریشہ دوانیوں میں مبتلا، کفار و مشرکین سے متعدد غزوات کی بہترین انداز سالاری کرتے ہوئے، اپنے آپ کو بہترین مبلغ دین کے ساتھ ہی ساتھ، بہترین رہبر و لیڈر و سالار جیش اسلامی کی حیثیت بھی اپنا لوہا متوالا تھا۔
خصوصا غزوہ احد کے موقع پر سالار جیش دشمن، اسلام لانے سے پہلے والے خالد بن ولید کی بہترین سالاری کا اندازہ لگاتے ہوئے، احد کی پہاڑی کے سامنے والے ٹیلے پر، چند تیر بردار اسلامی جانبازوں کا تقرر، اس تاکیدی جملہ کے ساتھ تعینات کرنا کہ تا حکم ثانی، کسی بھی صورت مقام متعین ٹیلے سے نیچے نہ اترا جائے، ابتدائی فتح بعد دشمن کے میدان کارزار چھوڑ پیچھے ہٹتے، اور مسلم دستوں کے فتح کا جشن مناتے مال غنیمت لوٹتے پس منظر میں، آپﷺ کے ٹیلے پر متعین کردہ دستے کا نیچے اترنا اور
میدان کار زار چھوڑ واپس بھاگتے سالار افواج کفار، خالد بن ولید کا، احد کی پہاڑی کا چکر کاٹ فتح کے جشن میں سرشار اسلامی افواج پر پیچھے سے وار کرتے ہوئے، حربی اعتبار سے مسلم افواج کو لاتلافی نقصان دینے میں کامیابی حاصل کرنا، اس وقت میدان کار زار احد، آپ ﷺ کا ٹیلے کی چوٹی پر تیز انداز دستے کو متعین کرنا کس قدر حربی حکمت علی والی سالاری صلاحیت کو ثابت کرتا ہے اس پر بھی تو تدبر و تفکر کیا جائے کہ آپﷺ نے صرف داعی دین کی حیثیت اپنی صلاحیتوں کا لوہا نہیں منوایا تھا؟
بلکہ متعدد مرتبہ مختلف غزوات میں جیش اسلامی کی سالاری بہترین انداز کرتے ہوئے، معاشرتی مقاطعہ گھاٹی شعب آبی طالب میں مسلمانوں کی صحیح رہنمائی کرتے ہوئے، 6 ھجری اپنے 1400 سو مسلمانوں کے ہمراہ بیت اللہ کعبہ مکہ کی زیارت و حج کو تشریف لاریے قافلے کو مقام حدیبیہ پر روک کر اتنی دور مدینہ منورہ سے پیدل آئے اسلامی قافلے کو حج بیت اللہ ادا نہ کرنے دینے کے کفار مکہ کے فیصلے بعد، آپ ﷺ کا اپنے 1400 مسلمانوں کے قافلے کو واپس مدینہ لے جانے والے، اور بعد کے 6 لمبے
سالوں تک ادائیگی حج سے محروم رہنے والے،کفار مکہ کی شرائط پر ہوئے، صلح حدیبیہ معاہدے پر پوری ایمانت داری کے ساتھ عمل پیرا رہتے ہوئے، آپ ﷺ نے، وقت کے ساتھ اپنی سیاسی بصیرت کو کیا ثابت نہیں کیا تھا؟پھرکیسےآج کے مسلمانوں کا دین دار طبقہ، موجودہ دورکی معاشرت وسیاست کو،گندی سیاست قرار دے اس معاشرتی سیاست سے دامن بچائے، صحیح دین اسلام پر اپنے قائم رہنے کو ثابت کرسکتا ہے؟
اس بات کو سر تسلیم خم قبول بھی کیا جائے کہ موجودہ دور کی سیاست اپنے درمیان جرائم پیشہ افراد کثرت شمولیت کے ساتھ اتنی پراگندہ اور متعفن زد ہوچکی ہے کہ عام سے صحئح العقیدہ آمین و صادق ایمانت دار ہم انسانوں کو اس گندی سیاست سے پہلو تہی کی سوجھتی ہے۔ لیکن جس معاشرہ کا آوے کا آوہ ہی بگڑا ہوا ہو، اس معاشرے کی سیاسیات میں اچھے ایمان دار لوگ شامل ہونے سے ہی اجتناب کرتے پائے جائیں تو ایسے معاشرے کی اصلاح کیوں کر ممکن ہے؟ اور عوام کو بروں کے درمیان اچھوں کے
انتخاب کے مواقع سے کیسے محروم کیا جاسکتا ہے؟ اللہ رب العزت نے ہمارے اطراف تخلیق کئے مختلف اقسام کے جانوروں میں بھی مختلف اعلی و ارفع خصوصیات رکھتے ہوئے، ان سے سیکھ لیتے ہوئے،ہم انسانوں میں اعلی و ارفع اقدار رائج کرنے یا کرانے کی ہمیں تعلیم دی ہیں۔ ہمارے درمیان پائے جانے والی نجس کہی گئی مخلوق کتے کی وفادار و وفاشعاری کا کون انسان قائل نہیں ہے؟ انہئں دئیے جانے معمولی رزق کے بدلے چوپائیوں کی ہم انسانوں کی خدمات کیسے نکارا جاسکتا ہے،
آوارہ گھومتی گائوں کے سامنے اچانک غیر متوقع ہری ہری گھاس کا ڈھیر رکھ دئیے جانے پر، اس بے زبان گائے کا چارے پر ٹوٹ پڑتے سے قبل اپنی مخصوص انداز ھمبئے کی آواز نکال اپنی برادری کو ہری ہری گھاس کی دستیابی کی خبر دیتا عمل ہو، یا کوؤں کے سامنے دانے پھینکنے پر، ان دانوں پر ٹوٹ پڑتےسے قبل یا کوؤں کو فضاء میں کوئی خطرہ محسوس ہونے پر، کائیں کائین کرتی زور دار گونجتی آوازوں سے، اپنی برادری کو دعوت طعام دیتا یا خطرے سے آگاہ کرتا انداز، اور چند لمحوں میں لاتعداد کوؤں کی
بہتات کا جمع ہونا، کیا ہمیں ان بے زبان جانوروں کے بھی، ایک حد تک اپنی ذات برادری کا خیال رکھنے کی صلاحیت سے ہمیں آگاہ کیا نہیں کرتی ہے؟ انتہائی چھوٹی اور ننھی مخلوص سمجھی جانے والی چیونٹیوں کے زمین پر چلتی قطار در قطار اور آگے والی سربراہ چیونٹی کے پیچھے پیچھے اوبڑ خابڑ راہ گزر سے،بغیر احتجاج اسکے پیچھے چلتے رہنے، تمام چیونٹیوں کا اپنے سربراہ چیونٹی کی اتباع میں آگے بڑھتا روز مرہ کا معمول اور جنگل سے نقل مکانی کرتے بھیڑیوں کے آگے
پیچھے دفاعی دستے کی شکل جوان بھیڑوں کو رکھ نقل مکانی کرتے بھیڑوں کے قافلے اور نر مادہ بھیڑوں کی ایک دوسرے کے تئیں وفاشعاری کا جذبہ بحکم بارگاہ ایزدی، مغربی ممالک کےاینمل پلانٹ ٹی وی پروگرام کے ذریعہ ہم میں معاشرتی آداب آگہی پیدا کرنے کی کوشش کیا نہیں کی گئی ہے؟ پھر کیوں کر ہم انسان، ان اقسام کی معاشرتی سیاسی اسلامی تربیت سے سرشار، ہم مومن و مسلمین کا فقط اپنی آل اولاد کے لئے ہی جینا، ہمیں کل آخرت یوم محشر کس قدر سرخ رو کرسکتا ہے؟ یا مختلف
مدارج واقدار والے اعلی وارفع جنت کا ہمیں حقدار کیوں کر اور کیسے بناسکتا ہے؟ بے شک تعلیمات رسول مجتبی محمد مصطفی ﷺ کی رو سے کل آخرت میں دنیا جہان کے سوالات سے گزار کر ہمیں واصل جہنم کرنے کی کوئی مالک دوجہاں کی منشاء نہ ہوگی لیکن کیا ہم انسانوں میں ودیعت کردہ تمام تر صلاحیتوں کے پیش نظر، درپیش حالات کے تحت اپنی صلاحیتوں کا بہترین استعمال کرتے ہوئے،حالات کو بے قابو نہ ہونے دینے میں ہماری کوتاہی یا پہلو تہی، کل محشر خدائی باز پرس سے ماورا ہوگی اس کی کیا
ضمانت ہے؟ اسی لئے، کم از ہم مسلمین و مومنین سے التماس کرتے ہیں کہ وہ صرف اور صرف اپنے اور اپنی آل ہی کے لئے جینے کی انکی عادت و جبلت سے ذرا باہر نکلیں اور مالک دو جہاں کی طرف سے انہیں عطا کردہ اپنی خدائی صلاحیتوں سے، اپنے اطراف والی سیاست و معاشرت میں ہوی دلجمعی سے حصہ۔لیتے ہوئے،
اپنی تعلیمی معاشرتی سیاسی تدبریت والی صلاحیتوں کا کماحقہ حق ادا کرنے والوں میں سے بنئے ہوئے، اپنے اطراف کی قوم و ملت و انسانیت کی صلاح وبہبود کے لئے کما حقہ اپنا حصہ دینے والے یا حق ادا کرنے والوں میں پائے جائیں