100

عنوانہو سکتا ہے ہم اپنے والدین کو سمجھنے میں غلطی کر رہے ہوں

عنوانہو سکتا ہے ہم اپنے والدین کو سمجھنے میں غلطی کر رہے ہوں

تحریر:عامر شہزادانصاری
جب آپ کی والدہ آپ کے کمرے میں آئیں آپ کے پاس بیٹھیں تو اسکا مطلب یہ نہیں کہ وہ آپ کی personal space میں مخل ہو رہی ہیں بلکہ ہو سکتا ہے وہ اپنی پریشان کن سوچوں سے فرار حاصل کرنے آپ کے پاس آئی ہوں
جب آپ کے والد آپ کو صبح سویرے جگا دیں اور آپ کو اپنے ساتھ سودا سلف لینے کے لیے لے جائیں تو ہو سکتا ہے وہ صرف آپ کے ساتھ دوستی کا تعلق قائم کرنے کی کوشش کر رہے ہوں مگر اپنے طریقے سے
جب آپ کی والدہ آپ سے پوچھیں موبائل استعمال کرنے کے دوران کہ آپ کیوں ہنس رہے ہیں تو وہ آپ کی زندگی میں مداخلت نہیں کر رہیں وہ بس آپ کی زندگی کا حصہ بننا چاہتی ہیں کیوں کہ آپ دونوں کی اب بمشکل ہی بات ہو پاتی ہے اور شاید غیر اختیاری طور پر یہ ہی موضوع انہیں بات شروع کرنے کے لیے سُوجھا ہو
ہر بار جب آپ کے والد آپ سے پوچھیں آپ کہاں جا رہے ہیں؟اور مجھے معلوم ہے یہ ان کا پوچھنا شک کے تحت پوچھ گچھ کرنے جیسا لگتا ہے مگر سوچیں ہو سکتا ہے وہ صرف جاننا چاہتے ہوں (شک یا تحقیق نہ کر رہے ہوں)
اور ہم اپنے دوستوں کے ساتھ اپنی live location شیئر کر سکتے ہیں تو والدین کے ساتھ کیوں نہیں آپ جانتے ہیں آپ کی والدہ باہر کے کھانے کو ناپسند نہیں کرتیں بلکہ وہ اس بات کو ناپسند کرتی ہیں کہ وہ آپ کے لیے بےحد محبّت سے کچھ بنائیں مگر آپ باہر سے کچھ منگوا لیں اور جب وہ آپ کی پسند کا کھانا بنائیں تو وہ صرف یہ امید رکھتی ہیں کہ آپ کے منہ سے تعریف سن سکیں کہ یہ بہت مزے کا بنایا ہے آپ نے والدہ
آپ اپنی والدہ کو بس صرف چند تعریفی کلمات سے بےحد خوشی پہنچا سکتے ہیں اور یہ کس قدر آسان ہےسب کے والد عموماً کہتے ہیں کہ میں آپ لوگوں کے لیے ہی کماتا ہوں مگر آپ کو ڈانٹتے ہیں
اگر آپ اپنی پسند کی کتابیں یا کپڑے لیں یہ بات عجیب لگتی ہے بری لگتی ہےمگر سوچیں آپ کے والد اپنی زندگی میں کتنی محنت کر کے یہاں تک پہنچے ہیں اور اب بھی محنت کر رہے ہیں وہ پیسے کی اہمیت کو جانتے ہیں وہ صرف یہ چاہتے ہیں کہ آپ اعتدال سے خرچ کریں فضول خرچ نہ بنیں
ہمارے والدین اور ہمارے درمیان جنریشن گیپ ہےجس کی وجہ سے وہ ہمیں اور ہم انہیں کئی معاملات میں نہیں

سمجھ سکتے نہیں سمجھا سکتےمگر ہمیں نہیں بھولنا چاہیے کہ ہمارے ساتھ انکی بھی عمر بڑھ رہی ہے وہ بھی ہماری طرح انسان ہیں اور جس طرح ہم اکیلا پن و تنہائی محسوس کرتے ہیں وہ بھی کرتے ہوں گےجیسے ہمیں لگتا ہے وہ ہمیں نہیں سمجھتے ہو سکتا ہے وہ بھی ایسا سوچتے ہوں اور دکھی ہوتے ہوں ہم اور کچھ نہ سہی مگر انہیں اپنا وقت دے سکتے ہیں انہیں سن سکتے ہیں اتنا تو ہم کر ہی سکتے ہیں ناں؟

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں