50

سر بریدہ سائے ڈاکٹر خالد اسراں

سر بریدہ سائے ڈاکٹر خالد اسراں

تحریر: شہزاد افق

اس کتاب میں معاشرے کی بے حسی اور مکروہ چہرہ کو بے نقاب کیا گیا ہے۔کہیں کتوں کے لیے بہترین کھانے اور ان کی کھلانے والے اسی کا بچا کھانا کھانے پر مجبور ہونا،کہیں غربت کا ننگا ناچ تو کہیں عیاشی کے میلے، کہیں کوٹوں پر ناچنے والوں الم ناک کہانی اور کہیں بھوک کا فلسفہ ، کہیں اعلی تعلیم یافتہ افراد کا دربدر دھکے کھانے پر مجبور تو وہیں نکمے نالائق اعلی افسران، کرونا سے ملاقات اور اور شرمندگی

،کہیں امرا کا ظلم وستم ،کہیں سیاستدانوں کی چالاکیاں اور عوام کو اندھیرے میں اسیر رکھنا، پولیس کا چھوٹے چوری کو بڑی چوریوں کے کیس تبدیل کرنا،کہیں شرافت کے پیچھے منصوعی چہرے اور کہیں درندگی کا عالم، بے بس مجبور کی عزت پامالی اور مکافات عمل کی کا سامنا، سود کی کمائی سے بنے محلوں پر قرآنی آیات “ہذا من فضل ربی “لکھا دیکھ شیطان کا شکوہ، کہیں رنگ نسل فرقہ واریت میں جلتی

عوام تو کہیں انسانیت کے نام پر انسانیت شرمندہ، قانون پاکستان اور حقیقت کا سامنا، دکھوں اور غموں کا کاروبار اور لوگوں کی مجبوریوں کی خریدوفروخت کا عمل ،ڈاکو کی رحم دلی تو کہیں الحاج منافقت سے منسلک، وقت کا ظلم تو کہیں انسانیت کا روٹھ جانا، کہیں افراتفری اور کہیں خدا کے نام پر خدا سے منافقت کہیں پیروں کا پیروں کے نام پر لوٹ مار کا بازار سرگرم، تو کہیں ضمیر کے سودے، تو کہیں

سیاست کی احوال انسانوں کے حالات دیکھ جانوروں کا جانور رہنے پر رب کا شکر ادا کرنا، ۔ماں کی ممتا کا یہ عالم بچوں کی بھوک اور اور معاشرے کی بے حسی پر کوٹھے سے ناطہ جڑنا، لوٹ مار ، کرپشن درندگی و انقلاب کا چرچا حقیقت اور افسانے کہانیاں تعلیم اور حقیقت ،کتابوں کاسبق اور زندگی کا سبق متضاد نظریہ ، کالجوں یونیورسٹیوں میں پڑھایا کچھ اور سمجھایا کچھ اور جاتا ہے اور حقیقت اس برعکس ،

نفرت کے بازار سرگرم اور محبت کا الوداعی پیغام ، مایوسیوں کا کا راج اور امید کا ناطہ توڑنا،تاریخ دان کا تاریخ من پسند شخصیات کی من پسند رضا لکھنا، طواف کا کوٹھا اور ۔ متقی پرہیز گاروں کے لبادے میں چھپے لوگوں کا بے نقاب ہونا ، پیروں سے عقیدت اور عقیدت کا طوائفوں سے جڑنا ، قانون جہاں ہار مان لے تو وہاں لالو بدمعاش انصاف پسند کا منظر عام آنا، ضرورت انسان کو کس چوارہے

پر لا کھڑی کرتی ہے۔وقت کتنا ظالم ہے خدا کے نام پر معاف نہ کرنے والے خدا کے نام پر معافی مانگنے پر مجبور،ایک انسان دو چہروں کا عادی، مقدس درخت اور مقدس کہانیوں کا منظرعام آنا اور حقیقت کا شرمندہ ہونا۔

یہ کتاب ہمارے معاشرے کی عکاسی ہے ہمارے سامنے وہ سب کچھ ہورہا ہے۔ اور ہم سب دیکھ کر آنکھ بند کرلیتے ہیں اور اپنی اپنی باری کے منتظر بیٹھے ہیں۔ کبھی کبھار تو یوں لگتا ہے کہ ہمیں اشاروں پر نچایا جارہا ہے تعلیم حقیقت بس نام تک محدود ہیں ہم بے بس بے جان لاشوں کی مانند موجود ہیں جو چاہے ہمیں دفنا دے جس کا من چاہے ہمیں جلا دیں انسانیت خود انسان سے شرمندہ ہے۔

وقت بے رحمی کا مظاہرہ کررہا ہے۔ صدیوں سے ہم بے جان پتھروں کی مانند پڑے انسان لفظ کا مطلب جاننے سے عاری ہیں۔ درندے بھی اپنی درندگی دیکھ کر ہم انسانوں سے پناہ مانگتے ہیں اور رب کائنات سے کہتے ہونگے ہمیں جانور کا نام کیوں دیا۔ مختصر یہی کہنا چاہوں گا افسوس کا مقام ہے۔انسانیت کا فلسفہ پڑھنا ہوگا۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں