اپوزیشن کی عدم اعتماد میں حکومت کا اعتماد
تحریر :شاہد ندیم احمد
تحریکِ عدم اعتماد لے کر حزبِ اقتدار اور حزبِ اختلاف کے مابین کھینچا تانی بدستور جاری ہے ،ایک طرف حکومت عددی اکثریت برقرار رکھنے کے لیے زور لگارہی ہے تو دوسری جانب اپوزیشن کی کوشش ہے کہ کسی بھی طرح سے تحریکِ عدم اعتماد کے ذریعے اپنی طاقت کا اظہار کر کے تاثر دیا جائے کہ حکومت کس حد تک غیرمقبول ہوچکی ہے، اپوزیشن کی عدم اعتماد میں حکومت اعتماد کا مظاہرہ کررہی ہے،حکومت اور اپوزیشن کی طرف سے تقا ریر اور بیانات میں ایسے دعوے کیے جارہے ہیںکہ جن کا مقصد دوسرے فریق کو اعصابی شکست سے دو چار کرنا ہے۔اس میں شک نہیں کہ حکومت اور اپوزیشن کے درمیان ایک دوسرے کو گرانے کی ٹھنی ہوئی ہے ،اپوزیشن کی طرف سے کہا جا رہا ہے
کہ عدم اعتماد کے لیے ہمارے نمبر پورے ہیں اور حکومت دعوئیدار ہے کہ عدم اعتماد کو ناکام بنانے کے لیے ہمارے پاس مطلوبہ اکثریت موجود ہے،تاہم حکومت پرلیمانی اجلاس بلارہی ہے نہ اپوزیشن تحریک عدم اعتماد لارہی ہے ، اس صورتِ حال میں سرکاری مشینری عدم استحکام کا شکار ہوچکی ہے اوربڑے فیصلے کرنے سے گریزاں ہے ،ایک طویل عرصے تک بے یقینی اور عدم استحکام کسی بھی طرح قومی مفاد میںنہیں ہے
،اگر اپوزیشن سمجھتی ہے کہ اْس کے پاس عدم اعتماد کے لیے اکثریت موجود ہے تو اْسے اسمبلی کے اجلاس کی ریکوزیشن دے کر اپنے ایجنڈے پر عمل کرنا چاہیے ،لیکن اپوزیشن کا مخمصہ کسی ڈھکا چھپا نہیں رہا ہے۔در حقیقت ایوزیشن تحریک عدم اعتماد کی متوقع ناکامی سے پیدا ہونے والی صورت حال کی وجہ سے تاریخیں دے رہی ہے ،اپوزیشن وزیراعظم کو مجبور کرنا چاہتی ہے کہ تحریک عدم اعتماد سے پہلے ہی مستعفی ہو جائیں، بلاول بھٹو زرداری اپنے لانگ مارچ میں بھی مسلسل مطالبہ کر رہے ہیں
،لیکن اس طرح سے منتخب حکومت گھر بھیجنے کی روایت پہلے کبھی بار آور ہوئی نہ اب ہو گی،اس کے لیے پہلے 58 بی ٹو کی چھڑی استعمال ہوتی رہی ہے،مگر مدت ہوئی قصہ ء پارینہ بن گئی ہے ،اپوزیشن کے پاس واحد راستہ وزیراعظم کے خلاف تحریک عدم اعتماد لانے کا رہ گیا ہے۔
اپوزیشن تحریک عد اعتماد لانے کیلئے پرُجوش ضرورہے ،لیکن اس کے ساتھ خوف ذدہ بھی ہے کہ اگر تحریک عدم اعتماد ناکام ہو گئی تو پھر اس حکومت کو اپنی آئینی مدت پوری کرنے سے کوئی روک نہیں سکے گا
اس لیے تحریک عدم اعتماد لانے میں تاخیر کررہی ہے ،تاہم اس کا سب سے بڑا نقصان یہ ہے کہ ملک میں عدم استحکام پیدا ہو تا جارہا ہے،یہ غیر معینہ عرصے تک بے یقینی کی فضا کاطاری رہنا ملک وجمہوریت کیلئے انتہائی نقصان دہ ہو سکتا ہے،اس لیے کوئی امکانی راستے تلاش کرنے چاہئے،اس بحرانی کیفیت سے نکلنے کے کئی امکانی راستے موجودہیں،اگردونوں فریق ذاتی کی بجائے ملکی مفاد کو ترجیح دینے کی روایت ڈالیں تو اس بحرانی کیفیت سے باآسانی نکلا جاسکتا ہے۔
اس میں کوئی دورائے نہیں کہ حکومت اور اپوزیشن کی محاذ آرائی سے دونوں کافائدہ سے زیادہ نقصان ہو گا ،
اس سے بچائو کاایک امکانی راستہ یہ ہے کہ حکومت اور اپوزیشن کے درمیان فوری طور پر ڈیڈ لاک ختم کر کے مکالمے کا سلسلہ شروع کیا جائے،دونوں میں نئے انتخابات کے لیے مذاکرات ہوں اور کسی قابل ِ قبول تاریخ کا تعین کر لیا جائے ،دوسرا امکانی راستہ ہے کہ اپوزیشن حکومت کے خلاف تحریک عدم اعتماد لے آئے، اگرکامیاب ہو گئی تو حکومت ختم ہو جائے گی ،ناکام ہوئی تو اپوزیشن اَنا کا مسئلہ بنانے کی
بجائے حکومت کو اپنی آئینی مدت پوری کرنے دے ،تاہم ان دونوں صورتوں میں یہ جذبہ برقرار رہنا چاہیے کہ ملک کو عدم استحکام کا شکار نہیں کرنا ہے۔اس وقت ملک بہت سے بحران کا شکار ہے ،یہ وقت باہمی انتشار کا نہیں ،باہمی اتحاد و یکجہتی کا ہے ،اس وقت سیاسی قوتوں کو جمہوری روایات کی پاسداری کرتے ہوئے ایک دوسرے کو برداشت کرنے کا رویہ اپنانے کی اشد ضرورت ہے
لیکن سیاست میں روداری ناپید ہو تی جارہی ہے
،،آئین میں حدود اور طریقے وضع کر دیئے گئے ہیں ،حکومت اور اپوزیشن کواْن کے مطابق سیاست میں طبع آزمائی کرنی چاہیے ، لیکن اس کے برعکس ایک دوسرے کو گرانے کیلئے جائزوناجائز طریقہ استعمال کیا جارہا ہے ، اپوزیشن کی عدم اعتماد میں حکومت پرُاعتماد ضرور ہے ،تاہم سیاسی قوتوں کو باہم مل کر ایسی فضا بنانی چاہئے
کہ جو ملک کو بے یقینی اور عدم استحکام سے نکال سکے،اس ملک میں استحکام ہو گا تو سیاست اور جمہوریت بھی چلتی رہے گی اور اگر عدم استحکام کی فضا یو نہی برقراررہی تو پھر سیاست چلے گی نہ جمہوریت رہے گی،اس ملک میں پھر آمریت ہی راج کرے گی