ایک نیاء میثاق جمہوریت
تحریر :شاہد ندیم احمد
ملکی سیاست میں تحریک عدم اعتماد کا شور کم ہو نے کی بجائے بڑھتا ہی جارہاہے ،وزیراعظم عمران خان اور ان کے رفقا نے وسیع النظری سے اپوزیشن کی تحریکِ عدم اعتماد کا چیلنج جہاں قبول کیا ہے، وہیں حزبِ اختلاف سے تعلق رکھنے والی جماعتیں حکومت کی تبدیلی اور آئندہ وزیراعظم کے تعین کی حد تک پْرامید دکھائی دیتی ہیں،حکومتی ترجمان وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات فواد چوہدری کا اندازہ ہے
کہ آئندہ ہفتے اپوزیشن جماعتیں اپنی ناکام تحریک لیکر واپس گھروں کو لوٹ جائیں گی ،جبکہ چیئرمین پیپلز پارٹی بلاول بھٹو زرداری کا تحریکِ عدم اعتماد کو مشکل ہدف قرار دیتے ہوئے کہناہے کہ اس میں کامیابی کی گارنٹی تو نہیں دی جا سکتی ،تاہم وزیراعظم کا بندوبست کرنے تک چین سے نہیں بیٹھیں گے۔
تحریک انصاف جب سے برسر اقتدار آئی ہے ،اپوزیشن کا ایک ہی ایجنڈ ا رہا ہے کہ حکومت گرائی جائے ، حکومت مخالف سیاسی جماعتوں کی جانب سے اپنے دیرینہ ہدف کی تکمیل کیلئے ایک بار پھر اپوزیشن قائدین اسلام آباد میں یکجا ہو رہے ہیں،وفاقی دارالحکومت کے سیاسی ماحول میں ایک عدم اعتمادکی فضاء ہے ،
اس عدم اعتماد کی فضاء میں کوئی پر اعتماد نظر نہیں آرہا ہے ، اپوزیشن تحریک عدم اعتماد کو کا میاب بنانے کیلئے جوڑ توڑ میں مصرف ہے ،حکومت کی جانب سے جارحانہ بیانات کے باوجود اپوزیشن بظا ہر کوشش کررہی ہے کہ وزیراعظم کیخلاف تحریک عدم اعتمادکے ذریعے تبدیلی لانے میں کا میاب ہو جائے گی اور ایک بار پھر ایک منتخب وزیر اعظم اپنی آئنی مدت پوری نہیں کر پائے گا۔
اگر دیکھا جائے توعوام نے تحریکِ انصاف کو مینڈیٹ دیے رکھا ہے، سیاسی سوجھ بوجھ کا تقاضا تو یہی ہے کہ عمران خان فطری راستے پر چلتے ہوئے اپنے سیاسی انجام سے دوچار ہوتے، لیکن پتہ نہیں اچانک ایسا کیاہوا ہے کہ ایک دم سے تمام سیاسی قوتیں حکومت مخالف متحرک ہو گئی ہیں ،سیاست میں ایک طرف خریدوفروخت کا بازار گرم ہے تو دوسری جانب سیاسی وفاداریاں بدلی جارہی ہیں ،
تحریکِ عدم کے نام پر کھولے عام غیر جمہوری کھیل کھیلا جارہا ہے اور کوئی روکنے والا نہیں ،سارے ادارے خاموش تماشائی بنے ہوئے ہیں،اپوزیشن اپنی تحریک عدم اعتماد کامیاب بنانے کیلئے تمام حربے استعمال کررہی ہے ،مگر اس کے پاس بھی متبادل کوئی پروگرام نہیں ہے ، اپوزیشن بار ہا حکومت گرانے کی تدابیر تو کررہی ہے ،مگر عوامی مسائل کے تدارک کا کوئی فارمولہ پیش نہیں کر پا رہی ہے۔
اپوزیشن قیادت تحریکِ عدمِ اعتمادکی کا میابی کے بعد کا کوئی فارمولہ پیش کرنے کی بجائے عدم اعتماد کے غبارے میں ہی مزید ہوا بھرتے جارہے ہیں ،اگر اس غبارے سے فوری ہوا نہ نکلی تو یہ غبارہ پھٹ کر بھک سے اڑ جانے والا ہے،اپوزیشن قیادت عوام کے آزمائے ہوئے ہیں، عوام کو تحریکِ عدم اعتماد کے انجام کے بعد کوئی روشنی کی کرن نظر نہیں آ رہی ہے ،عوام اچھی طرح جانتے ہیں
کہ اگر بیرونی قوتوں کی مدد سے اپوزیشن کا میاب ہو بھی گئی تواس عدم اعتماد کے بعد کا زمانہ موجودہ دور سے بھی بدتر ہوگا،اس لیے پاکستانی قوم کسی نئے تجربات سے گزرنے کیلئے تیار نہیں ہے،اس وقت، ملکی حالات اِس نہج پر پہنچ چکے ہیں کہ اْن کو سنبھالنا کسی ایک جماعت کے بس کی بات نہیں رہی ہے۔
وزیر اعظم جتنا مرضی عوام کو دلاسے دیں کہ گھبرائیں نہیں ،عوام گھبرائے ہوئے ہیں ،حکومت اور اپوزیشن کے درمیان گالی گلوچ اور دھمکیوں میں عوام کو اپنا مستقبل تاریک نظر آتا ہے ،حکومت کی تبدیلی سے عوام کی زندگی میں کوئی تبدیلی آئی نہ تحریک عدم اعتماد سے عوام کی زندگی بدلے گی ،اس اقتدار کی بندر بانٹ میں پہلے بھی عوام پستے رہے اور آئندہ بھی سارا بوجھ عوام پر ہی ڈالا جاتا رہے گا ،
تحریک عدم اعتماد میں کس کی جیت اور ہار ہوتی ہے ،عوام کو کوئی غرض نہیں ،عوام اپنے مسائل کا تدارک چاہتے ہیں ،حکومت اور اپوزیشن جب تک عوام کیلئے اپنی سوچ نہیں بدلیں گے ،عوام بھی کسی کا ساتھ دینے کیلئے تیار نہیں ہوں گے۔حکومت اور اپوزیشن قیادت کب تک عوام کو بے وقوف بناتے رہیں گے،عوام کل بھی اقتدار کے حصول کیلئےاستعمال ہوئے ،آج بھی ہورہے ہیں،عوام کب تک اقتدار کے بیرحم کھیل کا حصہ بنتے رہیں گے، عوام کی کمر پر ان کی استطاعت سے زیادہ بوجھ نے ان کا سانس لینا مشکل کردیا ہے،
لیکن ایسا کب تک چلتا رہے گا؟ خدا کے لیے سیاسی جماعتیں اقتدار کے کھیل سے باہر نکلیں اور پاکستان کی سالمیت اور عوام کے مسائل کے تدارک کیلئے سر جوڑ کر بیٹھنے کی کوشش کریں، یہ وقت تحریک عد اعتماد کا نہیں ،باہمی اتحاد کا ہے ،اِس وقت ملک کومعاشی گرداب سے نکالنے کیلئے ایک ایسے نئے میثاقِ جمہوریت کی ضرورت ہے
کہ جس میں تمام سیاسی جماعتیں شامل ہوں، اس معاہدے سے تحریک انصاف سمیت کوئی سیاسی جماعت باہر نہیں ہونی چاہئے، ملک و عوام کے حقیقی مسائل کے تدار پر سب اکٹھے ہوں گے تو ہی بات بنے گی